آئی پی پیز نے10سال میں ایک ہزارارب اضافی وصول کیے ٹرانسپیرنسی

50آئی پی پیز،کے ای ایس سی،کھاد فیکٹریوں نے پیداواری لاگت کو بڑھاکر پیش کیا


Express Desk June 29, 2013
پاورپلانٹس کو ادائیگیاں آڈٹ کے بعدکی جائیں،عادل گیلانی کا خواجہ آصف کے نام خط۔ فوٹو: فائل

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے ایڈوائزر سید عادل گیلانی نے وفاقی وزیر پانی وبجلی خواجہ محمد آصف کے نام خط میںکہا ہے کہ آئی پی پیز،کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی اورکھاد بنانے والے اداروں نے پیداواری لاگت میں فرضی اضافہ ظاہرکرکے10سال میںایک ہزار ارب روپے کی زائد وصولیاں کی ہیں۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کو بھی یہ شکایت ارسال کی ہے۔یہ شکایت ان الزامات کی بنا پرکی گئی کہ نجی پاور پلانٹس کو منافع کی مد میں انکے اخراجات کے18 فیصدکے برابر ریاستی ضمانت فراہم کی گئی ہے لیکن آئی پی پیز نے غیر قانونی طورپر 18فیصد زائدفوائد حاصل کرنے کیلیے اپنے اخراجات اور پیداواری لاگت کو اصل سے بڑھاکر پیش کیا۔سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کو بتایا گیا کہ 50سے زائد آئی پی پیز،کے ای ایس سی اورکھادفیکٹریاں اس غیرقانونی کام میں ملوث ہیں۔بجلی کی قیمت فروخت ان کمپنیوں کی جانب سے پیش کی گئی پیداواری لاگت کے مطابق نیپراکی جانب سے طے کی جاتی ہے۔24 ستمبر 2012 کو سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کو ایک رپورٹ بھیجی تھی جس میں تسلیم کیاگیاکہ کے ای ایس سی اور آئی پی پیز اپنے اخراجات میںان بوگس اضافوںکی ذمے دار ہیں۔

1آپریشن اورمینٹیننس کے اخراجات میں مبالغہ آرائی سے کام لیاگیا۔ 2ٹیکنیکل سروسز کیلیے زائد ماہانہ اخراجات ادا کیے گئے۔3میٹیریل اور دوسری اشیا کے حصول کے اخراجات زیادہ ظاہرکیے گئے۔4بجلی کی پیداوارکیلیے اخراجات میں مبالغہ آرائی کی گئی۔5کئی آپریشنز کیلئے زیادہ قیمت پر ذیلی معاہدے کئے گئے اور معاہدے کرنیوالوں سے90 فیصد اضافی ادائیگیاں واپس بھی لے لی گئیں۔6 جعلی معاہدے اور اشیا خریدنے کی جعلی بلنگ کی گئی۔سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن نے بتایاکہ نیپراکوکہا گیا کہ آئی پی پیزکے اخراجات کی حقیقت،ادائیگیوںکے طریقہ کارکی جانچ پڑتال کیلیے ریکارڈ فراہم کیا جائے لیکن نیپرا نے یہ ریکارڈ فراہم نہیں کیا۔ ٹرانسپیرنسی کے مطابق نیپرا کا یہ اقدام آرٹیکل A۔19 کے تحت غیرقانونی ہے۔نیپرا عوام کو یہ معلومات فراہم کرنیکا پابند ہے۔ نیپرا کی جانب سے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کیساتھ عدم تعاون اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ نیپرا اور آئی پی پیزکے درمیان اضافی ادائیگیوںکے معاملے میںکوئی تعلق موجود ہے۔



آئی پی پیز نے 10سال میں ایک ہزار ارب روپے کی اضافی وصولی کی واپسی سے بچنے کیلیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک کیس دائرکیا جس میں عدالت نے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کو سنے بغیر اس کے احکام کیخلاف حکم امتناع جاری کردیا اور یہ کیس اب 10ماہ سے زیرالتوا ہے۔کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے27 جون کو آئی پی پیزکو326ارب کی ادائیگیوںکی منظوری دینے پرٹرانسپرنسی نے توانی بحران کے خاتمے کیلئے کوششوں پرحکومت کومبارک باد دی ہے ۔میڈیارپورٹس کے مطابق ان ادائیگیوں کے بدلے یہ کمپنیاں اپنی استعدادکے مطابق بجلی پیداکرنے اوررمضان المبارک سے قبل مزید 1700 میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل کرنے کیلئے حکومت کے ساتھ مفاہمتی یادداشت پر دستخط کرینگی ۔

حبکو،لال پیر،پاک جن،saba نامی پرائیویٹ پاور پلانٹس 1800میگاواٹ تک بجلی پیداکرسکتے ہیں۔ان کمپنیوں کیساتھ یہ بات بھی طے کی جائیگی کہ بجلی کے پلانٹس کو16ماہ میںکوئلے پر شفٹ کیا جائیگا۔تمام آئی پی پیز اس بات پر بھی رضامند ہیںکہ ادائیگیوں پر سودکی شرح میںکمی کریںگی اور ادائیگیوںکا وقت 45دن سے بڑھا کر60دن کیا جائیگا تاکہ تقسیم کار کمپنیوں پرادائیگیوںکیلئے کوئی دبائونہ آئے۔ایک اور مسئلہ پیداواری صلاحیت کے مطابق ادائیگی کا طریقہ کار ہے۔ جیسا کہ کئی آئی پی پیز جان بوجھ کر فرنس آئل سے بجلی پیدا نہیںکر رہیںکیونکہ وہ اس طرح پیداواری صلاحیت کے مطابق ادائیگیوںکی گارنٹی کی وجہ سے زیادہ منافع حاصل کرتے ہیں اور یہ عمل متعلقہ حکام کی مرضی سے کیا جاتا ہے جن میں این ٹی ڈی سی، پیپکو، پیپرا، جینکو، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن اور واپڈا شامل ہیں۔

ٹرانسپیرنسی نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ آئی پی پیز سے مفاہمتی یادداشت میں یہ3مزید نکات بھی شامل کیے جائیںکیونکہ یہ 5ارب ڈالر کی ادائیگیاں ہیں۔ان نکات میں یہ بات شامل ہو کہ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن اور آڈیٹر جنرل آئی پی پیز کا آڈٹ کریں اور اسلام آباد ہائیکورٹ سے حکم امتناع ختم کرایا جائے اور ادائیگی اس آڈٹ رپورٹ کے بعدکی جائے۔ تمام پاور پلانٹس کو6ماہ میں لوئر سلفر فیول آئل سے ہائی سلفرفیول آئل میں تبدیل کیا جائے۔ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل ملک میں قانون کی عملداری چاہتی ہے کہ یہی ایک طریقہ ہے جس سے کرپشن کوختم کیا جا سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں