یہ بتی والے چوک
عوام بے چارے تو دامن کیا پکڑیں گے وہ تو گزشتہ ستر برسوں کی محرومیوں کا شکار ہیں۔
آج کے جدید اور ترقی یافتہ دور میں بھی پاکستان کی ترقی عوام کے لیے ایک خواب کی مانند ہی ہے ۔ ایک خبر نظر سے گزری ہے کہ جنوبی پنجاب کے اہم ترین ڈویژن ڈیرہ غازیخان میں کسی ایک سڑک پر بھی سگنل نہیں ہے یعنی ڈویژن کے اضلاع مظفر گڑھ، لیہ ، راجن پور اور ڈیرہ غازیخان میں کسی بھی سڑک کو سگنل یعنی راستے کے اشارے نصیب نہیں ہو سکے جس کی وجہ سے عوام کو ٹریفک کی مشکلات کا شدید سامنا رہتا ہے اور خاص طور پر رش کے اوقات میں تو ٹریفک بند ہی رہتی ہے۔
یہ ہے وہ جنوبی پنجاب جس کا رونا ہر حکمران نے رویا لیکن اس کے مسائل کے حل کے لیے کیا کچھ بھی نہیں حالانکہ سابق صدر فاروق لغاری مرحوم کے علاوہ سابق نگران وزیر اعظم میر بلخ شیر مزاری سے لے کر یوسف رضا گیلانی تک جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے کسی بھی حکمران نے اپنے علاقے کی محرومیاں دور کرنے کے لیے ذرا برابر بھی کام نہیں کیا بلکہ جنوبی پنجاب کی محرومیوں کے نام پر اپنی سیاست چمکانے کو ہی ترجیح دی۔
عرض کرنے کا مقصد ہے کہ سیاست اور عوام کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے لیکن ہمارے سیاست دان عوام کی چولی تب تک ہی پکڑنے کو تیار رہتے ہیں جب تک وہ اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں تک نہیں پہنچ جاتے اور ان کے دامن عوام کی پہنچ سے دور نہیں ہو جاتے۔ عوام بے چارے تو دامن کیا پکڑیں گے وہ تو گزشتہ ستر برسوں کی محرومیوں کا شکار ہیں اور اب شاید انھوں نے ان محرومیوں کو قبول کرتے ہوئے انھیں اپنی زندگی کا لازمی جزو تصور کر لیا ہے۔ کیونکہ وہ یہ دیکھ چکے ہیں کہ ان کے اپنے نمائندے ہی ان کے لیے کچھ بھی نہیں کرتے لہذا وہ اپنی محرومیوں کو اپنا مقدر مان چکے ہیں۔
پنجاب کے موجودہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا تعلق بھی جنوبی پنجاب سے ہی ہے اور ان کی تقرری کے وقت ان کی سب سے بڑی خوبی یہ بتائی گئی تھی کہ ان کے گائوں میں ابھی تک بجلی نہیں ہے حالانکہ ان کے والد گرامی ان سے بھی پہلے اسمبلی کے ممبر رہ چکے ہیں اور خود عثمان بزدار صاحب بھی مقامی حکومتوں کا حصہ رہے ہیں۔ میں تو یہ سمجھوں گا کہ یہ ان کی نالائقی ہی ہے کہ وہ اپنے گائوں میں بھی بجلی جیسی بنیادی عوامی سہولت فراہم کرنے میں ناکام رہے اور اب تو ان کے ذمہ داریاں اور زیادہ ہو گئی ہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے کروڑوں پاکستانی ان کے رحم وکرم پر ہیں۔
مجھے یاد پڑتاہے کہ لاہور میں سب سے پہلے جس شاہراہ کے چوک پر ٹریفک سگنل کا نظام لگایا گیا، وہ چوک بتی چوک کے نام سے مشہور ہو گیا اور آج تک اس چوک کی پہچان بتی چوک سے ہی ہوتی ہے۔ بعد میں یہ بتیاں پورے شہر میں پھیل گئیں۔ میرے پرانے ضلع سرگودھا میں بھی ایک چوک میں ٹریفک سگنل لگا تھا، وہ چوک آج بھی بتی والا چوک کے نام سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح میرے موجودہ آبائی ضلع خوشاب میں صرف ایک ہی بڑی شاہراہ پر ایک چوک کو بھی یہ اعزاز حاصل ہوا تھا لیکن جب تک عوام کو اس کی سمجھ آتی یہ سرخ، پیلی اور سبز بتیاں بجھ گئیں اور اب دوبارہ عوام اپنی مرضی سے اس چوک کو عبورکرتے ہیں۔
اگر کوئی بھولا بھٹکا غلطی کر جائے تو ٹریفک پولیس کے اہلکار اس کے گوشمالی کے ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔ اب تو یہ عالم ہے کہ میں نے ایک دن ڈرائیور سے کہا کہ سڑک پر کسی بھی طرف سے کوئی گاڑی نہیں آ رہی تو تم چوک کراس کیوں نہیں کر رہے اس نے میری توجہ سامنے لگے کیمروں کی طرف دلاتے ہوئے کہا کہ آپ کیمرے دیکھ رہے ہیں اور میں اگر اشارے کی خلاف ورزی کروں گا تو کیمرہ تصویر اتار لے گا اور چالان گھر پر وصول ہو جائے گا جس کی ادائیگی آپ کو کرنی ہو گی۔
میں حیرت زدہ رہ گیا کہ اس سے پہلے یورپی ممالک میں تو اس طرح کا طریقہ کار سن اور دیکھ رکھا تھا لیکن اب اپنے ملک میں بھی اس سے واسطہ پڑ گیا ہے۔ اب آپ کو لاہور میں ہر چوک میں لوگ اطمینان سے اپنی گاڑیوں میں بیٹھے نظر آئیں گے کسی کوجلدی نہیں ہو گی کیونکہ انسان سے زیادہ اَن دیکھے کیمروں کا خوف ہر ایک کو ہے۔ اگر یہی خوف خوف خدا میں بھی بدل جائے تو انسان کی زندگی ہی بدل جائے لیکن ہم اپنے مالک حقیقی کے خوف سے لا پروا ہو کر زندگی گزارتے ہیں اور ہر غلط کام کر جاتے ہیں یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ وہ دیکھ رہا ہے لیکن ہم اس سے ڈرتے نہیں اور اپنی مرضی کر جاتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہمیں ہر وقت دیکھ رہی ہوتی ہے، بالکل ایسے ہی جیسے لاہور میں ٹریفک کے لیے کیمرے لگ گئے ہیں اور غلطیوں پر چالان بھیج رہے ہیں۔
ایسے ہی اللہ تبار ک و تعالیٰ کی ذات کے کیمرے تو ہر وقت ہمارے اعمال کو شمار کرتے رہتے ہیں لیکن وہ بڑا غفور و رحیم ہے اور توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا رکھتا ہے بشرطیکہ کوئی معافی مانگنے والا ہو لیکن دنیاوی غلطیوں کی کوئی معافی نہیں کیونکہ حقوق اللہ کا معاملہ اور ہے اور حقوق العباد کا معاملہ کچھ اور ہے۔
انسانی زندگی کی محرومیوںسے شروع ہونے والی بات کہیں سے کہیں نکل گئی دراصل ہم اس دور میں اور اس ملک میں زندہ ہیں جہاں انصاف کے تقاضے مختلف ہیں جتنے بھی دعوے کیے جائیں میں یہ سمجھتا ہوں کہ امیروں اور غریبوں کے لیے انصاف میں فرق آج بھی موجود ہے اور اس فرق کو کسی نے باہر سے آ کر دور نہیں کرنا ہم میں سے ہی لوگ ہیں جو انصاف فراہم کرنے کے اہم منصبوں پر بیٹھے ہیں انھوں نے ہی اس تفریق کو دور کرنا ہے اور کسی بڑے باپ کے بیٹے کو معاف نہیں کرنا بلکہ اس کو بھی اسی طرح سزا وار گرداننا ہے جیسے ایک غریب رعایا کے بیٹے کو سر عام مارا گیا اور اس کی شکایت پر وقت کے مسلمان حکمران نے حج کے موقع پر عوام کے جمع غفیر میں اس بڑے باپ کے بیٹے کو سزا دے کر عوام کو یہ پیغام دیا کہ اسلام میں سب برابر ہیں ۔ہم نے اپنی محرومیوں کو خود سے ہی دور کرنے کے سبب بنانے ہیں ہمیں ایسے حکمران چاہئیں جو ہمیں سیدھا اور سچا راستہ دکھائیں اور ایسے حکمران ہم نے خود منتخب کرنے ہیں اور جب ہم ایسے حکمران منتخب کرنے میں کامیاب ہو گئے ہمیں کسی بتی والے چوک کی ضرورت نہیں رہے گی۔