اہل فلسطین کو فتح مبارک

غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا دورانیہ بتدریج کم ہوتا جارہا ہے جو اس صہیونی ریاست کے کمزور تر ہونے کی کھلی علامت ہے


صابر ابو مریم November 27, 2018
غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا دورانیہ بتدریج کم ہوتا جارہا ہے جو اس صہیونی ریاست کے کمزور تر ہونے کی کھلی علامت ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ISLAMABAD: یوں تو تحریک آزادیٴ فلسطین کو ستر سال کا عرصہ بیت چکا ہے اور اس تاریخ میں فلسطینی قوم کو یہ افتخار حاصل ہے کہ ہر موقع پر شجاع اور دلیر اور پایہ دار ثابت ہوئی ہے۔ پابرہنہ فلسطینیوں کا مقابلہ ایک ایسی خونخوار جعلی ریاست اسرائیل سے ہے کہ جسے دنیا ناقابل تسخیر بھی سمجھتی ہے اور امریکی حکومت اس وحشی اور جعلی ریاست اسرائیل کو اربوں ڈالر کا اسلحہ امداد کے نام پر بھی دیتی ہے تاکہ مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کا قتل عام جاری رہے اور فلسطین کی سرزمین پر پورے کا پورا قبضہ ان غاصب صہیونیوں کا ہو جائے کہ جنہیں پہلی جنگ عظیم کے بعد سے دنیا کے مختلف گوشوں سے نکال کر فلسطین کی زمین پر لانے کا کام شروع کیا گیا تھا اور جنہوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد فلسطین پر اپنے غاصبانہ تسلط کا اعلان کیا۔

جعلی ریاست اسرائیل کے فلسطین پر غاصبانہ تسلط سے لے کر مسلسل فلسطینیوں کو صہیونیوں کے مظالم کا سامنا ہے اور ان مظالم کے سامنے فلسطینی مجاہد ملت نے ہمیشہ سے سر اٹھا کر مقابلہ کرنے ہی کو ترجیح دی ہے جس کے نتیجے میں آج تک صہیونی جرثومہ اسرائیل اپنے بہت سارے ناپاک عزائم میں ناکام رہا ہے۔

یوں تو اسرائیل نے خطے میں بہت سے عرب ممالک سے جنگیں کی ہیں اور ان کے علاقے ہتھیائے ہیں لیکن غزہ فلسطین کا ایک ایسا علاقہ ہے کہ جہاں تقریباً بیس ملین افراد بستے ہیں اور یہ سب کے سب فلسطینی عرب ہیں۔ ان میں مسلمان، عیسائی، یہودی اور دیگر اقلیتی مذاہب بھی شامل ہیں، البتہ ان سب کی شناخت فلسطین سے ہے۔

غزہ کی پٹی کو غاصب صہیونیوں نے 2008 میں پہلی مرتبہ پچاس سے زائد روز تک جنگ کے نشانے پر رکھا تھا اور اس جنگ کا ہدف یہ تھا کہ فلسطینیوں کی نمائندہ مزاحمتی جماعت حماس کے سیاسی گروہ کی عام انتخابات میں کامیابی کا خاتمہ کیا جائے تاکہ ان کی حکومت کمزور ہوجائے یا ختم ہوجائے۔ لیکن اسرائیل ان پچاس دنوں میں صرف معصوم انسانوں کا قتل عام کرنے اور غزہ کا انفرا اسٹرکچر تباہ کرنے کے سوا اپنے کسی ہدف کو حاصل نہ کر پایا جبکہ فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں کی جانب سے جوابی کارروائیوں کے نتیجے میں اسرائیل کو جانی ومالی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس باعث اسرائیل پسپائی کا شکار ہو کر رسوا ہوا تھا۔

دوسری مرتبہ اسرائیل نے 2012 میں فلسطینی عوام پر اس وقت بمباری شروع کی جب ایک مڈبھیڑ میں فلسطینی مزاحمت کاروں نے اپنا دفاع کرتے ہوئے صہیونی جعلی ریاست اسرائیل کے دو فوجیوں کو اغوا کرلیا تھا اور انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔ ان فوجیوں کی بازیابی کےلیے اسرائیل نے بائیس روز تک یک طرفہ جنگ مسلط کردی۔ فلسطینی مزاحمت کاروں نے اس مرتبہ بھی نہ صرف اسرائیل کو ناکامی سے دو چار کیا بلکہ اسرائیل کو اس کے ہدف یعنی فوجیوں کی بازیابی میں بھی شکست دے دی جس کے باعث اسرائیل پسپا ہوا اور اپنی فوجوں کو غزہ سے نکال لیا۔

تیسری مرتبہ اسی علاقے میں اسرائیل نے ایک اور فوجی آپریشن کا آغاز کیا جس کا دورانیہ 12 روز رہا۔ یہ 2014 میں رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔ اس مرتبہ بھی اسرائیل نے مسلسل گولہ باری اور وحشت گردی کرنے کے بعد اپنے اہداف کی تکمیل میں ناکامی کا اعتراف کیا اور غزہ کے علاقے سے نکل کھڑا ہوا۔

مذکورہ تینوں مسلط کردہ جنگوں میں فلسطینیوں کو بڑے پیمانے پر نقصان کا سامنا ہوا۔ جانی نقصان الگ، مالی نقصان الگ ہوا۔ اسی طرح مزید اس علاقے کا انفرا اسٹرکچر تباہ وبرباد ہوا، بچوں کے وہ اسکول اور جامعات جو اقوام متحدہ کے اداروں کے زیر نگرانی کام کر رہے تھے، سب تباہ کردیئے گئے۔ اسی طرح اسپتال جو ایمرجنسی حالات میں زخمیوں کی دیکھ بھال میں مصروف تھے، وہ بھی اسرائیلی گولہ باری اور مظالم کا نشانہ بننے سے محفوظ نہ رہ پائے۔

درج بالا تمام تر حالات و واقعات کے بعد بھی یہ فلسطین ملت کا افتخار ہے کہ انہوں نے غاصب صہیونیوں کے سامنے اپنا سر تسلیم نہیں کیا بلکہ ہر موقع پر صہیونیوں کی جارحیت اور ظلم کے جواب میں اپنی مجاہدانہ مزاحمت سے سامنا کیا اور سرخرو ہوئے۔

حالیہ دنوں بھی اسرائیل نے غزہ کے اسی علاقے کو ایک مرتبہ پھر نشانہ بنایا اور کئی ایک فلسطینیوں کو شہید کیا جن میں مزاحمتی تحریک سے تعلق رکھنے والے حماس کے کمانڈر بھی شامل تھے۔ لیکن اس مرتبہ اسرائیل اس جنگ کو دو سے تین روز سے زیادہ جاری رکھنے میں کامیاب نہ ہو پایا۔

خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیل، جسے پوری دنیا ناقابل تسخیر سمجھتی ہے، جب جب اسلامی مزاحمتی تحریکوں سے ٹکرایا ہے اس کی قوت کا بھرم پاش پاش ہوتا رہا ہے۔ چاہے وہ لبنان کے ساتھ 33 روزہ جنگ ہو یا پھر غزہ پر مسلسل چار مرتبہ حملے، ہر مرتبہ ہی اسرائیل اپنی قوت کو ختم ہوتے مشاہدہ کررہا ہے اور یہ اسرائیل کے زوال کی بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے۔

غزہ پر اسرائیل کی جارحیت 51 روزہ جنگ کے بعد اگلی جنگ میں 22 روز تک رہ گئی تھی جبکہ تیسری جنگ میں یہ دورانیہ صرف اورصرف 12 روز پر آگیا تھا؛ اور اب کی مرتبہ تو اسرائیل کے حملوں اور مسلط کردہ جنگ کا دورانیہ دو سے تین روز رہا ہے جو اس بات کا واضح اور کھلا ثبوت ہے کہ اسرائیل کے مقابلے میں فلسطینیوں کی پابرہنہ مزاحمت روز بروز طاقتور ہو رہی ہے اور اسرائیل اس مقابلے میں کمزور اور ناتواں ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی نابودی کی طرف گامزن ہے۔

یہ بات یاد رہے کہ اس جنگ سے قبل مارچ 2018 سے فلسطینیوں نے اپنے حق واپسی فلسطین کی تحریک کا آغاز کر رکھا ہے جو تاحال جاری ہے اور ہر جمعہ کو اس عنوان سے بڑے پیمانے پر مظاہرے اور ریلیاں نکالی جارہی ہیں جس کے باعث اسرائیل سمیت اسرائیل کے سرپرست امریکا اور برطانیہ کی نیندیں بھی حرام ہیں۔ یقیناً اقبال نے درست ہی کہا ہے کہ مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ خطے میں موجود عرب و غیر عرب ریاستیں اور ان کی حکومتیں فلسطینیوں کی پشت پناہی کریں تاکہ فلسطین کے مظلوم عوام اپنی آزادی کے راستے کو جلد از جلد طے کریں اور فلسطین نہر سے بحر تک مکمل فلسطینیوں کا ہو جہاں عرب فلسطینی بشمول مسلمان، عیسائی، یہودی اور دیگر فلسطینی اقوام اپنی زندگیوں کا فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہوں۔

اے اہل فلسطین! تمھیں غاصب اسرائیل پر فتح مبارک ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں