احتساب کا پیچیدہ نظام

نیب میں پلی بارگین کے قانون کے حوالے سے بحث بھی ہورہی ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہ قانون نہیں ہونا چاہیے۔


مزمل سہروردی November 30, 2018
[email protected]

آج کل پاکستان کی سیاست نیب کے گرد گھوم رہی ہے۔ نیب قوانین میں تبدیلی کی باتیں بھی جاری ہیں۔ نیب کو گرفتاری سے پہلے اجازت لینی چاہیے۔ ریمانڈ کے اختیار کو ختم کیا جانا چاہیے۔ نیب قوانین میں ضمانت کی ممانعت کو ختم کیا جانا چاہیے۔ ہر ممکن کوشش ہو رہی ہے کہ کسی طرح نیب کے دانت ختم کر دئے جائیں۔ بغیر دانتوں والا نیب مجھے نظر آرہا ہے۔

نیب میں پلی بارگین کے قانون کے حوالے سے بحث بھی ہورہی ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہ قانون نہیں ہونا چاہیے۔ پلی بارگین کے چکر میں نیب نے بہت سے لوگوں کو نہایت سستے داموں میں چھوڑ دیا ہے۔ اس لیے اس کا راستہ بند ہونا چاہیے۔

ادھر پلی بارگین کے حق میں بھی دلائل بہت مضبوط ہیں۔ کرپشن کے مقدمات میں پہلی ترجیح کرپشن کی رقوم کی واپسی ہونی چاہیے۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ جلد از جلد رقم قومی خزانے میں واپس آجائے۔ پاکستان کا عدالتی نظام اس قدر پیچیدہ ہے کہ اس میں کرپشن کے پیسے واپس لانے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ لوگ عدالتوں سے بچ جاتے ہیں، اس لیے پلی بارگین سے جو واپس مل جائے اس کو غنیمت سمجھنا چاہیے۔

اگر اعداد و شمار کے تناظر میں دیکھا جائے تو نیب نے اپنے قیام سے اب تک پونے تین سو ارب روپے پلی بارگین سے واپس حاصل کیے ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں احتساب عدالتوں سے صرف پچیس کروڑ روپے واپس آئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ احتساب عدالتیں لوٹی ہوئی رقم واپس لانے میں وہ کردار ادا نہیں کر سکیں جس کی ان سے توقع تھی۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عدالتی نظام بہت لمبا ہے۔ اگر کسی ملزم کو احتساب عدالت سے سزا ہو بھی جائے تو وہ ہائی کورٹ جاتا ہے اور وہاں سے سپریم کورٹ سے بچ جاتا ہے۔

اکثر ناکافی ثبوت ہونے کی وجہ سے بچ جاتا ہے، اگر نہ بھی بچ سکے تو فیصلہ ہونے میں دہائیاں لگ جاتی ہیں۔ اس طرح معاملہ اتنا لمبا ہو جاتا ہے کہ اس کی اہمیت اور وقعت ہی ختم ہو جاتی ہے۔ ملزم معصوم بن جاتا ہے۔ لوگ اس کی کرپشن بھول جاتے ہیں۔ استغاثہ بھی تھک جاتا ہے۔ کرپٹ کو ضمانت مل چکی ہوتی ہے، وہ کھلے عام گھوم رہا ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے بچنے کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ زیادہ تر سیاستدان پلی بارگین کا آپشن استعمال نہیں کرتے۔ سیاستدان عدالتی نظام سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب تک نیب سے پکڑے جانے والے کسی بھی سیاستدان نے پلی بارگین کا آپشن استعمال نہیں کیا۔ ڈاکٹر عاصم سے لے کر شرجیل میمن ہو یا شریف خاندان تاحال مقدمات لڑ رہے ہیں ۔ شاید اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پلی بارگین سے ملزم کی حیثیت سزا یافتہ ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ سیاست کے لیے نا اہل ہوجاتا ہے۔ اس نا اہلی سے بچنے کے لیے سیاستدان پلی بارگین سے دور رہتے ہیں۔ پھر عدالتی نظام سے بچنے کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ نیب میں پلی بارگین کے لیے کوئی واضح قواعد اور اصول موجود نہیں ہے۔ کہیں کچھ اصول بنایا گیا کہیں کچھ اور اصول بنایا گیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا نیب کو پلی بارگین کے معاملے میں کھلی چھٹی ہونی چاہیے؟ کیا عدالت کو پلی بارگین کی کارروائی کی مانیٹرنگ کرنی چاہیے؟ کیا اس ضمن میں نیب کو لامحدود اختیار ہونے چاہیے؟ پلی بارگین کے لیے کس قسم کے قواعد اور قانون سازی کی ضرورت ہے؟ کرپشن کی رقم کا تعین کرنے کے لیے کیا نیب کو فری ہینڈ ہونا چاہیے؟

انکوائری شروع ہونے کے بعد پلی بارگین کی پیشکش کب ہونی چاہیے؟کیا انکوائری کے ابتدائی مراحل میں پیشکش ہونی چاہیے یا انکوائری کے آخری مرحلہ میں ہونی چاہیے؟۔ ریفرنس فائل ہونے سے پہلے ہونی چاہیے یاریفرنس فائل ہونے کے بعد ہونی چاہیے؟ ٹرائل کے دوران بھی پلی بارگین کی آپشن موجود رہنی چاہیے یانھیں؟ ان تمام سوالات کے جواب قانون کے تحت واضح ہونے چاہییں۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ تمام افراد کو یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔اس میں ذاتی پسند ناپسند کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔

ایسے ہی سوال یہ بھی ہے کہ کیا پلی بارگین بھی ٹیکس ایمسنٹی اسکیم ہی نہیں بن جائے گی جہاں آپ اپنا کالا دھن سفید کر سکیں گے۔ لیکن جب احتساب عدالتیں اور ملک کا عدالتی نظام پیچیدہ ہو اور مقدمات دس دس سال بعد بھی زیر التوا رہیں تو ایسے میں کیا پلی بارگین ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ پاکستان ایک شدید مالی بحران سے گزر رہا ہے۔ ملک چلانے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ قرضوں کا حجم بہت بڑھ گیاہے۔ ایسے میں پلی بارگین سے ہنگامی بنیادوں پر اتنی رقم اکٹھی کی جانی چاہیے کہ ملک اس مالی بحران سے نکل سکے۔ ہر آدمی کو پکڑ کر پلی بارگین دینا چاہیے۔ جس سے جو ملتا ہے لے لینا چاہیے۔

ایک دوست کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں ولی محمد بن سلمان نے جب بڑے شہزادوں کو پکڑا تو انھیں رقم واپس لے کر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ بھی پلی بارگین ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ تمام شہزداوں کو پلی بارگین کے بعد چھوڑا گیا ہے۔ اس طرح پاکستان میں کسی کو نا اہل کرنے یا جیل میں ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، بس پکڑ اجائے اور پیسے واپس لے لیے جائیں۔ لیکن میں نے اپنے دوست سے کہا ہے کہ پاکستان میں نہ تو بادشاہت ہے اور نہ ہی یہاں کوئی آمریت ہے۔ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے ، اس لیے کسی پر بھی کوئی قانون زبردستی نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ لوگوں کی مرضی ہوگی کہ وہ پلی بارگین کا آپشن استعمال کریں یا نہ کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں