امن کی نئی راہداری
وزیر اعظم عمران خان صاحب تقریباً چار پانچ کلومیٹر لمبی امن راہداری کا سنگِ بنیاد رکھ چکے ہیں۔
متصادم اور متحارب قومیں کسی بھی وقت کامل امن کا پرچم تھام سکتی ہیں۔ امن کی فاختہ کسی بھی لمحے نیلگوں فضاؤں میں پرواز کر سکتی ہے ۔ رواداری اور امن کے دامن ہی میںدُنیا اور انسانیت کی بقا پوشیدہ ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ تناؤ کے شکار کئی ممالک باہمی مکالمے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو آنکھیں بھی دکھاتے رہتے ہیں۔ چین اور بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
ڈوکلام کے سرحدی اور حساس مسئلے پر دونوں بندوقیں تانے ایک دوسرے کے مقابل بھی کھڑے تھے اور دونوں کے درمیان 100ارب ڈالر کی تجارت بھی جاری تھی۔ بس یہ احتیاط کی گئی کہ گولی نہیں چلی۔ پچھلے کئی برسوں سے امریکا اور شمالی کوریا کے درمیان سخت ٹھنی ہُوئی ہے۔ کبھی تویہ گمان بھی ہونے لگتا تھا کہ یہ سرد جنگ بس گرم ہونے ہی والی ہے۔
کونسی دھمکی ایسی رہ گئی تھی جو دونوں نے ایک دوسرے کو نہیں دی؟ مگر پھر ہم نے دیکھا کہ جون 2018ء کے دوسرے ہفتے امریکی ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے کِم جونگ اُنّ نے عالمی امن کی خاطر ایک دوسرے سے سینے بھی ملائے اور ہاتھ بھی۔ دونوں کے درمیان کامل امن کی راہداری ہنوذ خواب ہے لیکن قدم اور ہاتھ آگے تو بڑھے۔ تجارتی اور ساؤتھ چائنہ اوشئین تنازعات پر چین اور امریکا پچھلے چند مہینوں سے اپنی اپنی لَٹھ سنبھالے ایک دوسرے کے سامنے ڈٹے ہُوئے ہیں۔ صورتحال کشیدہ ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف تجارتی ٹیکسوں کی بھرمار جاری ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں پُر عزم نظر آتے ہیں۔
یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کبھی ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کریں گے لیکن اس تناؤ کے باوصف دونوں کے درمیان 800ارب ڈالر کی تجارت بھی جاری ہے۔ اب کہا جارہا ہے کہ 30نومبر2018ء کو ارجنٹائن میں G20کے سالانہ اجتماع میں یہی متحارب و متصادم امریکا اور چین ایک دوسرے سے مصافحہ بھی کریں گے اور معانقہ بھی۔ افغان حکومت اور افغان طالبان ایک دوسرے کا خون بھی بہا رہے ہیں اور ماسکو میں ، رُوس کی میزبانی میں، امن کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے بات چیت بھی کرتے نظر آ رہے ہیں۔
یہ مثالیں ہمارا حوصلہ بڑھانے کے لیے کافی ہیں کہ ہم بھی اپنے ہمسائے اور ازلی مخالف و معاند، بھارت، سے کشیدگی اور متنوع تنازعات کی موجودگی میں ایک دوسرے سے مکالمہ کر سکتے ہیں۔یہ کوئی ناممکن الحصول منزل نہیں ہے۔ نواز شریف صاحب تیسری بار وزیراعظم منتخب ہو کر بھی اِسی کا پرچار کرتے رہے۔ اُن کے اقتدار کے آخری چار، پونے چار سال اِسی تبلیغ میں گزرے لیکن وہ بوجوہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکے۔
بھارت کے ساتھ امن کی فضا قائم کرنے کے لیے اُن کی ساری تدبیریں اُلٹی پڑ گئیں۔ ہمارے نئے منتخب وزیر اعظم جناب عمران خان اِس لحاظ سے خوش بخت واقع ہُوئے ہیں کہ بھارت کی طرف دوستی اور امن کا ہاتھ بڑھاتے ہُوئے انہیں کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں ہے۔ 28نومبر2018ء کو انھوں نے پنجاب کے ضلع نارووال کی تحصیل شکر گڑھ کے ایک دُور افتادہ گاؤں ، کوٹھے پِنڈ، میں جس امن راہداری کا سنگِ بنیاد رکھا ہے، اِس میں انہیں سپہ سالارِ پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ کا بھرپور ساتھ اور آشیرواد بھی حاصل تھی۔بلکہ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ امن کی اس راہداری کے اصل معمار جنرل قمر جاوید باجوہ ہی ہیں۔
امن کی اس راہداری کا سنگِ بنیاد فی الحقیقت اُسی دن رکھ دیا گیا تھا جس روز جناب عمران خان کی وزیر اعظم کے لیے تقریبِ حلفِ وفاداری کے دوران بھارت سے آئے مہان اور معزز مہمان ، نوجوت سنگھ سدھو، سے معانقہ کرتے ہُوئے جنرل باجوہ نے مسکراتے ہُوئے اُن سے یہ کہا تھا:''بابا گرو نانک جی کے550ویں جنم دن کی مناسبت سے ہم پوری سِکھ قوم کو ایک تحفہ دینا چاہیں گے۔ '' اور یہ تحفہ دریائے راوی کے مغربی کنارے پر واقع بابا گرو نانک جی کی سمادھ (گوردوارہ کرتار پور دربار صاحب) سے پاک بھارت سرحد تک راہداری کھولنا تھا۔ اس اعلان نے بھارت سمیت ساری دُنیا میں بسنے والی سِکھ کمیونٹی کے دل جیت لیے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان صاحب تقریباً چار پانچ کلومیٹر لمبی امن راہداری کا سنگِ بنیاد رکھ چکے ہیں۔ سکھ قوم اسے ''کرتار پور دربار صاحب کا لانگا'' کے نام سے یاد کررہی ہے۔ اب اُنھیں اپنے اس مقدس مقام کی زیارت کرکے آنکھیں ٹھنڈی کرنے میں لاکھوں آسانیاں رہیں گی۔ وقت ، سفر اور پیسہ بھی بچے گا۔امن کا جھنڈا بھی مزید بلند ہوگا۔مذہبی سیاحت میں بھی اضافہ ہوگا۔ ایک دو بھارتی وزیروں پر مشتمل بھارتی وفد آیا تو سہی لیکن پاکستانی دعوت پر اگر بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج بھی سنگِ بنیاد کی تاریخ ساز تقریب میں شریک ہوجاتے تو پیغامِ امن کو زیادہ تقویت ملتی۔ امریندر سنگھ جی نے شریک ہونے کی بجائے اُلٹا پاکستان کو دھمکی دے ڈالی ہے۔
سشما سوراج بھی منفی رویہ اپنائے رہیں۔پاکستان نے بہر حال امن کی اِس نئی راہداری کی اساس رکھ کر ساری دُنیا پر عملی طور پر ثابت کر دیا ہے کہ تنازعات کے باوجود پاکستان ، بھارت سے پکّے اور پائیدار امن کا خواہاں ہے۔جس روز جناب عمران خان نے امن کی مذکورہ راہداری کی پہلی اساسی اینٹ رکھی، اُسی روز مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجوں نے ایک ہی دن میں نصف درجن سے زائد معصوم کشمیری نوجوانوں کو نہایت بہیمانہ طریقے سے شہید کر دیا تھا۔ پاکستان نے مگر دل پر صبر کی سِل رکھ کر امن راہداری کی بنیاد رکھ دی۔
بھارتی ظلم کے باوجود پاکستان کی طرف سے امن کوششیں رُکی نہیں ہیں۔ کئی برس قبل ہمارے ایک انقلابی اور سر کشیدہ شاعر،حبیب جالبؔ، نے مقبوضہ کشمیر کے پس منظر میں بنائی گئی فلم (یہ امن) کے لیے ایک گیت یوں لکھا تھا: ''ظلم رہے اور امن بھی ہو /کیا ممکن ہے ؟ تم ہی کہو۔'' آج پاکستان کو شاباش کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و بربریت کے باوجود پاکستان امن کی فضا قائم کرنے سے دستکش نہیں ہُوا ہے۔ گویا ایک ناممکن کو ممکن بنانے کی تاریخی جرأت کی گئی ہے۔
مجھے خود بھی گوردوارہ کرتارپور دربار صاحب جانے کا موقع ملا ہے۔ دودھیا رنگ کی یہ نہایت خوبصورت،پُرشکوہ اور تاریخی عمارت ہے۔اِسی مقام پر 22ستمبر1539ء کوسکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک دیو جی نے وفات پائی تھی۔ نارووال سے شکرگڑھ کی جانب سفر کریں تو عین وسط میں دائیں جانب ایک تنگ سی سڑک گوردوارہ کرتار پور صاحب کی طرف اُترتی ہے۔ دربار صاحب کے ارد گرد ہر طرف پھیلے کھیتوں کا حسن اپنی مثال آپ ہے۔ سامنے ہی دریائے راوی بہتا ہے۔
گوردوارہصاحب کے خدمت گزار کا نام گوبند سنگھ ہے۔ اُن کا بنیادی تعلق ننکانہ صاحب سے ہے لیکن محکمہ متروکہ وقف املاک کی طرف سے انھیں یہاں خدمت پر مامور کیا گیا ہے۔ وہ بھی دل و جان سے چاہتے ہیں کہ ڈیرہ بابا نانک سے کرتار پور صاحب تک کا راستہ مستقل بنیادوں پر کھل جائے تو دُنیا بھر کے سکھوں کے دل راضی ہو جائیں گے۔بابا گرو نانک جی سکھوں کے دلوں میں تو بستے ہی ہیں، مسلمانوں کے لیے بھی محترم ہیں۔ حضرت علامہ اقبالؒ نے ''نانک'' کے زیر عنوان ایک طویل نظم بھی لکھی تھی جو اُن کے مجموعہ کلام ''بانگِ درا'' میں شامل ہے۔
اس کا آخری شعر یوں ہے:'' پھر اُٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے/ہند کو اِک مردِ کامل نے جگایا خواب سے۔''اور علامہ اقبال ؒنے ''ہندوستانی بچوں کا قومی گیت'' کے عنوان سے جو نظم لکھی ، اُس میں بھی بابا گرو نانک جی کا ذکر یوں فرمایا:''چشتیؒ نے جس زمیں میں پیغامِ حق سنایا/نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا۔'' واقعہ یہ ہے کہ گوردوارہ کرتار پور دربار صاحب کے لیے موجودہ حکومت نے ایک بے مثال قدم اُٹھایا ہے۔
ہمارے پیارے دوست محمد سلیم بیگ صاحب ( جو آجکل ''پیمرا'' کے چیئرمین ہیں) نے چند سال پہلے بطورِ ڈی جی ''ڈیمپ'' گوردوارہ دربار کرتار پور صاحب پر نہائت شاندار ڈاکیومنٹری فلم بنائی تھی۔ اس میں جدید ڈرون کیمرے بھی استعمال کیے گئے تھے۔ اگر دُنیا بھر کے پاکستانی سفارتخانوں (خصوصاً برطانیہ، امریکا اور کینیڈا) کے ذریعے اس ڈاکیومنٹری فلم کی وسیع پیمانے پر اشاعت اور تقسیم کا بندوبست کیا جائے تو پاکستان میں مذہبی سیاحت کو بھی فروغ ملے گا اور پاکستان کے لیے عالمی سِکھ کمیونٹی کی محبتیں بھی سمیٹی جا سکیں گی۔