کپتان پنجاب کابینہ کے 24 وزراء کی کارکردگی سے غیر مطمئن

7 وزراء کی کارکردگی سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے واقعی عمران خان کے وژن کے مطابق محکموں میں کام کرنے کی کوشش کی ہے۔


رضوان آصف November 28, 2018
7 وزراء کی کارکردگی سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے واقعی عمران خان کے وژن کے مطابق محکموں میں کام کرنے کی کوشش کی ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کو 100 روز مکمل ہو چکے ہیں اور اس تمام عرصہ میں حکومت خود کو سنبھالنے کی کوشش میں ہی مصروف دکھائی دی ہے۔

عمران خان کی مقبولیت الیکشن سے پہلے بلند پرواز تھی اور 100 دن بعد مقبولیت زوال پذیر ہے۔حکومت بننے سے قبل کے تمام دعوے آج کے دن تک محض دعوے ہی ہیں۔ عمومی تاثر پایا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ''خودمختار'' نہیں ہے، جن قوتوں نے حکومت بنوائی انہی کے ''مشوروں'' پر عمل ہو رہا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے 100دن میں اپنے کتنے دعووں اور وعدوں پر عمل کیا اس بارے ٹی وی ٹاک شوز میں بہت بات ہو چکی ہے، غور طلب امر تو یہ ہے کہ حکومت ابتدائی ایام میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیوں نہیں کر سکی ہے۔

پاکستان کی سیاست اور حکومت سازی کا محور پنجاب ہے لہذا پنجاب میں حکومت کی کارکردگی الیکشن جیتنے والی ہر پارٹی کے مستقبل کیلئے اہمیت رکھتی ہے۔ تحریک انصاف کی پنجاب حکومت کی کارکردگی بھی وفاق کی مانند غیر تسلی بخش ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے دور حکومت میں عمران خان لیگی کابینہ کے غیر معمولی حجم پر شدید تنقید کیا کرتے تھے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ جب ان کی حکومت بنے گی تو وہ وفاقی اور صوبائی کابینہ کا حجم بہت مختصر رکھیں گے، بعض مواقع پر صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی حکومت میں وزراء کی تعداد 20 سے زائد نہیں ہو گی۔

کپتان کے دعووں کے برعکساس وقت پنجاب کابینہ میں صوبائی وزراء کی تعداد 35 ہے جبکہ 5 مشیر برائے وزیر اعلی اور 5 خصوصی معاون بھی حکومت کا حصہ ہیں۔وزراء کی 100 روزہ کارکردگی کا بغور جائزہ لیں تو 7 وزراء کی کارکردگی سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے واقعی عمران خان کے وژن کے مطابق اپنے محکموں میں کام کرنے کی کوشش کی ہے اور اس میں قدرے کامیاب بھی ہوئے ہیں جبکہ 4 صوبائی وزراء ایسے ہیں جن کی کارکردگی کو نہ اچھا اور نہ ہی برا کہا جا سکتا ہے جبکہ 24 وزیر ایسے ہیں جنہوں نے 100 دن میں صرف ''وزیر''کا سٹیٹس تو خوب''انجوائے'' کیا ہے لیکن اپنے محکموں میں کوئی ٹھوس اور قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھائی ہے۔

جن وزراء نے اپنے ماتحت محکموں میں کام کر کے دکھایا ہے ان میں سر فہرست سینئر وزیر اور وزیر بلدیات عبدالعلیم خان ہیں جنہوں نے نہ صرف نئے بلدیاتی نظام کی تشکیل کیلئے انتھک محنت کرتے ہوئے اسے تکمیل کے قریب پہنچایا ہے بلکہ عبدالعلیم خان نے پنجاب میں ناجائز تجاوزات کے خلاف تاریخ ساز آپریشن کے ساتھ ساتھ لاہور میں صفائی کے نظام کو بہتر بنانے کیلئے بھی محکمہ بلدیات کو بخوبی استعمال کیا ہے۔

اسی طرح وزیر خزانہ پنجاب مخدوم ہاشم جواں بخت کی کارکردگی بھی بہت خوب رہی ہے، تحریک انصاف کی حکومت کو درپیش مشکل ترین معاشی حالات میں مخدوم ہاشم نے دیگر وزارتوں کے اشتراک سے ایک متوازن صوبائی بجٹ پیش کیا ۔ وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان ''میڈیا وار'' میں تحریک انصاف کیلئے پنجاب کی حکومت کی سطح پر''ون مین آرمی''کا کردار نبھاہ رہے ہیں، انہوں نے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے شانہ بشانہ اپوزیشن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔وزیر ہاوسنگ میاں محمود الرشید بھی متحرک ہیں اور انہوں نے 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے منصوبے کیلئے پنجاب کی سطح پر نمایاں کام کیا ہے۔

وزیر زراعت پنجاب ملک نعمان لنگڑیال مارکیٹ کمیٹیوں کے نئے نظام کی تشکیل اور سبزی وپھل منڈیوں کی توسیع و ترقی کیلئے قابل ذکر کام کر رہے ہیں۔ وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد اپنی استعداد کے مطابق صحت کی عمدہ سہولتوں کی فراہمی اور ہسپتالوں کے نظام کو ٹھیک کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہیں مگر یہ الگ بات ہے کہ یہ نظام اتنا الجھا ہوا ہے کہ ابھی تک انہیں قابل ذکر کامیابی نہیں ملی ہے لیکن وہ ہمت ہارنے والوں میں سے نہیں ہیں۔

وزیر قانون راجہ بشارت بھی خاموشی سے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں لیکن انہیں اپنی میڈیا مینجمنٹ بہتر بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ جتنا کام وہ کر رہے ہیں اتنا میڈیا میں دکھائی نہیں دیتا۔ جن وزراء کی کارکردگی اوسط درجہ کی ہے ان میں وزیر صنعت میاں اسلم اقبال، وزیر ایکسائز حافظ ممتاز احمد، وزیر پبلک پراسیکیوشن چوہدری ظہیر الدین اور وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری شامل ہیں۔

پنجاب کابینہ میں 24 وزیر ایسے بھی ہیں جن کے بارے کہا جا سکتا ہے کہ ''آؤ گے تو کیا لاؤ گے، جاؤ گے تو کیا دیکر جاؤ گے''۔100 دنوں میں ان کی اکثریت نے صرف وزیر کا عہدہ ہی سنبھالا ہے اپنے محکموں میں کوئی قابل ذکر تبدیلی، منصوبہ اورا صلاحات متعارف نہیں کروا سکے ہیں۔

ایسے وزراء میں مراد راس(سکولز ایجوکیشن)، سبطین خان(جنگلات)، سردار آصف نکئی(سی اینڈ ڈبلیو)، حافظ عمار یاسر(معدنیات)، یاسر ہمایوں( ہائیر ایجوکیشن)، راجہ راشد حفیظ (لٹریسی)، حسین بہادر دریشک(لائیو سٹاک)، ملک محمد انور(ریونیو)، تیمور خان (سپورٹس)، محسن لغاری(آبپاشی)، عنصر مجید خان(لیبر)، ہاشم ڈوگر(پاپولیشن ویلفیئر)، سعید الدین حسن شاہ (اوقاف)، مہر محمد اسلم(کو آپریٹو)، سید حسین جہانیاں گردیزی(ایم پی ڈی ڈی)، محمد اجمل (سوشل ویلفیئر)، محمد اخلاق(سپیشل ایجوکیشن)، آشفہ ریاض(وویمن ڈویلپمنٹ)، شوکت علی لالیکا (زکوٰۃ)، زوار حسین وڑائچ(جیل خانہ جات)، میاں خالد محمود(ڈیزاسٹر مینجمنٹ)، جہانزیب خان کچھی(ٹرانسپورٹ)، اعجاز مسیح(انسانی حقوق و اقلیتی امور) اور محمد اختر وزیر توانائی شامل ہیں۔

الیکشن میں کم نشستیں جیتنے کے سبب الیکٹ ایبلز کو ساتھ ملانے اور اتحادی جماعتوں کے ساتھ معاہدوں کے پیش نظر عمران خان کو پنجاب میں بھی کابینہ کا حجم بڑھانا پڑا ہے اور اس مقصد کیلئے کئی ایسی وزارتیں تشکیل دی ہیں جن کا ''وزارت'' ہونا بھی ایک مذاق ہی ہے۔ بہت سے وزراء تو ملنے والے محکموں سے ہی ناخوش ہیں اور اسی وجہ سے وہ محکمانہ امور میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے اور بعض ایسے ہیں کہ انہیں آج بھی محکمے کے امور بارے مکمل علم نہیں ہو سکا ہے۔

تعجب خیز امر ہے کہ سبطین خان، چوہدری ظہیر الدین اور میاں اسلم اقبال جیسے منجھے اور تجربہ کار سیاستدان بھی اپنی وزارتوں میں توقع کے مطابق کارکردگی نہیں دکھا پا رہے۔ مراد راس کے پاس سکولز ایجوکیشن جیسا اہم ترین محکمہ ہے لیکن وہ بھی صرف سکولز کا وزٹ کر کے فوٹو شوٹ کروانے تک ہی محدود ہیں،100 ایام میں انہوں نے کوئی بڑی پالیسی، بڑا منصوبہ پیش نہیں کیا ہے۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں یاسر ہمایوں کئی روز تک فیورٹ رہے تھے لیکن آج وہ ہائر ایجوکیشن جیسی وزارت میں پرفارم نہیں کر پا رہے ہیں۔

انسانی حقوق و اقلیتی امور کے وزیر اعجاز مسیح کے تو میڈیا کو دیدار ہی نصیب نہیں ہوئے جبکہ جیل خانہ جات کے وزیر زوار حسین وڑائچ ایم جیل پر ''شب خون'' مارنے کے علاوہ کوئی کارنامہ نہیں دکھا سکے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کو کامیاب کروانے کیلئے ہر وزیر کو اپنی وزارت میں مکمل لگاو اور محنت کے ساتھ کام کرنا ہوگا ۔ عمران خان کے پاس اگر''فری ہینڈ'' ہے تو نکمّے اور ویلے وزیروں کو تبدیل کرنا ہی مناسب رہے گا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں