سیاسی جماعتوں میں آمریت کا کلچر
سیاسی جماعتوں کی آمریت بڑے بڑے سیاسی قتل کر دیتی ہے۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں آمریت نے ملک کا سیاسی کلچر تباہ کر دیاہے۔ سیاسی کارکنوں کو سیاسی جاگیرداروں کا کل وقتی غلام بنا دیا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں سے مشاورت کا عمل ختم ہو گیا ہے۔ ہر سیاسی جماعت میں بلا تفریق بدترین آمریت قائم ہے۔ سیاسی جماعتوں میں قائم بدترین آمریت کو کسی بھی طرح جمہوری اور سیاسی نظام کی بساط لپیٹنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
تمام تر خامیوں کے باوجود یہ نظام ہر قسم کی آمریت سے بہتر ہے۔ تاہم اس کا یہ مقصد بھی نہیں ہے کہ ہم اس نظام کی خرابیوں کی بات نہ کریں اور ان کی نشاندہی نہ کریں۔ مجھے یقین کامل ہے ملک میں جمہوری نظام جیسے جیسے چلے گا سیاسی جماعتوں کی آمریت کے خاتمے کی بھی کوئی نہ کوئی شکل نکل آئے گی۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ جمہوریت چلے اور اس کے اندر کی خرابیاں دور نہ ہوں۔ یہی تو جمہوریت کا حسن ہے یہ خود کو ٹھیک کرنے کا عمل جاری رکھتی ہے۔ جمہوریت کی خرابیوں کو جمہوریت کے خاتمے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا ۔
بہرحال سیاسی جماعتوں کی آمریت بڑے بڑے سیاسی قتل کر دیتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت نے اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کو اپنی پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنیاں بنا لیا ہے۔ ان میں شامل لوگوں کو اپنا ذاتی ملازم بنا لیا ہے۔ جس طرح جب کوئی ملازم مالک کے مفاد کے خلاف بات کرے تو اسے نوکری سے نکال دیا جاتا ہے۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں کے یہ مالک بھی اختلاف رائے کرنے والے کو نہ صرف نوکری سے نکال دیتے ہیں بلکہ اس کا سیاسی کیرئیر بھی ختم کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں۔یہ بات بھی عجیب ہے کہ سیاسی جماعتوں میں آمریت کا ایسا رواج بن گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی تقسیم در تقسیم بھی آمریت کی روایت کو ختم نہیں کر سکی۔
ایم کیو ایم کی تازہ مثال سب سے دلچسپ ہے، بانی ایم کیو ایم کے دور میں ایم کیو ایم پر بانی کی آمریت قائم تھی ۔ کسی کو ان سے اختلاف کی جرات نہیں تھی۔ ایم کیو ایم مڈل کلاس اور پڑھے لکھے لوگوں کی جماعت ہونے کے باوجود آمریت کی بد ترین مثال بن چکی تھی۔ ایم کیو ایم لندن سے علیحدگی کے بعد ایم کیو ایم پاکستان بدترین تنازعات کا شکار ہو چکی ہے۔ دھڑے بندی اور اندرونی اختلافات نے ایم کیو ایم پاکستان کی بقا کو شدید خطرات کا شکار کر دیا ہے۔
فاروق ستار کو ایم کیو ایم سے نکالے جانے کا واقعہ ایم کیو ایم میں نئی آمریت کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ فاروق ستار کو جس طرح عبرت کا نشان بنایا جا رہا ہے ۔ صاف بتا رہا ہے کہ بانی سے علیحدگی تو ہو گئی ہے لیکن بانی کی سوچ ابھی بھی موجود ہے۔ آج بھی ایم کیو ایم میں اختلاف رائے کی سزا سیاسی موت ہی ہے۔ اسی تناظر میں آج فاروق ستار کو بھی سیاسی موت دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ویسے تو فاروق ستار جب خود بھی ایم کیو ایم کے سربراہ تھے تو وہ بھی اپنی آمریت قائم کرنے کے لیے ہی کوشاں تھے۔ آج وہ ایم کیو ایم میں جو جمہوریت مانگ رہے ہیں کل وہ خود کسی کو دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اگر انھوں نے ایم کیو ایم کو آمریت کے ڈھانچے سے آزاد کر دیا ہوتا تو آج در بدر کی ٹھوکریں نہ کھا رہے ہوتے۔ لیکن کہتے ہیں کہ انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔ اسی لیے فاروق ستار کے ساتھ کوئی انہونی نہیں ہو رہی ہے۔
لیکن فاروق ستار پاکستان کی سیاست میں سیاسی آمریت کا شکار ہونے والے کوئی پہلے سیاستدان نہیں ہیں۔ ہر سیاسی جماعت میں ایسی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ چوہدری نثار علی خان بھی اسی قسم کی آمریت کی ایک مثال ہیں۔ اب اتنے سال کی رفاقت کے بعد سیاسی اختلاف رائے پر ٹکٹ کے بنیادی حق سے محروم کر دینا بھی کسی طرح جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو چوہدری نثار علی خان نے بھی اپنے سارے سیاسی کیرئیر میں سیاسی آمریت کو مضبوط کرنے میں ہی کردار ادا کیا تھا۔ انھوں نے کبھی مسلم لیگ (ن) میں مشاورت کے کسی نظام اور اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا کلچر پیدا کرنے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا۔ لیکن پھر بھی جس طرح مسلم لیگ (ن) نے چوہدری نثار علی خان کو نکالا ہے وہ کوئی جمہوری عمل نہیں ہے۔
لیکن پاکستان میں سیاسی آمریت کے خلاف آواز اٹھانی والی تحریک انصاف میں بھی بدترین سیاسی آمریت قائم ہو چکی ہے۔ وہاں بھی فرد واحد کی آمریت قائم ہے ۔ اختلاف رائے کی سزا سیاسی موت سے کم نہیں ہے۔ جس جماعت میں اس کے صدر جاوید ہاشمی کو کنٹینر پر تقریر سے فارغ کیا جا سکے۔ اس میں آمریت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن جاوید ہاشمی ایک مثال نہیں ہیں۔ حال ہی میں سینیٹ انتخابات میں جہانگیر ترین کی بہن کو جس طرح ٹکٹ دیا گیا ہے وہ بھی آمریت کی ہی ایک شکل تھی۔ ورنہ ایک خاتون ورکر ڈاکٹر زرقا کو پہلے ٹکٹ دے دیا گیا تھا ۔ انھوں نے اپنی مہم بھی شروع کر دی تھی۔ لیکن پھر راتوں رات آمریتی فیصلہ سے ٹکٹ تبدیل کر دیا گیا۔پی پی پی اے این پی سمیت ہر سیاسی جماعت میں آمریت موجود ہے۔
اب سوال یہ بھی ہے کہ صاحب الرائے لوگ سیاسی جماعتوں میں موجود اس آمریت کو قبول کیوں کرتے ہیں۔ اس کے خلاف بغاوت کیوں نہیں ہوتی۔ سیاسی جماعتوںکے کارکنان اپنی اپنی سیاسی جماعتوں میں آمریت کے خلاف بغاوت کیوں نہیں کرتے۔ شاید کہیں نہ کہیں لوگ اس آمریت کے قیدی بن گئے ہیں۔ ان کے پاس اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ جو بھی اس آمریت کے خلاف آواز اٹھاتا ہے وہ سیاست کے میدان سے ہی باہر ہو جاتا ہے۔ سیاسی آمروں کے پاس سیاست میں رہنے کی کنجی موجود ہے۔ فاروق ستار اس وقت ایک نئے سیاسی گھر کی تلاش میں ہیں۔ ایم کیو ایم سے نکالے جانے کے بعد ان کی ساری سیاست داؤ پر لگ گئی ہے۔ جیسے چوہدری نثار علی خان کی سیاست داؤ پر لگ گئی ہے اور جاوہد ہاشمی تو میدان سیاست سے ہی باہر ہو گئے ہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا کیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں سیاسی آمریت کو کہیں نہ کہیں پاکستان کی اسٹبلشمنٹ اور جمہوریت مخالف قوتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اسٹبلشمنٹ بھی یہ نہیں چاہتی کہ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت قائم ہو جائے۔ شخصی یا خاندانی اجارہ داری ختم ہو جائے۔ پھر اسٹبلشمنٹ سیاسی جماعتوں کو اپنے مقاصد کے لیے کیسے استعمال کرے گی۔ن لیگ میں آج جو خاموشی نظر آرہی ہے کیا سیاسی آمریت کے بغیر ممکن تھی۔
ملک میں کرپشن کے خلاف ایک تحریک جاری ہے لیکن سیاسی آمریت کے خاتمے کے نعرہ کو کسی کی حمایت حاصل نہیں ہے۔
اس ضمن میں الیکشن کمیشن کی بے حسی بھی بہت سے سوالوں کو جنم دیتی ہے۔ الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر جمہوریت کا نظام لانے کا پابند نہیں بنا سکی ہے۔ الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کو آمریت قائم کرنے کے لیے کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر شفاف انتخابات کا پابند نہیں کر سکا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں میں آمریت کو پناہ دی ہوئی ہے۔ عدلیہ کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔ لیکن پھر بھی مجھے لگتا ہے کہ ایسا زیادہ عرصہ مزید نہیں چل سکے گا۔ امید کی کرن نظر آئے گی۔