عالمی ادب کا ایک لازوال فن پارہ
’’سلاخیں‘‘ اب تک پاکستانی سینما کی شاہکار فلم کا درجہ حاصل کیے ہوئے ہے۔
ہر وہ شخص جس کا لکھنے پڑھنے سے سنجیدہ تعلق رہا ہو وہ اپنی زندگی میں جتنا کچھ پڑھتا ہے اس میں سے چند تصانیف یا کتابیں ایسی ہوتی ہیں جن کو وہ اپنے مطالعے کا حاصل قرار دیتا ہے Les Miserables (لامزریبلز) بلاشبہ ان معدودے چند کلاسک اور امر ناولوں میں سے ایک ہے جنھوں نے انسانی تاریخ اور مقدر کو بدلنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ویسے بھی عالمی ادب میں چار پانچ ہی ایسے بڑے ناولز ہیں جو بہت ہی زیادہ اہمیت کے حامل ہیں اور انھی میں سے ایک مذکورہ ناول بھی ہے۔
بعض اوقات ہمیں بڑی شدت سے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ زبان جس میں ہم لکھتے ہیں اور جو پاکستان کی قومی زبان بھی ہے اور ہماری تہذیب، ہمارے اتحاد اور کلچر کی امین بھی ہے، اس زبان میں بہت بڑا تخلیقی کام ہوا ہے جو یقینا دنیا کی چند بڑی زبانوں میں سے ایک ہے۔ لیکن اس زبان کا دامن کتنا تہی اور کتنا خالی ہے کہ مختلف زبانوں میں جو بڑے بڑے کام ہوئے جنھوں نے پورے نوع انسانی اور عالمی ادب کو متاثر کیا وہ چند سو بڑی بھی اردو زبان میں منتقل نہیں ہوسکیں، جو عالمی ادب کی میراث اور آبرو ہیں جنھوں نے انسانی فکر کو جلا بخشی اور اسے زندگی کی معنویت سے ہمکنار کیا ہے۔
وکٹر ہیوگو کا ناول ''لامزریبلز) ایک ایسا تخلیقی کارنامہ ہے جس پر پوری دنیا کو فخر ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ اسے برصغیر کے پڑھنے والوں نے نہیں پڑھا۔ اسے یہاں انگریزی میں پڑھا گیا اور پڑھایا جاتا رہے گا لیکن اگر اس کا کوئی ترجمہ اردو میں ہو جاتا تو اردو ادب میں ایک بہت ہی جاندار اور بڑا اضافہ ہوتا اور اردو لکھنے والے جو انگریزی سے براہ راست آشنا نہیں وہ سبھی ایک عظیم فن پارہ پڑھ سکتے۔
1862 میں شایع ہونیوالے اس ناول کی اشاعت اس لحاظ سے بھی ایک تاریخ ساز واقعہ ہے کہ یہ بیک وقت دنیا کی دس زبانوں میں شایع ہوا، اس عظیم اور ضخیم ناول کے حوالے سے اس کے مصنف وکٹر ہیوگو نے انسانی زندگی اور معاشرے سے تعلق رکھنے والے بعض بنیادی سوال اٹھائے اور ان کا جواب دیا ہے۔انسان اور قانون کی تعریف یا اس کا رشتہ یہی اس ناول کا مرکزی خیال ہے۔ قانون انسان کو مجرم بناتا ہے اور جب کوئی انسانی جرم چھوڑ کر شرافت اور انسانیت کی زندگی بسر کرنا چاہتا ہے تو قانون اسے شرافت کی زندگی بسر کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ''لامزریبلز'' میں نبی نوع انسان کے سب سے بڑے مسئلے بھوک اور غربت کو بنیاد بنا کر پیش کیا گیا ہے۔
اس ناول کا مرکزی کردار والجین ایک نادار ہے، غریب ہے اور شرافت کی زندگی بسر کرنا چاہتا ہے۔ وہ قانون کا احترام کرتا ہے لیکن وہ جس سماجی اور معاشرتی نظام میں زندہ ہے اس میں اسے اس کی تمام تر کوششوں، ذلتوں اور ناکامیوں کے باوجود روٹی نہیں ملتی جس سے وہ اپنا اور اپنے کسی عزیز کا پیٹ پال سکے۔ جب سماج ایسا ہو، نظام اس کا اتنا مکروہ ہو تو پھر انسان مجبور ہو جاتا ہے۔
ایک دن والجین روٹی چراتے ہوئے پکڑا جاتا ہے۔ اس کی عزیزہ کی دیکھ بھال کرنے والا بھی کوئی نہیں، اسے روٹی چرانے کے جرم میں سزا دی جاتی ہے، وہ جیل سے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے ناکام رہتا ہے اور اس کی سزا میں اضافہ ہو جاتا ہے لیکن ایک روز وہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، وہ ایک جاگیردار کے کتوں کی کوٹھری میں سونے کی کوشش کرتا ہے اور نکال دیا جاتا ہے۔
ایک پادری اسے اپنے ہاں رات گزارنے کی اجازت دے دیتا ہے، تو وہ اس پادری کے سونے کی شمع دان کو چرا کر بھاگ جاتا ہے۔یہی پادری اس کی زندگی بدل دیتا ہے کیونکہ والجین جب مسروقہ اشیا کے ساتھ پکڑا اور پادری کے سامنے لایا جاتا ہے تو پادری کہتا ہے کہ یہ شمع دان تو اس نے خود اسے تحفے میں دی تھی۔ والجین نیک بننے کی خواہش میں شمع دان بیچ کر ظروف سازی کا کارخانہ لگاتا ہے اور پھر اپنی کھوئی ہوئی عزیزہ کی تلاش میں نکلتا ہے، جس پر زمانہ اتنے ستم توڑ چکا ہے کہ جس کی تفصیل ہماری زندگیوں اور ہمارے معاشرے کے لیے اجنبی نہیں۔
بہر کیف وہ اپنی نیکی، خدا ترسی اور انسان دوستی کی وجہ سے بہت شہرت حاصل کرتا ہے۔ سماج اسے عزت کا مقام دیتا ہے اور ایک دن وہ شہر کا میئر چن لیا جاتا ہے۔ لیکن قانون کو اس کی سماجی اور انسانی خدمات سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ اس کی تلاش میں ہے اور ایک روز اس تک پہنچ جاتا ہے۔ ''لامزریبلز'' ناول میں ایک پولیس آفیسر کا کردار خاصا مضبوط اور موثر ہے اور اسے بڑی حد تک یادگار کردار بھی کہا جاسکتا ہے۔
یہ اندھے قانون کا ترجمان اور انسانی جذبات و احساسات سے یکسر عاری سنگدل انسان ہے لیکن بہرحال وہ انسان ہے اور انسان کا دل کبھی پتھر نہیں بن سکتا لہٰذا یہ پولیس آفیسر والجین کی انسانی عظمت سے اتنا متاثر ہوتا ہے کہ اسے گرفتار کرنے کے بجائے خودکشی کرلیتا ہے۔ قانون کی سفاکی، جبر اور شقاوت کے حوالے سے اس انسان کے کردار کو بھی سامنے رکھ کر سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ایسے تمام قوانین کی دھجیاں بکھر کر رہ جاتی ہیں جو انسانی احساسات سے عاری ہیں، جو انسان کو روٹی نہیں دے سکتے لیکن اسے مجرم اور غلام ضرور بنا دیتے ہیں۔
''لامزریبلز'' جب سے لکھا گیا تب سے اب تک زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ دنیا کے بیسٹ سیلرز ناولز میں اس کا نام اور مقام بہت نمایاں ترین رہا۔ اس لیے بھی کہ یہ ناول انسانی فطرت اور سماج کے حوالے سے ایک ایسی دستاویز ہے جس کے پس منظر میں ایک عظیم اور باشعور تخلیقی ذہن موجود ہے جو ہمیں زمانوں کے ساتھ انسانوں کے چہروں اور باطن سے متعارف کراتا ہے، جو انسان کے فرسودہ ڈھانچوں اور بے اثر قوانین کیخلاف شدید احتجاج کرتا ہے۔''لامزریبلز'' ایک ایسا دلچسپ، شاندار اور جاندار ناول ہے جو دنیائے فلم کے بڑے بڑے فلم میکرز کو بھی بہت مرغوب رہا۔
انگریزی زبان کی درجنوں فلموں میں اسے استعمال کیا گیا اور اس ناول کے شاہکار ہونے کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس پر بننے والی تمام فلموں نے باکس آفس پر سپرہٹ ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ بھارت میں سہراب مودی نے اس ناول پر ایک بہت بڑی فلم ''کندن'' کے نام سے بنائی۔ پاکستان میں اس ناول کے بہت سے حصوں اور ٹکڑوں کو مختلف فلموں میں جوڑا گیا ہے۔ اس سلسلے کی سب سے نمایاں ترین فلم ''سلاخیں'' تھی جس میں محمد علی اور بابرا شریف نے اپنی فنی زندگی کے ناقابل فراموش کردار ادا کیے تھے اور اسے ہدایت کار حسن عسکری نے بڑے ہی موثر انداز سے سلو لائٹ کے فیتے پر منتقل کیا تھا۔
''سلاخیں'' اب تک پاکستانی سینما کی شاہکار فلم کا درجہ حاصل کیے ہوئے ہے۔ ''لامزریبلز'' ایک ایسا اہم اور غیر معمولی ناول ہے جس کے بارے میں عالمی ادب کے نقادوں نے ایک دلچسپ بحث بھی ایک زمانے میں شروع کی تھی اور اب بھی کبھی کبھار اس ناول کی بازگشت ادبی حلقوں میں سنی جاتی ہے۔ بعض بڑے تخلیق کاروں اور نقادوں کی رائے یہ ہے کہ یہ ناول ٹالسٹائی کے عظیم ناول ''وار اینڈ پیس'' سے بھی بڑا ہے۔
اس ناول کے حوالے سے یہ بھی ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ مولانا عبدالکلام آزاد اور پنڈت جواہر لال نہرو کا بھی یہ پسندیدہ ناول رہا ہے اور انھوں نے اپنے کئی انٹرویوز میں ''لامزریبلز'' کے موضوع اور اس کے معیار کا حوالہ دیا۔ سعادت حسن منٹو، کرشن چندر اور ظہیر کاشمیری جیسے لوگ جو عالمی ادب پر بھی گہری نگاہ رکھتے تھے ان کا بھی یہ کہنا تھا کہ وکٹر ہیوگو کا ناول ''لامزریبلز'' ٹالسٹائی کے تحریر کردہ ناول ''وار اینڈ پیس'' سے بڑا تخلیقی ناول ہے۔