ٹرام کی ممکنہ بحالی
جب کراچی کے ٹرام دوگھوڑوں کی طاقت سے چلتے تھے تو اخراجات کے لحاظ سے یہ بہت سستا نظام تھا۔
عدالت عظمیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کراچی کی قدیمی تاریخی عمارت ایمپریس مارکیٹ کو اصل شکل میں بحال کردیا گیا ہے جوکہ تجاوزات کی جنگل میں گم ہوچکی تھی،اب دور دور سے آئے ہوئے لو گ اس کی خوب صورتی کو قریب سے دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ ایسی تاریخی عمارت کی بے قدری کی جارہی تھی۔ شہری خوش ہیں کہ کراچی کی اصل شکل بحال کی جارہی ہے، دوسری طرف ان گھروں کے چولہے بجھ گئے ہیں، جن کا روزگار اس آپریشن کی زد میں آیا ہے، امید ہے کہ حکومت ان کا مداواکرے گی۔
ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ عدالت عظمیٰ نے ایک اور بڑا قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا، سپریم کورٹ نے 43 سال بعد ٹرام لائن اور سرکلر ریلوے کے فوری بحال کرنے اور سیاحتی مقاصد کے لیے صدر سے سٹی ایریا تک ٹرام چلانے کا حکم دیا ہے۔ ساتھ ہی کراچی بھر میں ریلوے کی زمینوں کو واگزار کرانے کا حکم بھی دیا ہے۔
ایک وقت تھا جب شہری کراچی کی سڑکوں پر ٹراموں میں سفرکیا کرتے تھے۔ اس وقت یہ بہت مقبول سواری تھی۔آج اس سواری کی یادیں، چند تصاویر اورکچھ نشانیوں کی صورت میں باقی رہ گئی ہیں۔کراچی ٹرام وے کی تاریخ 94 سال پر محیط ہے (1885-1975)اس کی بنیاد کراچی کے میو نسپل سیکریٹری اور انجنیئر جیس اسٹراچن نے ڈالی جن کو میتھیوز نے ٹرام و ے نیٹ ورک کی تعمیرکے ٹینڈر پیش کیے۔ 1883ء تک کاغذی تیاریاں مکمل کر کے ٹرام وے سروس کو بھاپ سے چلنے والے انجن سے شروع کرنے کے لیے حکومت کو منظوری کے لیے پیش کیا گیا۔ اکتوبر 1884ء سے اس کی تعمیرکا باقاعدہ کام شروع ہوا۔ 10 اپریل1885ء کو کراچی میں عوام کے لیے پہلی مرتبہ ٹرام سروس شروع ہوئی ۔
سابقہ نیٹی جیٹی پل موجودہ جناح کریک برج (ٹاور) سے کیماڑی تک ٹرام کی پٹری بچھائی گئی تھی۔ اس موقعے پر ایک پر وقار تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ جن ممتاز شخصیتوں نے اس تقریب میں شرکت کی، ان میں کمشنر سندھ ہنری نیپئر ی ارسکائن، سندھ ڈسٹرکٹ کمانڈ نگ آفیسر بریگیڈیئر جنرل جی لک اور ان کی صاحبزادی، اسٹنٹ کمشنر ڈاکٹر جے پو لین اور قندھار افغانستان کے سابق والی ہنر ہائی نس پرنس شیرے علی خان بمع اسٹاف شامل ہیں۔ان تمام افراد کو ٹرام میں بٹھا کر اسکاچ چرچ سے کیماڑی لایا اور واپس لے جایا گیا۔
اس پروجیکٹ کے لیے اسکاچ چرچ پر ایک بہت بڑا خیمہ لگا یا گیا تھا، جہاں ان مہمانوں کی خاطر تواضع کی گئی۔اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کمشنر سندھ نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ کراچی ٹرام وے ویسٹرن انڈیا میں اسٹیم سے چلنے والا پہلا ٹرام وے ہے، یہ ٹرام وے پسینجروں کے ساتھ ساتھ بار برداری کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔اس وقت بار برداری کے لیے ٹراموے کی اشد ضرورت تھی کیونکہ ان دنوں کراچی پورٹ کی گہرائی بہت محدود تھی۔
جہاز موجودہ کیماڑی بندرگاہ میں میں لنگر انداز ہوتے تھے اور چھوٹی کشتیوں کے ذریعے مال میری ویدر گودی ( موجودہ ، جناح برج ) نیٹی جیٹی میں پہنچا دیا جاتا تھا ۔ 1886ء میں ٹرامزکو بھاپ کے بجائے گھوڑوں کی طاقت سے چلایا گیا ۔ اس تبدیلی سے شہریوں نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ بھاپ کے انجنوں سے رہائشی اور تجارتی علاقوں میں کافی شور ہوتا تھا ۔ہر پندرہ منٹ بعد اسٹیم ٹرام مصروف علاقوں سے گزر کر شہریوں کے آرام میں خلل ڈال دیتی تھی۔ گھوڑوں کے آنے کے بعد اسٹیم ٹرام ڈپو تک ہی محدود ہوگئے۔ جب کراچی کے ٹرام دوگھوڑوں کی طاقت سے چلتے تھے تو اخراجات کے لحاظ سے یہ بہت سستا نظام تھا۔
اس کے برعکس اسٹیم ٹرام کوئلہ چلانے سے حرکت میں آتے تھے اور یہ کوئلہ انگلینڈ سے منگوایا جاتا تھا، جو بہت مہنگا پڑتا تھا ۔ موجودہ سندھ (بشمول کراچی ) کا نظام 1912ء تک بمبئی پریزیڈنسی کے تحت چلتا تھا۔ آج بھی ڈینسوہال کے قریب اور صدرکے کچھ علاقوں میں جانوروں کے لیے مخصوص اصطبل کے نشانات باقی ہیں، جو ان دنوں میں ٹرام کھینچنے والے گھوڑوں کے کھانے پینے کے لیے تعمیرکیے گئے تھے۔ جلد ہی گھوڑوں کی طاقت سے چلنے والے ٹرام سائز کے لحاظ سے بڑھتے گئے۔ کچھ ڈبے لائٹ ریلوے کی صورت اختیارکرگئے۔ پھر ان ٹرامزمیں نہ صرف پسینجرز (مسافر ) بلکہ پٹرول انجن استعمال کر کے مال و اسباب بھی لادا گیا۔
جو کمپنی ٹرام وے چلا رہی تھی اس کانام بعد میں دی ایسٹ انڈیا ٹرام وے رکھا گیا۔ اس کمپنی کے چیف انجنیئر جان بر نلسٹس تھے۔ ان صاحب کی شہرت کراچی میں کافی پھیلی ہوئی تھی کیونکہ وہ کراچی سے کوٹری ریلوے لائن کے حوالے سے بہت جانے پہچانے جاتے تھے، جو ان ہی کی نگرانی میں تعمیر ہوئی تھی۔ گھوڑوں سے چلنے والے ٹرام بند کیے گئے، 23 مارچ 1906ء کوکراچی میں پٹرول سے چلنے والے ٹرام کا آغاز ہوا۔پٹرول ٹرام میں 46 پسنجروں کی گنجائش تھی اور یہ 18میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتے تھے۔ پٹرول سے چلنے والی ٹرام کے لیے نئی پٹری بچھائی گئی۔ 1913ء کے آخر تک کراچی میں پٹرول سے چلنے والی ٹراموں کی تعداد 37 تھی جو 1965ء میں 64 تک پہنچ گئی۔
1965ء میںٹرام کمپنی کراچی کے ایک رہائشی شیخ محمد علی نے خرید لی جس کے بعد اس کا نام محمد علی ٹرام ووے کمپنی (MTC) رکھا گیا ۔ 1975ء تک یہی کمپنی ٹراموں کو چلاتی رہی۔ 30 اپریل 1975ء کو کراچی ٹرام وے کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا۔ اس وقت ٹراموں کا ایک مرکزی جنکشن بولٹن مارکیٹ پر تھا اور بندر روڈ ( محمد علی جناح روڈ ) سابقہ پلازہ سینما کے سامنے جہاں آج گل پلازہ قائم ہے، ٹراموں کی ورک شاپ قائم تھی۔ بولٹن مارکیٹ سے کمپنی نے کیماڑی، صدر ،گاندھی گارڈن ( کراچی چڑیا گھر ) سولجر بازار اور چاکیواڑہ لیاری تک ٹرام سروس عوام کی سہولت کے لیے مہیا کی ہوئی تھی۔22 اکتوبر1928ء کو چاکیواڑہ (لیاری) ٹرام جنکشن کا افتتاح ہوا اس دن چاکیواڑہ لیاری سے مسافروں کو بٹھا کر اس ٹرام کے ذریعے بولٹن مارکیٹ تک پہنچایا گیا تھا۔
مجھے اتنا یاد ہے کہ میں اپنی والدہ کے ساتھ چاکیواڑہ ٹرام پٹہ ( لیاری ) سے صدر بازار کے لیے سفر کیا کرتا تھا۔ ٹرام کا ہینڈل پیتل کا ہوا کرتا تھا، ٹرام کے آگے پیچھے دونو ں طرف ہینڈل کا انتظام تھا، اگر ڈرائیور کو ٹرام کا رخ موڑنا ہوتا تو وہ پہلی جگہ سے ہینڈل نکال کر دوسری طرف لگا لیتا، ڈرائیور کے پاؤں بریک اور گھنٹی (ہارن) کے ساتھ تھے اور میں شرارتی طور پر چپکے سے ڈرائیور کے پاؤں کے قریب جاکر اس گھنٹی کو بجاتا جس سے (ڈگ ڈگ ) کی آواز آتی اور میں لوگوں کی ٹانگوں کے نیچے چھپ جاتا۔
مجھے آخری بار ٹرام کی سواری اچھی طرح یاد ہے۔ میں اور میرا بڑا بھائی ڈاکٹر نظیر احمد تاج لڑکپن میں تھے ٹرام پٹہ چاکیواڑہ (لیاری) سے سوار ہوئے، فی کس کرایہ 15 پیسہ (ایک سکہ 10پیسے کا اور ایک سکہ 5 پیسے کا دیا) اور ایم اے جناح روڈ پر واقع نشاط سینما کے اسٹاپ پر اترے اور مارننگ شو میں پاکستانی فلم دشمن دیکھی جس کی کاسٹ میں محمد علی، زیبا، وحید مراد، ممتاز اورادیب شامل تھے۔ اب یہ دور دوبارہ آ تو نہیں سکتا لیکن اگر ٹرام دوبارہ بحال ہو جاتی ہے تو کم از کم پرانی یادیں تازہ ہو جائیں گی اور نئی نسل بھی اس آرام دہ سواری سے لطف اندوز ہوگی۔