دفاع وطن پہ مامور بہادر سپوت شہید طاہر داوڑ کا بہیمانہ قتل

پاکستان دشمن قوتوں کی سوچی سمجھی سازش کا ڈرامائی قصّہ جو ایک تیر سے کئی شکار کرنا چاہتی تھیں


سید عاصم محمود November 25, 2018
پاکستان دشمن قوتوں کی سوچی سمجھی سازش کا ڈرامائی قصّہ جو ایک تیر سے کئی شکار کرنا چاہتی تھیں۔ فوٹو: فائل

یہ 26 اکتوبر کی دوپہر تھی جب پچاس سالہ طاہر خان داوڑ پشاور سے اسلام آباد کے سیکٹر ایف۔10میں واقع اپنی رہائش گاہ پہنچے۔وہ ضلع پشاور میں دیہی علاقے(رورل سیکٹر)کے ایس پی تھے۔

یہ بڑا حساس علاقہ ہے کیونکہ وہاں پچھلے دس سال سے پاکستان کی دشمن (جانی پہچانی) خفیہ ایجنسیوں کے کارندے پاکستانی باشندوں کا بہروپ بھر کر گھومتے پھرتے ہیں۔وہ مقامی باشندوں میں گھل مل کر پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔طاہر داوڑ کی ذمے داری تھی کہ وہ مع عملہ جرائم پیشہ افراد کے علاوہ دشمن ایجنسیوں کے ایجنٹوں پر بھی نظر رکھیں۔

طاہر داوڑ کا تعلق جنوبی وزیرستان سے تھا۔وسائل کی کمی کے باوجود علم وادب سے رغبت رکھنے کے باعث اعلی تعلیم پائی۔پشتو ادب میں ایم اے کیا۔شاعری بھی کرتے۔1995ء میں دفاع وطن پر مامور پولیس فورس کا حصہ بن گئے۔

انھیں پشاور میں بہ حیثیت سب انسپکٹر تعینات کیا گیا۔شاعر ہونے کے ناطے وہ ایک حساس اور ہمدرد شخصیت کے مالک تھے۔کسی کو تکلیف میں دیکھتے تو فوراً اس کی مدد کو دوڑ پڑتے۔مگر قانون توڑنے والوں اور وطن دشمنوں کے لیے وہ برہنہ تلوار کے مانند تھے اور نہایت دلیری سے ان کا قلع قمع کرتے۔ارض پاک سے بڑی محبت تھی۔فرض شناس اور جی دار افسر تھے۔انہی خوبیوں کے باعث ترقی کے مدارج طے کرتے چلے گئے۔

2007ء میں بنوں کنٹونمنٹ پولیس اسٹیشن کے سربراہ تھے کہ ا یک خود کش حملے میں شدید زخمی ہو ئے۔انھیں بذریعہ ہیلی کاپٹر پشاور پہنچایا گیا۔فوری علاج کی وجہ سے جان بچ گئی۔2009ء میں پھر ایک بم دہماکے کی زد میں آئے مگر رحیم و کریم اللہ تعالی نے زندگی محفوظ رکھی۔یہ وہ وقت تھا جب پورے پاکستان خصوصاً خیبر پختونخوا میں شدت پسند عناصر اور دشمن خفیہ ایجنسیوں کے کارندے ہمارے سیکورٹی اداروں اور پاکستانی قوم کو بے دریغ نشانہ بنائے ہوئے تھے۔اس موقع پر خیبر پختونخوا کی پولیس پوشیدہ دشمنوں کے خلاف پہلی دفاعی لائن بن گئی۔

تب کئی پولیس افسروں اور جوانوں نے ملک وقوم کا دفاع کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔پے در پے شہادتوں کے باوجود پولیس کا عزم وحوصلہ جوان رہا اور وہ دیگر سیکورٹی اداروں کی معیت میں بڑی پامردی سے چھپ کر وار کرنے والے بزدل دشمنوں کا مقابلہ کرتی رہی۔اسی بے خوفی،مستقل مزاجی اور بہادری کا نتیجہ ہے کہ ارض پاک کے دشمن زخم چاٹتے فرار ہونے پر مجبور ہو ئے۔ سیکورٹی اداروں کے ہزارہا جوانوں اور افسروں نے اپنا لہو بہا کر سرزمین پاک پہ امن ومحبت کے پھول کھلا دئیے۔

وطن عزیز کے ازلی دشمنوں کی مگر بھرپور کوشش ہے کہ ایٹمی قوت کی حامل اس اسلامی مملکت کو معاشی وعسکری لحاظ سے طاقتور نہ ہونے دیا جائے۔ظاہر ہے،معاشی وعسکری طور پر مضبوط پاکستان خطے میں عالمی طاقتوں کے مفادات پورے کرنے میں رکاوٹ بنے گا۔اسی لیے ان طاقتوں کی سعی ہے کہ خاص طور پر پاکستانی سیکورٹی اداروں کو اندرونی تنازعات اور مسائل میں الجھا کر رکھا جائے تاکہ پاکستان میں انتشار اور بے چینی پیدا ہو سکے۔ایسے دگرگوں حالات میں ملکی وغیرملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے گھبراتے ہیں۔اور پاکستان دشمن طاقتوں کا مقصد ومنشا بھی یہی ہے۔

واقعہ نائن الیون کے بعد بدقسمتی سے وزیرستان خانہ جنگی کا نشانہ بن گیا جس نے ہزارہا باشندوں کو ہجرت کرنے پہ مجبور کر دیا۔طاہر داوڑ اپنے ہم وطنوں کو مسائل میں مبتلا دیکھ کر غمگین ہو جاتے۔ان کی کوشش تھی کہ حکومت مہاجرین کے مسائل حل کرے۔مگر انتظامیہ کا حصہ ہونے کے باعث وہ یہ سچائی بھی جانتے تھے کہ محدود وسائل کی وجہ سے حکومت اور سیکورٹی ادارے تمام لوگوں کی دامے درمے سخنے مدد نہیں کر سکتے۔

وزیرستانی مہاجرین کے ایک گروہ نے دریں اثنا پی ٹی ایم نامی تنظیم بنا لی تاکہ اپنے مسائل اجاگر کر سکیں۔مگر یہ شواہد موجود ہیں کہ اس تنظیم میں دشمن خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹ شامل ہو گئے۔پاکستان دشمن طاقتوں کی یہ پرانی ریت ہے کہ جب بھی ارض پاک میں کوئی ریاست سے نالاں تنظیم جنم لے تو وہ اسے اپنے مقاصد پورے کرنے کی خاطر ہائی جیک کرلیتے ہیں۔

مدعا یہ ہے کہ اسے قوت دے کر مملکت کے خلاف ایک اور دشمن پیدا کیا جائے۔ممکن ہے کہ پی ٹی ایم کے بعض لیڈر دشمن طاقتوں کے تنخواہ دار کارندے بن چکے ہوں۔اپنے مسائل پر بات کرتے کرتے یہ لیڈر اچانک پاکستان اور قومی سیکورٹی اداروں کونشانہ بنانے لگے۔وہ بھول گئے کہ ان کے مسائل اپنوں کی خانہ جنگی و غداری کا بھی نتیجہ ہیں۔تالی کبھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔

طاہر داوڑ قدرتاًبے گھری کی تکالیف سہتے غریب وزیرستانی مہاجرین سے ہمدردی رکھتے تھے۔مرحوم کی سعی تھی کہ حکومت ان کے جائز مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرے۔اگست 2018ء میں انھیں ایس پی مقرر کیا گیا۔اس سے قبل ہی وہ مختلف دیہی علاقوں کے دورے کرنے لگے تھے ۔ان کی بھرپور کوشش تھی کہ عوام اور حکومت مل جل کر مسائل پہ قابو پانے کی جدوجہد کریں۔جب بھی ریاست وحکومت سے نالاں مقامی افراد سے کا واسطہ پڑتا تو وہ بڑے پیار اورتدبر سے ان پر حقیقی صورت حال واضح کرتے۔ انھیں بتاتے کہ پاکستان پر نہایت طاقتور دشمنوں نے یلغار کر رکھی ہے اور سیکورٹی ادارے ہر ممکن کوششوں سے ارض پاک کا دفاع کر رہے ہیں۔

لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ سبھی پاکستانی اپنے اختلافات بھلا کر اتحاد ویک جہتی اپنا لیں ۔اس طرح پاکستان دشمن قوتوں کو شکست دینا آسان ہو جائے گا۔ ارض پاکستان سے الفت رکھنے والا یہ دلیر وزیرستانی سپوت دشمن کی نگاہوں میں کانٹا بن کر کھٹکنے لگا۔ طاہر داوڑ اپنی متحرک شخصیت اور ان تھک سرگرمیوں کے ذریعے خیبر پختونخوا کے دیہی علاقوں میں مقیم ناخواندہ باشندوں میں جذبہ حب الوطنی پیدا کر رہے تھے۔ان کا طریق عمل پاکستان دشمن پروپیگنڈے کا نہایت کارگر توڑ بن گیا اور اس کے بد اثرات زائل کرنے لگا۔تبھی دشمنان ِپاکستان نے وزیرستان کے اس اعلی پولیس افسر کو اپنی راہ سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ علاقہ غیر میں ارض پاک کے خلاف اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھ سکیں۔

طاہر داوڑ 26 اکتوبر کواسلام آباد کیوں آئے،یہ امر واضح نہیں۔ بھائی کا دعویٰ ہے کہ وہ کسی میٹنگ میں شرکت کرنے آئے تھے۔مگر ساتھی پولیس افسر بتاتے ہیں کہ مرحوم نے نجی معاملات کے سلسلے میں مختصر رخصت لی تھی۔بہرحال یہ بات ضرور واضح ہے کہ انھیں اسلام آباد میں حملے یا اغوا کا کوئی خدشہ نہیں تھا۔اسی لیے وہ محافظ کے بغیر صرف ڈرائیور کے ہمراہ دارالحکومت پہنچے۔شام کو جب اندھیرا چھا گیا تو وہ گھر سے نکلے۔ملازمین کو بتایا کہ وہ سیر کرنے جا رہے ہیں۔افسوس کہ انھیں واپس آنا نصیب نہیں ہوا۔14 نومبر کو خبر ملی کہ ان کی تشدد شدہ لاش افغان صوبے،ننگرہار میں پائی گئی ہے۔شہید کو سروس کارڈ کی مدد سے شناخت کیا گیا۔حیران کن بات یہ کہ اکثر اخباری رپورٹوں میں دعوی کیا گیا ، طاہر داوڑ اغوا ہوئے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ دعوی کس بنیاد پر ہوا؟کیا کسی عینی شاہد نے انھیں اغوا ہوتے دیکھا؟مگر خبروں میں ایک بھی عینی شاہد کا ذکر موجود نہیں۔طاہر داوڑ تربیت یافتہ پولیس افسر تھے۔وہ ایف بی آئی میں بھی رہے۔ دلیروجری انسان تھے۔انھیں اغوا کرنا بچوں کا کھیل نہیں تھا۔مذید براں وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ شدت پسند اور دہشت گرد، دونوں قوتوں سے ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں لیکن وہ تن تنہا گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔یہ سچائی آشکارا کرتی ہے کہ انھیں پورا یقین تھا، ان کی زندگی وفاقی دارالحکومت میں پوری طرح محفوظ ہے اور اسے کسی قسم کا خطرہ نہیں۔

صورت حال سے عیاں ہے کہ طاہر داوڑ کسی سے ملنے نکلے تھے مگر انھوں نے اس ملاقات کی بابت کسی کو کچھ بتانا ضروری نہیں سمجھا۔ عین ممکن ہے کہ ملاقات کی نوعیت خفیہ ہو۔شاید کوئی شخص انھیں کسی ہائی ویلیو ٹارگٹ کے متعلق معلومات دینا چاہتا ہو۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کسی دوست یا واقف کار سے ملنے گئے اور اس کے ساتھ کہیں روانگی کا پروگرام بن گیا۔

اسی دن رات ساڑھے سات بجے طاہر داوڑ کی اہلیہ کو موبائل پر شوہر کا یہ میسج موصول ہوا تھا کہ وہ اس وقت سرائے عالمگیر،جہلم میں ہیں۔وہ تب وہاں کیا کر رہے تھے؟کیا وہ کسی دوست یا دوستوں کے ساتھ بغرض تفریح وہاں گئے یا کسی خفیہ مشن کے سلسلے میں یہ سفر کیا گیا؟یہ بات تفتیش و تحقیق ہی سے سامنے آئے گی۔ممکن ہے،یہ دوست پی ٹی ایم سے تعلق رکھتے ہوں۔

درج بالا حقائق سے واضح ہے کہ طاہر داوڑ کو اغوا ضرور کیا گیا مگر ایسے نہیں کہ اچانک ایک کار آئی اور زبردستی انھیں سوار کرا کے رفوچکر ہو گئی...وہ باقاعدہ ایک سوچے سمجھے پلان کے تحت اغوا ہوئے۔پہلے انھیں کسی ایک دوست یا زیادہ دوستوں کی وساطت سے گھر سے باہر بلایا گیا۔وہ دوست پھر انھیں بہلا پھسلا کر اسلام آباد سے باہر لے گئے۔

جب کوئی ویران مقام آیا تو موقع پاتے ہی انھیں قابو کر لیا گیا۔گویا طاہر داوڑ اپنے اغوا سے مکمل طور پر بے خبر تھے اور کسی بروٹس کے خنجر کا نشانہ بن گئے۔ یہی وجہ ہے اسلام آباد میں اور شہر سے باہر جاتے ہوئے بھی انھوں نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔یاد رہے،پچھلے سال بھارتی خفیہ ایجنسی،را پاک فوج کے ایک ریٹائرڈ کرنل،محمد حبیب کو بھی گہری سازش میں پھنسا کر نیپال لے گئی تھی۔پھر وہاں سے انھیں اغوا کر لیا گیا۔خیال ہے کہ وہ بھارت میں کسی خفیہ سیل میں قید ہیں۔

یہ بات نہایت تعجب خیز اور افسوس ناک ہے کہ جیسے ہی طاہرداوڑ کے اغوا کی خبر عام ہوئی تو بعض خودساختہ دانشوروں نے اپنے ہی سکیورٹی اداروں اور حکومت کے خلاف طوفان سر پر اٹھا لیا۔وہ ان پہ تنقید کرتے واویلا مچانے لگے کہ دعویٰ کیا جاتا ہے،اسلام آباد میں دشمن کا پرندہ پر نہیں مار سکتا، پھر وہاں سے ایک اعلیٰ پولیس افسر کیسے اغوا ہو گیا؟اس اغوا کو سکیورٹی اداروں کی ناکامی قرار دے کر دانشور ان پہ برس پڑے۔یوں جانے انجانے میں یہ نام نہاد دانشور پاکستان دشمن طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے لگے۔

ان کا تو بنیادی مقصد ہی پاکستانی سکیورٹی اداروں خصوصاً افواج پاکستان اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بدنام کرنا اور نااہل قرار دینا ہے۔ طاہر داوڑ کی بہیمانہ شہادت کا ڈرامہ بھی سوچی سمجھی سازش کے تحت اس طرح رچایا گیا کہ پاکستانی سکیورٹی اداروں کی نااہلیت ثابت کی جاسکے۔ نام نہاد پاکستانی دانشور اس ڈرامے کو سچ سمجھ کر طوطے کی طرح دشمنوں کی زبان بولتے اپنے ہی دفاعی اداروں کے خلاف بولنے لگے۔

حالات و واقعات سے عیاں ہے کہ طاہر داوڑ کو شہید کرکے عیار و مکار پاکستان دشمن طاقتوں نے ایک تیر سے کئی شکار کرلیے۔ اول یہ کہ پاکستان کو ایک تجربے کار،ذہین اور محب وطن پولیس افسر سے محروم کر دیا گیا۔طاہر داوڑ خصوصاً وزیرستان میں ریاست کی توانا آواز تھے۔دوم بعض پاکستانی دانشور کھل کر سکیورٹی اداروں کو بدنام کرنے لگے۔ یہاں تک کہہ دیا گیا کہ ریاست نے طاہر داوڑ کو قتل کروایا۔ اس الزام سے ظاہر ہے کہ ملک دشمن عناصر اس قتل سے دوہرا فائدہ حاصل کرنا چاہ رہے ہیں۔ طاہر داوڑ ملک دشمن عناصر سے کوئی رابطہ نہیں رکھتے تھے۔

بلکہ ساری عمر ان کی سعی رہی کہ ان عناصر میں جذبہ حب الوطنی بیدار کیا جائے۔ اس سلسلے میں ویڈیوز بھی موجود ہیں۔ لہٰذا یہ دلیل انتہائی بودی ہے کہ ریاست نے اپنے ہی ایک دلیر و جری محافظ کو موت کی نیند سلادیا۔ حقیقت یہ ہے کہ طاہر داوڑ کی شہادت سے پاکستان ایک باہمت اور فرض شناس رکھوالے سے محروم ہوگیا۔ ان کی شہادت سے دفاع وطن کو نقصان پہنچا ۔مگر طاہر داوڑ کے نقش قدم پر چل کر ہی لاکھوں پاکستانی بہادر سپوت دفاع وطن کو مضبوط و توانا رکھیں گے۔

اسی طرح جب علم ہوا کہ طاہر داوڑ افغانستان میں شہید ہو چکے تو پھر جعلی دانشور قومی اداروں پہ زبروتوبیخ کرتے شور مچانے لگے کہ وہ وہاں کیسے پہنچ گئے؟ پھر قومی اداروں پہ بے سروپا الزامات لگائے گئے۔دور جدید کے یہ ابوجہل نہیں سوچتے کہ یوں وہ دشمن کے آلہ کار بن بیٹھتے ہیں۔بے سروپا الزامات سے سیکورٹی اداروں کے عزم وحوصلے کو ضعف پہنچتا ہے اور دفاع وطن پہ مامور جوانوں کی ہمتیں پست ہونے لگتی ہیں۔یہ نادان لوگ نجانے کیوں فراموش کر بیٹھتے ہیںکہ جیسے امریکا اور میسیکو کی طویل سرحد کے مابین سیکڑوں خلا ہیں،اسی طرح پاک ۔افغان سرحد بھی ایسی کئی گذرگاہیں رکھتی ہے جو بالکل ویران وسنسان ہیں۔وہاں سے سرحد پار کرنا انتہائی آسان ہے۔

پھر امریکا اور میکسیکو کی سرحد کا بیشتر رقبہ میدانی ہے۔جبکہ پاک افغان سرحد تو اونچے نیچے پہاڑوں سے اٹی پڑی ہے۔پاک فوج اب اس سرحد پر باڑ لگا رہی ہے تاکہ پاکستان دشمن عناصر کی آزادانہ آمدورفت روکی جا سکے۔بدقستی سے افغان حکومت اس ضمن میں تعاون نہیں کر رہی جو حیرت انگیز امر ہے۔سوم طاہر داوڑ کو شہید کرکے پشتونوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان کا اغوا ہوتے ہی سوشل میڈیا پر پی ٹی ایم کے بعض لیڈر پشتو زبان میں پروپیگنڈا کرنے لگے کہ طاہر داوڑ کے قتل میں ریاست کا ہاتھ ہے۔

یوں انہوں نے پشتون نوجوانوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کی۔ ان رہنماؤں کی سرگرمیوں سے عیاں ہے کہ وہ دشمن طاقتوں کی خفیہ ایجنسیوں کے آلہ کار بن چکے جو صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی ہر ممکن مالی و مادی مدد کرنے کی باقاعدہ تاریخ رکھتی ہیں۔ اب ان کی سرتوڑ کوشش ہے کہ خیبرپختونخواہ میں ایک اور پاکستان دشمن تحریک کا آغاز کردیا جائے۔

چہارم طاہر داوڑ کی شہادت سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں دراڑ آگئی۔ افغان حکومت نے شہید کی لاش پاکستانی حکومت کے حوالے کرنے سے انکار کردیا جو بڑی پُراسرار بات ہے۔ اس معاملے پر تنازع بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ امریکا اور بھارت تو یہ شدید تمنا رکھتے ہیں کہ دونوں پڑوسی ایک دوسرے سے تنازعات میں الجھے رہیں اور وہ اپنے مفادات حاصل کرتے رہیں۔ جب تک افغانستان میں عوام کی حقیقی حکومت نہیں آتی، پاک افغان امن ایک خواب رہے گا۔ موجود افغان حکومت تو امریکہ کی کٹھ پتلی ہے۔ امریکہ ہی اس کے بیشتر اخراجات برداشت کرتا ہے۔

پنجم یہ بھی کہا جارہا ہے کہ طاہر داوڑ کی شہادت کے پیچھے افغان خفیہ ایجنسی، این ڈی ایس ملوث ہے۔ دراصل 18 اکتوبر کو طالبان نے قندھار کے پولیس چیف عبدالرزاق کو بم حملے میں مار ڈالا تھا ۔چونکہ طالبان پاکستان کے قریب سمجھے جاتے ہیں لہٰذا این ڈی ایس نے اپنے پاکستانی ایجنٹوں کی ملی بھگت سے پشاور کے ایس پی طاہر داوڑ کو شہید کردیا۔ یہ وار مگر افغان خفیہ ایجنسی کی بزدلی و مکاری ہی عیاں کرتا ہے۔

طاہر داوڑ ارض پاکستان کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ وہ ایک عظیم پاکستانی تھے، اپنے دیس کی سرزمین کے دفاع پر مامور اور آخر کار اس پر اپنی جان تک نچھاور کردی۔ شہید کی دلیری، فرض شناسی اور انسان دوستی قوم ہمیشہ یاد رکھے گی۔ ان جیسے غیر معمولی سپوتوں کے باعث ہی قومیں مشکلات و مصائب جھیل کر بلند و بالا مرتبہ پاتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں