مقصدی نظم کے شاعر فضا اعظمی کا سفر آخرت
یہی نظام قدرت ہے ہزاروں لوگ دہر سے دنوں، ہفتوں میں سوئے عدم روانہ ہوتے جاتے ہیں۔
جاتا ہوا سال بہت سی اہم شخصیات کو بھی اپنے ساتھ لے گیا اور ابھی نہ جانے کتنے گوہر نایاب اس دنیائے آب و گل سے رخصت ہوں گے کہ دنیا اور اس میں بسنے والے مٹی کے لوگ ہیں جنھیں ٹوٹنا اور مٹی کی ردا اوڑھ کر سونا ہے تا قیامت۔
یہی نظام قدرت ہے ہزاروں لوگ دہر سے دنوں، ہفتوں میں سوئے عدم روانہ ہوتے جاتے ہیں، انھی میں سے اہل ہنر اہل علم و بصیرت حضرات اپنی مثبت سوچ اور پاکیزہ اور اعلیٰ افکار کے باعث امر ہوجاتے ہیں ایسے ہی قابل قدر لوگوں میں ممتاز شاعر اور دانشور جناب عقیل احمد فضا اعظمی کا بھی شمار ہوتا ہے وہ 15نومبر 2018 کو سہ پہر کے وقت طویل علالت کے بعد سوئے عدم روانہ ہوئے۔ اس طرح موضوعاتی اور طویل نظمیہ شاعری کے حوالے سے ایک سورج غروب ہوا۔
ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ ایسے کامیاب و کامران لوگوں سے مفاد پرست پورا پورا استفادہ کرتے ہیں جو قابل احترام اور صاحب کردار ہیں۔ علم و ادب کے اعتبار سے صاحب ثروت ہیں اور حقیقی دولت سے بھی مالا مال ہیں وہ اپنی اعلیٰ ظرفی کے باعث اپنے ہم عصر حضرات کے ساتھ دامے، درمے، قدمے، سخنے تعاون کرتے ہیں لیکن آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل والا معاملہ اس خودغرضی کے دور میں ہر شخص کے ساتھ ہے۔
جناب فضا اعظمی کا شمار ایسی ہی نادر و نایاب شخصیات میں ہوتا تھا۔ وہ نیک طینت، منکسرالمزاج اور اوصاف حمیدہ کے مالک تھے ان کی شاعری نے عام و خاص کو متوجہ کرلیا۔ وہ ایک معتبر شاعر، محب وطن انسان تھے ان کی شاعری اسلام کی روشنی سے جگ مگ کر رہی ہے۔
پروفیسر فتح محمد ملک صاحب ان کی شاعری کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ ''فضا اعظمی ایک ایسے وقت میں قومی و ملی شاعری کی روایت کو تازگی بخشنے میں مصروف ہیں جب قومی و ملی وابستگی ہمارے یہاں رجعت پسندی کی د لیل ٹھہری ہے۔ زمانے کا یہ الٹ پھیر بڑا معنی خیز ہے کہ حالی سے اقبال تک جو ملی طرز احساس اور قومی طرز فکر اردو شاعری کی سربلندی و شادابی کا سر چشمہ فیضان تھا آج اس سے روگردانی ہماری ادبی دنیا کا سکہ رائج الوقت ہے۔ فضا اعظمی اس مقبول عام چلن سے انحراف اور قومی و ملی شعری روایات کے اثبات کے شاعر ہیں۔''
پروفیسر سحر انصاری نے فضا اعظمی کی شاعری پر اپنی رائے کا اس طرح اظہار کیا ہے کہ ''عقیل احمد فضا اعظمی ایک زرخیز ذہن کے آدمی ہیں انھوں نے اس سے قبل اپنی شاعری کی جو کتابیں پیش کی ہیں وہ ان کے اسلوب سخن کی پہچان بن چکی ہیں، فضا اعظمی ایک رخ یا ایک نظریے کے شاعر نہیں ہیں، رومان، سماجی، حقائق، سیاست و مقامی و عالمی تہذیب کے مختلف زاویے ان کے دائرہ فکر کا حصہ ہیں۔''
فضا اعظمی جیسی نابغہ روزگار ہستیاں ہستیٔ چمن سے رخصت ہوجاتی ہیں لیکن بے حسی کا یہ عالم ہے کہ چند سطریں یا ان کے انتقال کی خبر بھی میڈیا پر نشر نہیں کی جاتی ہے یہ وہ قابل قدر لوگ ہیں جو ملک کا سرمایہ اور اپنے وقت کی تاریخ رقم کرتے ہیں ، زمانے ان کی تخلیقات میں سانس لیتے نظر آتے ہیں۔ دانشوری، فہم و ادراک کی بدولت وہ مثبت کام کرتے ہیں ان کے علم سے باصلاحیت حضرات مستفید ہوتے ہیں لیکن آنکھ بند ہوتے ہی مرحومین کو فراموش کردینا ایک روایت سی بن گئی ہے۔
جناب فضا اعظمی کی وفات کی خبر بروقت سننے کو نہیں ملی اس کی ایک وجہ بقول ان کی اہلیہ بیگم فرزانہ اس حادثے کے بعد اخبارات میں ہم لوگ خبر نہیں پہنچا سکے، قلم و قرطاس سے تعلق رکھنے والے بھی ان کی تدفین میں شریک نہ ہوسکے، لیکن فیس بک کے ذریعے رحلت کی خبر سے مجھ جیسے بہت سے لوگ واقف ہوگئے تھے۔ یہ تو فضا اعظمی صاحب کی بات ہے ورنہ تو آئے دن مسافر کوچ کرتے ہی رہتے ہیں اپنے پیچھے بہت سا علمی و ادبی کام کتابوں کی شکل میں چھوڑ جاتے ہیں لیکن افراتفری، خودغرضی کا یہ عالم ہے کہ بعدازمرگ اپنے بھی بے گانہ ہوجاتے ہیں۔فضا اعظمی خاموشی سے ہم سب کو اداس کرگئے۔
جناب فضا اعظمی کی تقریباً پوری عمر جوکہ تقریباً 85 سالوں پر محیط تھی پڑھنے لکھنے میں بسر ہوئی۔ جب وہ گوشہ نشین تھے، مشاعرے بھی نہیں پڑھتے تھے، میرا خیال ہے انھوں نے اس وقت محدود پیمانے پر شہرت حاصل کی، جب ان کی نظم ''مرثیہ مرگ ضمیر'' کتابی شکل میں شایع ہوئی اور اس کی تقریب اجرا آرٹس کونسل میں منعقد ہوئی، تقریب کے بعد ہر شخص ہفتوں اور مہینوں اس نظم کا تذکرہ کرتا رہا اس کے بعد ان کی بہت سی کتابیں جن میں ''عذابِ ہمسائیگی''
فضا اعظمی اپنے والدین کے بے حد فرمانبردار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مالی لحاظ سے آسودہ حال رہے، علمی و ادبی کاموں میں بھی انھیں عزت ملی اور ان کی نظمیہ اور موضوعاتی شاعری کو سراہا گیا۔
انھیں نوجوانی میں ہی یتیمی کا صدمہ سہنا پڑا۔ جب کہ ان کی والدہ ماجدہ نے طویل عمر پائی تھی اور جن کی خدمت فضا اعظمی کے حصے میں آئی، والدین کی اطاعت اور تابع داری کا نتیجہ تھا کہ کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ مقام سے نوازا۔ ایل ایل بی کیا، فوٹو گرافی سیکھی، مقابلے کا امتحان پاس کیا، حکومت ہند کی وزارت خارجہ میں ملازمت اختیار کی اور سفارت کار کی حیثیت سے قاہرہ، خرطوم، جدہ اور واشنگٹن میں اپنی ذمے داریاں پوری کیں اس کے بعد یونائیٹڈ اسٹیٹس انفارمیشن سروس میں آٹھ برس تک Public Affairs Adviser کی حیثیت سے منسلک رہے ان کے 11 شعری مجموعے منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئے ان کی شاہکار طویل اور مقصدی نظموں میں عذاب ہمسائیگی، آواز شکستگی، مثنوی کرسی نامہ، پاکستان کے سیاسی پس منظر اور ہندوستان کی ہٹ دھرمی اور پاکستان سے نفرت اور تعصب کے حوالے سے لکھی گئی ہیں اور فضا اعظمی کی شاعری کو قارئین اور ناقدین نے داد و تحسین سے نوازا ہے۔ انگریزی میں بھی کالم، مضامین لکھے جو مختلف وقتوں میں USAمیں شایع ہوتے رہے ہیں اور جو لائبریریوں اور اہل علم کے کتب خانوں میں محفوظ ہیں۔
اتفاق سے ان کی تین نئی کتابوں خاک میں صورتیں، خوشی کی تلاش میں اور خوشی کے نام کا سکہ پر لکھنے کا موقع مجھے بھی میسر آیا اور یہ کتابیں پسندیدگی کے درجے پر پہنچیں۔ مذکورہ کتابوں کے حوالے سے ڈاکٹر پیرزادہ رضا صدیقی فرماتے ہیں کہ فضا اعظمی کے فنکارانہ شعور نے اس حقیقت کو محسوس کیا کہ فنکار اپنے پڑھنے والوں کو بند غار میں لے جا کر نہیں چھوڑتا بلکہ انھیں وہ سرنگ کے دوسری طرف آنیوالی روشنی کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے اس امید پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے کہ ان کی دو نظمیں خوشی کے موضوع پر سامنے آرہی ہیں اس دور میں ان کی زندگی میں اپنی ضرورت کے لحاظ سے بڑی مرکزی حیثیت رکھتی ہیں۔ فضا اعظمی اہل قلم کو اس طرح ترغیب دے رہے ہیں:
ہر ایک لفظ جو لکھو بہ اہتمام لکھو
کرو جو بات بصد فہم و انصرام کرو
نگارشات کا مقصد فلاح خلق ہو
ہر ایک قول سنو اور بااحترام سنو
اپنی کتاب خاک میں صورتوں کے حوالے سے انھوں نے روز ازل سے عورت پر ہونے والے مظالم کو قلم بند کیا ہے جو آج تک اس پر ڈھائے جا رہے ہیں۔
چڑھایا اس غرض سے صنف نازک کو صلیبوں پر
اسے باندھا' اسے مارا' اسے کھینچا زمینوں پر
سجائیں سولیاں ایسی کہ انسانوں کا دل دہلے
اسے بھونا دہکتے کوئلوں پر اور شعلوں پر
وہ چیخیں گونجتی تھیں جن سے گردوں کانپ اٹھتا تھا
وہ بے دردی کا عالم تھا فلک آنسو بہاتا تھا
فضا اعظمی نے صنف غزل پر بھی طبع آزمائی کی تھی ، بقول حسین انجم انھوں نے شعر گوئی کا آغاز غزل سے ہی کیا تھا ان کا پہلا مجموعہ کلام ''جو دل پہ گزری ہے'' 1996 اور دوسرا ''تری شباہت کے دائرے میں'' 2006 میں شایع ہوا۔
جناب ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے فضا اعظمی کے بارے میں کہا کہ وہ طبعاً نظم کے نہیں غزل کے شاعر ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں وہ ایک اچھے انسان تھے ساری عمر لکھنے پڑھنے کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا ان کی شریک سفر فرزانہ احمد کا قلمی تعاون ان کے ساتھ رہا اور وہ بہترین مترجم کے طور پر سامنے آئیں انھوں نے کئی کتابوں کے تراجم محنت اور محبت کے ساتھ کیے آخری عمر میں ان کی یادداشت پر اثر پڑا تھا اور سال دو سال سے بستر علالت پر تھے۔ وہ کچھ عرصے سے اپنے بڑے صاحبزادے کے گھر پر مقیم تھے ان کی بیگم افسانہ نگار فرزانہ احمد بھی دن بھر ان کے ساتھ رہتیں ۔ اللہ انھیں غریق رحمت فرمائے آمین۔