فاٹا انضمام میں تاخیر کانفرنس
بیوروکریسی اور لاکھوں روپے کی مراعات لینے والے ملکان اب بھی ادغام کی مخالفت کر رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا حکومت کا کہنا ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں اس آرڈر کو چیلنج کریگی جس کی رو سے پشاور ہائی کورٹ نے فاٹا انٹرم ریگولیشن کے قانون کو ختم کرکے ایک ماہ کے اندر وہاں پر عام ملکی قوانین اور ادارے قائم کرنے کا کہا تھا'وجہ مرکز سے مطلوبہ فنڈ کی عدم فراہمی ہے۔
قومی وطن پارٹی کی جدوجہد کا مقصد'قومی حقوق کے حصول کے ساتھ پاکستان میں منتشر پختون قوم کا قومی بنیادوں پر ایک صوبہ بنانا بھی ہے' اس سلسلے میں پہلے قدم کے طور پر فاٹا کا خیبر پختونخواکے ساتھ انضمام کے لیے جدوجہد کی گئی'بڑی مشکلوں اور جدوجہد کے بعد فاٹا کے عوام کو پاکستان کا شہری تسلیم کیا گیا اور ایک آئینی ترمیم کے ذریعے اس علاقے کو خیبر پختونخوا میں ضم کردیا گیا اور FCRکا کالا سامراجی قانون ختم ہو گیا۔ان علاقوں میں رہنے والے پختون قبائل کے متعلق انگریزوں کی سوچ مندرجہ ذیل دو مثالوں سے واضح ہوجائے گی۔
برطانیہ کے انڈیا آفس کے سیاسی اور خفیہ امور کے سیکریٹری جان ولیم کے (john william kay) نے ان کے متعلق کہا تھا کہ ''we can not rein wild horses with silken braids'' (ہم وحشی گھوڑوں پر نرم اور ریشمی دھاگوںکے ذریعے سواری نہیں کرسکتے)۔ وائسرائے ہندلارڈ ڈلہوزی نے ان کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ '' شمال میں بسنے والے وحشی اور جنگجو لوگوں کے مزاج کا خیال رکھتے ہوئے ان علاقوں کے لیے مخصوص قوانین بنائے گئے''۔
انگریزوں کی ایک رپورٹ کے مطابق ''سرحد پار کے قبائل پوری طرح مسلح اور تاریخ کے مشہور ترین لٹیرے تھے'ان کو کنٹرول کرنے کے لیے پفرز اور فرنٹیر کانسٹبلری (FC) نامی ملیشیاء بنائی گئیں''۔ قبائل کو سرکشی کی سزا دینے کے لیے اکثر ان کے خلاف فوج کشی بھی کی جاتی تھی۔
قیام پاکستان کے بعد بھی ان کی الگ حیثیت برقرار رہی اور ان کے علاقوں کو ''علاقہ غیر'' کہا جاتا تھا'ان کی شناخت اسمگلروں'اغواء کنندگان اور مفروروں کو ٹھکانے دینے والوں کی تھی 'بڑی جدوجہد کے بعد انکو پاکستان کا شہری تسلیم کیا گیا اور آئینی ترمیم کے بعد ان کو اپنے قدرتی صوبے خیبر پختونخوا کے ساتھ مدغم کر دیا گیا۔ یہ عمل مئی 2018ء میں مکمل ہوا۔
عمران خان انتخابات سے قبل اس ادغام کے زبردست حامی تھے 'اب ان کی حکومت کو قائم ہوئے 100دن ہونیوالے ہیں لیکن ان آٹھ اضلاع کو ابھی تک صوبے کا حصہ بننے میں تاخیر کی جا رہی ہے۔ بیوروکریسی اور لاکھوں روپے کی مراعات لینے والے ملکان اب بھی ادغام کی مخالفت کر رہے ہیں اور تحریک انصاف کی حکومت بھی ہر معاملے کی طرح اس مسئلے پر بھی یو ٹرن لیتے ہوئے نظر آرہی ہے'اس مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر قومی وطن پارٹی نے دس نومبر 2018ء کو ایک مذاکرے کا انعقاد کیا۔
قومی وطن پارٹی نے آیندہ کے لیے پختون قومی مسائل کے حل کے لیے وسیع تر مشاورت کے سلسلے میں پارٹی سیکٹریٹ ''وطن کور'میں اب تک تین کانفرنس منعقد کیے ہیں۔ان میں پہلی کانفرنس میں مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے صوبے کے نامور دانشوروں' ادیبوں' صحافیوں' فنکاروں اور معاشیات اور تعلیم کے ماہرین کو دعوت دی گئی اور ان سب کو کھل کر اپنے خیالات کے اظہار کا موقعہ دیا گیا'چار گھنٹے کی اس نشست میں مہمانوں کی تجاویز'مشوروں اور تنقید کو بڑے سکون سے سنا گیا اور آخر میں پارٹی چیئرمین جناب آفتاب شیر پائو نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور امید ظاہر کی کہ ان خیالات اور مشوروں سے پارٹی مستفید ہوگی'دوسرے پروگرام میں صوبے کے اہم صحافیوں اور ٹی وی اینکروں کو مدعو کیا گیا اور ان کے خیالات' سوالات اور تجاویز کو سن کر نوٹ کیا گیا۔
10نومبر کو قومی وطن پارٹی کے مرکزی دفتر وطن کور پشاور میں پارٹی کے رہنما آفتاب شیرپائو کی دعوت پر ایک اہم کانفرنس کا اہتمام کیا گیا 'اس کانفرنس کا عنوان تھا ''FATA REFORMS AND WAY OUT'' یہ مسائل کی نشاندہی کے سلسلے کی تیسری کانفرنس تھی'اس کانفرنس کا مقصد'فاٹا مرجر کے عملی اقدامات میں مبینہ سست روی اور اس عمل میں درپیش رکاوٹوں کا جازہ لینا تھا ۔
مذکورہ کانفرنس میں سیاسی رہنمائوں کے علاوہ سابق ممبران قومی و صوبائی اسمبلی' فاٹا یوتھ جرگہ کے لیڈر' صحافیوں' وکلاء'ماہرین تعلیم'سابق بیوروکریٹس'خواتین اور تاجر نمایندوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ مقررین میں سابقہ ایم این اے شاہ جی گل اورشہاب الدین خان کے علاوہ زاہد شنواری'سید اختر علی شاہ سابقہ آئی جی 'ملک نور زمان 'ڈان کے اسماعیل خان ودیگر شامل تھے۔قومی وطن پارٹی کے رہنماء اسد آفریدی نے سٹیج کی ذمے داری ادا کی۔مقررین نے ان اضلاع کی خیبر پختونخوا میں جلد ادغام کرنے کا مطالبہ کیا۔
اختتام پر آفتاب شیرپائو نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ پختونوں کی نمایندہ پارٹی کی حیثیت سے یہ ہمارا فرض ہے کہ ان کو درپیش مسائل کو اجاگر کرکے ان کا حل نکالا جائے' اس سلسلے میں یہ پارٹی کا تیسرا پروگرام ہے اور ہم کو شش کریں گے کہ درپیش قومی مسائل پر مستقبل میں بھی باشعو ر دوستوں کی آراء حاصل کرنے کے لیے پروگرام منعقد کریں' آخر میں شرکاء نے درج ذیل اعلامیہ کی منظوری دی۔
قومی وطن پارٹی کے زیر اہتمام "فاٹا انضمام اور بعد کی صورتحال" کے بارے میں کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ (1) قبائلی اضلاع کے عوام کے ساتھ انضمام کے وقت جو وعدے کیے گئے تھے ان میں آئینی ترامیم وغیرہ ہونے کے بعد حکومت کے اقدامات سست روی کا شکارہیں اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ صوبائی حکومت اس عمل کو تیز کرے اورمرکزی حکومت اس عمل میں مکمل تعاون فراہم کرے۔ (2) قبائلی اضلاع کے لیے مجوزہ NFC ایوارڈکا تین فیصد حصہ این ایف سی اجلاس منعقد کر کے جلد اداکیا جائے کیونکہ اس کی وجہ سے ترقیاتی اور انتظامی کام متاثر ہو رہے ہیں' جب تک این ایف سی ایوارڈ نہیں ہوتا تب تک وزیراعظم قبائلی اضلاع کے لیے سالانہ سو ارب روپے مختص کریں'رواں سال کے لیے وزیراعظم فوری طور پر اس حساب سے خصوصی گرانٹ فراہم کریں۔ (3) بلدیاتی انتخابات کی تیاری تیز کی جائے اور صوبے کے دیگر اضلاع کے ساتھ منعقد کرنے کی بجا ئے فوری طور پر منعقد کیے جائیں تاکہ وہاں کے عوام سیاسی عمل کا حصہ بن کر مسائل حل کر سکیں۔ (4) صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لیے حلقہ بندیوں کا عمل تیز کیا جا ئے اور اس کے انعقاد کے لیے تاریخ کا اعلان کرے۔ (5) فاٹا کے نئے اضلاع کے لیے تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ مختص کرنے کا عمل یقینی بنایا جائے۔
(6) سیکیورٹی اداروں کی تعیناتی کو متنازعہ بنانے کے بجائے وہاں کے نوجوانوں کو بھرتی کرکے اس عمل کو آسان بنایا جائے۔ (7) قبائلی اضلاع کے انضمام کے لیے بنائی گئی ٹاسک فورس کے بعض ارکان کے سابقہ کردار کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ٹاسک فورس کو ختم کیا جائے کیونکہ اس طرح کے فورم کا قیام تاخیری حربوں کے سوا کچھ نہیں۔ (8) قبائلی علاقوں کی صنعتوں اور باالخصوص اسلحہ سازی کی صنعت کو حکومتی سرپرستی میں لے کر قبائلی عوام کی تشویش کا ازالہ کیا جائے۔ (9) قبائلی علاقوں کے خواتین انتہائی پسماندگی کا شکار ہیں ان خواتین کو سیاسی اور سماجی عمل میں شریک کرنے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔ (10) قبائلی علاقوں میں تعلیم، صحت اور روزگار کے ضمن میں فوری عملی اقدامات کیے جائیں۔ انضمام کی مکمل تکمیل تک تعلیمی اداروں اور سرکاری محکموں میں قبائلیوں کے کوٹہ کو برقرار رکھا جائے۔
(11) صوبائی حکومت میں قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے افراد کو بطور مشیر شامل کیا جائے تاکہ وہ انضمام کے عمل میں تیزی لا سکیں۔(12) اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ مرکز سے ملنے والے فنڈز100فیصد قبائلی اضلاع میں خرچ ہوں اور صوبائی حکومت کے بجٹ میں بھی ان اضلاع کا خاطر خواہ حصہ ہو۔ (13) قبائلی اضلاع کو سی پیک میں شامل کیا جائے اور سی پیک کے تحت اکنامک زون مختص کیے جائیں۔ (14) فاٹا انضمام کے پیشرفت میں سیاسی پارٹیوں کو اعتمادمیں لیا جائے اور انضمام کی مخالف کرنے والی قوتوں کو بے نقاب کیا جائے۔ (15) فاٹا سیکرٹریٹ کو فوری طور ختم کیا جائے۔
(16) تمام سیاسی پارٹیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ فاٹا انضمام کے عمل کو تیز کرنے کے لیے مشترکہ طور پر آواز اٹھائی جائے۔ (17) قبائلی اضلاع کے عوام کے ساتھ ملک کے مختلف حصوں میں امتیازی سلوک بند کیا جائے اور ان کے ساتھ ملک کے تما م شہریوں کے مساوی سلوک کیا جائے۔ (18) قبائلی علاقوں کے لیے اعلان شدہ ٹیکس مراعات میں موجود ابہام اور پیچیدگیاں دور کی جائیں اور ان کو بھرپور مراعات دیے جائیں تاکہ قبائلی علاقوں میں سرمایہ کاری ہو سکے اور غربت اوربیروزگاری پر قابو پایا جا سکے۔ (19) سابقہ فاٹا علاقوں کے نئے شناختی کارڈ/ ڈومیسائل میں پائی جانے والی مشکلات دور کی جائیں اور بلاک شناختی کا رڈز کا مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔ (20) قبائلی علاقوں میں فوری طور پر عدالتی نظام ودیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا قیام یقینی بنایا جائے اور اس سلسلے میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کیا جائے۔