مجروح سلطان پوری ایک لاجواب نغمہ نگار پہلا حصہ
مجروح سلطان پوری کے فلمی کیریئر کا آغاز فلمساز کاردار کی فلم شاہجہاں سے ہوا، فلم کے موسیقار نوشاد تھے۔
مسلم سوشل فلمیں بنانیوالے فلمسازوں میں ایک جگمگاتا ہوا نام فلمساز اے آرکاردار بھی تھا۔ 1946ء میں بنائی گئی ان کی ایک فلم ''شاہجہاں'' نے سارے ہندوستان میں اپنی بے مثال کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔ اس فلم کے فنکاروں میں اس دور کے بڑے عظیم نام تھے۔
جیسے کندل لال سہگل، راگنی، جیراج ، نسرین اور ہمالیہ والا، اس فلم کی خوبی جہاں فلم کی کہانی کا تاریخی پس منظر تھا، وہاں اس فلم کے گیتوں کا بھی بڑا کمال تھا جو ان دنوں گلی گلی گائے جاتے تھے اور کندل لال سہگل کی آواز نے ان گیتوں کو امر بنا دیا تھا اور فلم کے گیت نگار تھے مجروح سلطان پوری۔ مجروح سلطان پوری یہ فلمساز اے آرکاردار کی گڈ بک میں کس طرح آئے اس کا بھی ایک دلچسپ قصہ ہے۔
یہ 1945ء کی بات ہے ممبئی میں ایک آل انڈیا مشاعرہ منعقد ہوا تھا جس میں ہندوستان کے نامی گرامی شاعروں کو مدعو کیا گیا تھا۔ جگر مراد آبادی کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ یہ اپنے ساتھ اپنے ایک نوجوان دوست کو بھی ساتھ لے گئے تھے۔ وہ دوست تھے مجروح سلطان پوری۔ اس مشاعرے میں بہت سی فلمی شخصیات بھی موجود تھیں جن میں فلمساز اے آر کاردار بھی تھے۔
جب مشاعرہ شروع ہوا تو بڑے بڑے شاعروں نے جہاں اپنا کلام سنایا یہاں مجروح سلطان پوری جب اسٹیج پر اپنا کلام سنانے آئے تو نو وارد ہونے کے باوجود جید شعرا کے درمیان ان کے کلام کو بڑا پسند کیا گیا اور ان کی غزلوں نے سامعین کے دل جیت لیے تھے اور یوں کہا جائے تو بہتر رہے گا کہ جگر مراد آبادی کے بعد مجروح سلطان پوری نے بھی مشاعرہ لوٹ لیا تھا۔
مشاعرے کے افتتاح پر ایک خصوصی دعوت میں جگر مراد آبادی کو کاردار صاحب نے اپنی نئی فلم شاہجہاں کے لیے گیت لکھنے کی آفر دی تو جگر مراد آبادی نے مجروح سلطان پوری کو آگے کرتے ہوئے کہاکہ بھئی ہمیں تو آپ فلمی دنیا سے دور ہی رکھیں۔ ہاں اس ہمارے دوست شاعر کو اپنی فلموں کا حصہ بنا لیں۔ ہم ٹھہرے بلا نوش فلم والوں کی کچھ بندشیں ہوتی ہیں۔ ہماری بات زیادہ بنے گی نہیں۔
مجروح سلطان پوری کی شاعری آپ کے ضرور کام آئے گی اور اس طرح مجروح سلطان پوری کو فلم ''شاہجہان'' کے گیت لکھنے کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ یوں مجروح سلطان پوری کے فلمی کیریئر کا آغاز فلمساز کاردار کی فلم شاہجہاں سے ہوا، فلم کے موسیقار نوشاد تھے۔ مجروح سلطان پوری نے پہلا گیت لکھا وہ کاردار صاحب کو پسند آیا پھر دوسرا گیت لکھا وہ بھی اس سے بھی زیادہ پسند آیا۔ پھر جب وہ گیت گندل لال سہگل کی آوازوں میں ریکارڈ کیے گے جو ریکارڈنگ کے دوران ہی ان گیتوں کی شہرت ہو گئی تھی پھر جب فلم ''شاہجہاں'' 1946ء میں ریلیز ہوئی تو اس کے گیتوں نے سارے ہندوستان میں دھوم مچا دی تھی اور وہ گیت تھے۔
غم دیے مستقل کتنا نازک ہے دل
یہ نہ جانا ہائے ہائے یہ ظالم زمانہ
جب دل ہی ٹوٹ گیا
ہم جی کے کیا کریں گے
چاہ برباد کرے گی ہمیں معلوم نہ تھا
پھر شاہجہان کے بعد مجروح سلطان پوری کے گیتوں کا سفر اس طرح آگے بڑھا جیسے کہ کوئی اڑن طشتری آسمان کی طرف بڑھتی ہے۔ اس دور کے سارے نامور نغمہ نگاروں کو مجروح سلطان پوری نے حیرت زدہ کر دیا تھا۔ ہر بڑے فلمساز کی ترجیح پھر مجروح سلطان پوری ہی ہوتے چلے گئے تھے۔ اس سے پہلے کہ میں ان کے بیش بہا دل میں اتر جانے والے گیتوں کا تذکرہ کروں کچھ ان کی ابتدائی زندگی پر روشنی ڈالتا ہوں۔
مجروح سلطان پوری کا اصلی نام اسرار حسن خان تھا یہ 1919ء میں ضلع اعظم گڑھ ہندوستان کے ایک چھوٹے سے قصبے نظام آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ پھر تلاش روزگار کی خاطر ان کے والد سلطان پور میں آ بسے تھے، پھر اسی علاقے میں ان کی ابتدائی تعلیم کا آغاز ہوا، یہی پلے بڑھے، ان کے والد پیشے کے اعتبار سے حکیم تھے اور شعر و ادب کے بھی بڑے دلدادہ تھے۔ اسرار حسن خان کو ادب سے دلچسپی اپنے گھر ہی سے ملی تھی۔
ان کے والد کتابیں پڑھتے تھے، تمام چنیدہ شاعروں کا کلام بھی ان کے پاس تھا اور پھر جیسے جیسے شعور آتا گیا اسرار حسن خان بھی مرزا غالب سے لے کر داغ دہلوی تک بہت سے شاعروں کو پڑھ چکے تھے۔ نو عمری ہی سے انھوں نے شاعری شروع کر دی تھی اور اپنا تخلص مجروح رکھا اور اپنے علاقے سلطان پور کو اہمیت دیتے ہوئے یہ مجروح سلطان پوری کہلائے جانے لگے۔ چھوٹے چھوٹے مشاعروں کی محفلوں میں انھیں بلایا جانے لگا اور کئی بڑے بڑے شاعروں سے ان کی بھی دعا سلام ہوتی چلی گئی۔ پھر یہ اس دور کے نامور شاعر جگر مراد آبادی کے قریب آ گئے ان کی قربت نے ان کی شاعری کو مزید نکھرنے اور آگے بڑھنے کے مواقعے میسر کیے اور پھر بڑے بڑے مشاعروں میں انھیں بھی مدعو کیا جانے لگا تھا۔ ممبئی بھی یہ جگر مراد آبادی کے کہنے پر ہی گئے تھے۔
مجروح سلطان پوری نے ترقی پسند ادبی تحریک کے دستے میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ابتدا میں ان کی شاعری بھی کمیونسٹ خیالات کی حامل رہی تھی اور ان کو ہندوستان میں ایک باغی شاعر بھی قرار دیا گیا تھا۔ ایک مرتبہ جب مرارجی ڈیسائی مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ تھے ان کو گرفتار کر کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا تھا۔ جیل کی سختیوں کے دوران بھی ان کی شاعری میں نرمی نہیں آئی بلکہ اور سختی آتی چلی گئی تھی۔ جیل سے ان کی شاعری باہر آتی تھی اور پھر اور زیادہ شہرت ملتی تھی۔ اسی دوران کا ان کا ایک بڑا مشہور شعر ہے:
روک سکتا ہمیں زندان بھلا کیا مجروحؔ
ہم تو آواز ہیں دیوار سے چھن جاتے ہیں
اسی طرح اس شعر کو بھی اس زمانے میں بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔
ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے
جب یہ جیل میں تھے تو وہاں بھی ان کی شاعری آگ اگل رہی تھی، تو پھر ہندوستان سرکار نے یہ سوچ کر کہ مجروح کی شاعری جیل کی سلاخوں کے پیچھے زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے، انھیں جیل سے رہا کردیا تھا۔ مجروح سلطان پوری کی تربیت میں حسرت موہانی اور ڈاکٹر ذاکر حسین جیسی عظیم شخصیتوں کی زندگی کا عکس شامل رہا ہے اور پھر پروفیسر رشید احمد صدیقی کا بھی ان کی شخصیت کو سنوارنے میں بڑا دخل رہا ہے۔
مجروح سلطان پوری نے کافی عرصے تک شعر و ادب کی آبیاری کی، یہ اردو کے علاوہ عربی اور فارسی زبان کی بھی بڑی سمجھ رکھتے تھے اور ان کا شمار بھی فلمی دنیا میں آنے سے پہلے کیفی اعظمی، اختر الایمان، ساحر لدھیانوی اور جاں نثار اختر جیسی نامور شخصیتوں میں ادب کے ساتھ ہونے لگا تھا۔
ان کے کئی مجموعہ کلام بھی منظر عام پر آئے جن میں ''مشعل جاں'' اور ''غزل'' نے بڑی شہرت حاصل کی تھی اور یہ ہندوستان کے ساتھ پاکستان میں بھی بڑے مقبول تھے۔ اب میں پھر اپنا سلسلہ کاردار کی فلم ''شاہجہاں'' سے جوڑتاہوں، جس فلم کے گیتوں نے مجروح سلطان پوری کو شہرت کی رہ گزر کا ایک خوش نصیب ہم سفر بنا دیا تھا۔ انھی دنوں مجروح سلطان پوری کو اس دور کے نامور ہدایت کار محبوب خان نے اپنی پروڈکشن میں شامل ہونے کا بلاوا بھیج دیا ان دنوں وہ فلم ''انداز'' بنا رہے تھے۔ موسیقار نوشاد مجروح سلطان پوری کی صلاحیتوں سے بڑے متاثر ہوئے تھے۔ فلم انداز کے موسیقار بھی نوشاد ہی تھے۔
(جاری ہے۔)