عید پر ریلیز ہونے والی فلمیں انڈسٹری کی بحالی میں اہم کردار ادا کریں گی

پاکستان میں غیر ملکی اور خاص طور سے بھارتی فلموں کی نمائش نہیں ہونی چاہیے، اداکار


Pervaiz Mazhar June 30, 2013
پاکستان میں غیر ملکی اور خاص طور سے بھارتی فلموں کی نمائش نہیں ہونی چاہیے، اداکار فوٹو : فائل

غیر ملکی فلموں پر ٹیکس لگانے سے کیا پاکستان کی فلم انڈسٹری کو کوئی فائدہ ہوگا؟ یاکوئی خاص پیش رفت ہوسکے گی،اس بارے میں ہم اپنے گزشتہ مضمون میں تفصیل سے آگاہ کرچکے ہیں ۔

جس کا رد عمل یہ آیا کہ سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان میں غیر ملکی اور خاص طور سے بھارتی فلموں کی نمائش نہیں ہونی چاہیے کیونکہ ان فلموں کی وجہ سے پاکستانی فلمی صنعت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے،سنیما مالکان نے اپنے مفاد کی خاطر بھارتی فلموں کی نمائش کرکے اپنے سنیماؤں کو تونقصان سے بچا لیا ،لیکن انہوں نے دور اندیشی سے کام نہ لیا کہ مستقبل میں ملکی فلمی صنعت کا کیا ہوگا؟ سنیما مالکان نے اس کے برخلاف اس حکمت عملی کو اپنایا کہ کو ملک میں سنیما گھروں کوہونا اس لیے ضروری ہے کہ پاکستانی عوام کو تفریح کے ذرائع ملتے رہنا چاہیے۔



تاکہ وہ منفی سرگرمیوں سے دور رہیں ان کایہ موقف بھی کھل کر سامنے آگیا کہ اگر بھارتی فلمیں سنیماؤں پر چلیں گی تو اس کافائدہ پاکستان کی فلم انڈسٹری کو بھی ہوگا، یہ منطق سمجھ سے باہر تھی کہ ایسا کیسے ممکن ہوگا، سنیما مالکان نے بھارتی فلموں کی نمائش کے ساتھ ساتھ نئے سنیما گھروں کی تعمیر کا بھی آغاز کردیا۔ کراچی میں سی ویو کلفٹن پر چار سنیما گھر سنے پلیکس بن چکے تھے، ان میں زیادہ تر انگریزی فلموں کی نمائش کی جاتی تھی لیکن بھارتی فلموں کی نمائش کے بعد ان سنیماؤں کا کاروبار چمک اٹھا،اسی دوران کراچی میں تین نئے سنیما گھر ایٹریم مال میں بنائے گے جو جدید سہولیات سے آراستہ اور سنیما میں آنے والوں کو بہترین ماحول فراہم کرنے کے حوالے سے عوام میں مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ان سنیما گھروں کے قائم ہونے کے بعد وہ لوگ جنہوں نے سنیماؤں پر آنا چھوڑ دیا تھا وہ گھروں سے باہر نکلے، سنیما کا ماحول بنتا چلا گیا،ایٹریم سنیما کے روح رواں ندیم مانڈوی والا نے متعدد بار اس بات کا اعادہ کیا کہ ہمارا مقصد سنیما گھروں کو آباد کرنا ہے اگر پاکستان میں سنیماگھر آباد ہوگئے اور فلم دیکھنے کے لیے لوگ گھروں سے نکل آئے تو ایک وقت وہ بھی آئے گا جب ان ہی سنیماؤں پر پاکستانی فلموں کا دوردورہ ہوگا،ہمارا مقصد ہرگز پاکستانی فلمی صنعت کو نقصان پہنچانا نہیں ہے بلکہ ہماری خواہش ہے کہ بھارتی فلموں کے ذریعہ ہم کم از کم سنیما انڈسٹری کو اس حد تک لے جائیں گے کہ لوگ تفریح کی غرض سے ایک اچھے ماحول میں بھر پور لطف اندوز ہوسکیں۔



دنیا بھر میں اب کم نشستوں والے منی سنیما گھر جدید شاپنگ سینٹر میں موجود ہیں ہم کیوں نہیں اس تجربہ سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے، ایٹریم سنیما گھروں کی کامیابی کے بعد کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں بہت تیزی سے منی سنیما گھروں کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا اور آج صرف کراچی میں دس سے زائد نئے سنیما گھر قائم ہوچکے ہیں، جہاں لوگ فلم دیکھنے صرف اس لیے آتے ہیں کہ وہ اپنی فیملی کے ہمراہ مکمل تحفظ کے ساتھ لطف اندوز ہوتے ہیں پاکستان میں ان سنیما گھروں کی تعمیر کے بعد بھارتی فلموں کے ساتھ پاکستانی فلموں نے ان ہی سنیماؤں میں ریکارڈ بزنس کیا اور یوں پاکستانی فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والوں کے حوصلے بلند ہوئے اور انہوں نے پاکستان میں فلموں پر سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا۔

ندیم مانڈوی والا کی کہی ہوئی وہ بات سچ ثابت ہوئی کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا۔ جب ان ہی سنیماؤں پر پاکستانی فلمیں دیکھنے والوں کا جم غفیر ہوگا، فلم انڈسٹری کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر چند سال قبل ان ہی سنیماؤں پر پاکستانی فلموں کو نمائش کی اجازت دے دی جاتی تو شاید آج صورتحال مختلف ہوتی اور اس وقت ان سنیماؤں پر بھارتی فلموں کے بجائے پاکستانی فلموں کا راج ہوتا، پاکستان کی فلم انڈسٹری کے بھر پور احتجاج کے بعد سنیما مالکان کے رویہ میںکسی حد تک تبدیلی اور لچک آئی ہے پھر ہمارے نوجوان ڈائریکٹرز کو بھی داد دینی چاہیے کہ انہوں نے اس بات کا عزم کرلیا کہ وہ پاکستانی فلموں کی بحالی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے،انہوں نے پاکستان میں چند اچھی اور معیاری فلمیں بناکر ثابت کردیا کہ وہ جلد پاکستان میں فلم انڈسٹری کو اس کا مقام دلانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

سنیما مالکان نے بھی ان کے جوش وجذبہ کا خیر مقدم کیا اور ان سے وعدہ کیا کہ وہ پاکستانی فلموں کی حوصلہ افزائی کے لیے ان کا ساتھ دیں گے۔ فلم انڈسٹری کا مطالبہ آج بھی وہی ہے کہ پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش ہر گز قبول نہیں، اگر سنیما مالکان ہمیں یقین دہانی کرائیں گے کہ وہ پاکستانی فلمیں اپنے سنیماؤں پر چلائیں گے تو ہم ثابت کریں گے کہ ہم پاکستان میں بہت اچھی اور معیاری بنا سکتے ہیں،اب اس بات کا یقین ہو چلا ہے کہ آنے والے دنوں میں ان جدید سنیماؤں میں پاکستانی فلموں کا ہی راج ہوگا، اس سال عید پر پاکستان میں بنائی جانے والی پانچ فلمیں نمائش کے لیے پیش کیے جانے کے تمام تر انتظامات مکمل کرلئے گئے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی فلم بین اورسنیما مالکان کس حد تک نوجوان پروڈیوسر ڈائریکٹر اور فنکاروں کی ہمت افزائی کرتے ہیں۔

اس عید پر نمائش کے لیے پیش کی جانے والی ان فلموں میں ادکار ہمایوں سعید کی فلم''میں ہوں شاہد آفریدی''۔ جس میں ماہ نور بلوچ، عائشہ خان اور ہمایوں سعید نے کردار کیے ہیں، ٹیلی ویژن کی معروف اداکارہ آمنہ شیخ اور محب مرزا کی فلم ''جوش'' اداکار فلم ساز شمعون عباسی کی فلم ''گدھ'' جس میں عائشہ خان، شمعون عباسی، سارہ لورین نے کردار ادا کیے ہیں۔



اداکار ہدایت کار تنویرجمال کی فلم '' اب پیامبر نہیں آئیں گے'' جس میں ارباز خان، تحریم، آصف خان اور دیگر نے کردار ادا کیے ہیں، فلمساز ،ہدایت کار شہزاد رفیق کی فلم ''عشق خدا'' جس میں،شان، صائمہ،میرا، احسن خان اور دیگر فنکاروں نے کام کیا ہے۔ عید پر نمائش کے لیے پیش کی جانے والی ان فلموں کو اگر سنیما مالکان کی سرپرستی حاصل رہی تواس بات کی سو فیصد امید ہے، پاکستان کی فلم انڈسٹری کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا، اس کے لیے یہ بات بھی سنیما مالکان کو ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اس سال عید پر وہ کسی بھارتی فلم کی نمائش سے گریز کریں گے اور اپنے عمل سے ثابت کریں گے کہ وہ بھارتی فلموں کے مقابلے میں پاکستانی فلموں کو اہمیت دیں گے اور ایک محب وطن ہونے کا ثبوت دیں گے۔

اگر پاکستان میں بنی ہوئی فلمیں ان سنیماؤں پر اپنی بہترین کارکردگی اور عمدہ پروڈکشن کی وجہ سے پاکستانی فلم بینوں کے دل جیتنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ سال پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لیے بہت سی خوشیاں لیکر آئے گا اور وہ لوگ جو اس بات کے منتظر ہیں کہ پاکستانی فلموں کا مستقبل کیا ہوگا ان کے لیے سرمایہ کاری کرنے کا یہ بہترین موقع ہوگا، لیکن ہماری فلم انڈسٹری سے ایک عرصہ سے وابستہ افراد جو پرانی سوچ کے حامل ہیں ان کو بھی اپنی سوچ میں تبدیلی لانا ہوگی کہ اب روایتی فلموں کی گنجائش موجود نہیں اچھے موضوعات پر، جدید ٹکنالوجی کے ساتھ اچھی اور معیاری فلمیں بنیں گی تو آنے والا کل ان کا ہوگا،کیونکہ اب غلطیوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔