مزدوروں کے حقوق کا تحفظ
پاکستان میں سب سے زیادہ مزدوروں کی جان کا تحفظ، علاج، روزگار، اور رہائش کی ضرورت ہے۔
کچھ عرصہ قبل کوئٹہ میں نو مزدورکوئلے کی کان میں دب کر جاں بحق ہوئے، پھر بلوچستان ،گڈا نی شپ بریکنگ کے دوران چھ مزدور شدید جھلس کر زخمی ہوئے، زخم ابھی بھر نہ پائے تھے کہ لانڈھی،کراچی میں فیکٹری کا فرنس (بھٹی) پھٹنے سے چھ مزدور جاں بحق ہوگئے۔
اس سانحے کی خبر میرے علم میں تب آئی جب میں چودہ نومبرکو لانڈھی نمبر ایک پر ایک اجلاس میں حسن ناصرکی برسی منانے کے سلسلے میں شرکت کرکے واپس آ رہا تھا ۔ حسن ناصرکو ایوبی آمریت میں لاہورکے بدنام زمانہ شاہی قلعے میں شدید جسمانی اذیت دے کر قتل کردیا گیا تھا ۔ حسن ناصر لانڈھی ماچس فیکٹری کی یونین سازی اور مزدوروں کے حقوق کے حصول کے لیے برسر پیکار تھے۔
ماچس فیکٹری لانڈھی کے مالک کا تعلق اندھرا پردیش ہندوستان سے تھا اور حسن ناصرکا بھی ۔ جب انھوں نے وہاں یونین تشکیل دی تو مالک کا کہنا تھا کہ ''یہ آستین کا سانپ ہے'' وہ فیکٹری سے نکال دیے گئے۔ بہرحال اسی لانڈھی میں منزل پمپ کے پاس ایک فیکٹری کا فرنس پھٹنے سے چھ مزدور ہم سے جدا ہوگئے ۔ جب کوئی نوکر شاہی کا افسر ، وزیر، جج یا جرنیل مرتا ہے تو اس کے جنازے میں ریاستی آلہ کار سب شریک ہوتے ہیں لیکن یہ تو مزدور تھے ان کے جنازے میں حکمران طبقات کے لوگ کیونکر شریک ہوں گے ۔ شاید اس عمل میں ان کی طبقاتی بے حر متی بھی ہوگی، جب کہ یہی وہ مزدور ہیں جو پو رے ملک کو پیداوار فراہم کر تے ہیں اور اگر یہ مزدورکسان جو ستر فیصد سے کم نہیں ہے ، پیداوارکرنا بند کردیں تو سب بھوک سے مرجائیں گے۔ کسی بھی ریاستی ادارے اور اہلکاروں کو ایک دانہ چاول اور دال بھی نصیب نہیں ہوگی۔ اسی لیے انقلابی شاعر علی سردار جعفری نے اپنے ایک نظم میں کہا تھا کہ
ان ہاتھوں کی تعظیم کرو / ان ہاتھوں کی تکریم کرو/ یہ ہاتھ بڑے عظمت کے ہیں/ مٹی چھوئیں تو سونا بن جائے/ چاندی چھوئیں تو پائل بن جائے/ان ہاتھوں کی تعظیم کرو/ ان ہاتھوں کی تکریم کرو/ یہ ہاتھ بڑے عظمت کے ہیں۔
آج ہما رے ملک میں تمام طبقات کی بات ہوتی ہے، ان کے مسائل پرکسی حد تک روشنی ڈالی جاتی ہے اورایک حد تک کبھی کبھی حل بھی کردیا جاتا ہے، لیکن مزدوروں کے مسائل جوں کے توں ہی رہتے ہیں ، جیسا کہ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ایک غیرہنر مند مزدورکی تنخواہ کم ازکم پندرہ ہزار روپے ہوگی، جب کہ نوے فیصد مزدوروں کو چھ ہزار سے بارہ ہزار روپے سے زیادہ تنخواہیں نہیں ملتی ہیں ۔اس حالت میں مزدور نیم فاقہ کشی کی زندگی گذارتا ہے اور مجبورا آخرکار خود کشی کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔گزشتہ تین ماہ میں صرف تھرپارکر میں دو سو سے زائد محنت کش خودکشی کرچکے ہیں ۔ بے روزگاری ہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ لوگ ڈاکے، چوری، خودکشی، منشیات نوشی، بیگانگی ذات، گدا گری ، نیم فا قہ کشی اور عصمت فروشی پر مجبور ہوتے ہیں ۔ ملک بھر میں خاص کرکراچی میں ہزاروں ایسے کارخانے، مل اور فیکٹریاں ہیں جہاں مزدوروں کے لیے محفوظ انتظامات ، اوقات کار اور سہولتیںمیسر نہیں ہیں ۔
فیکٹریوں میں ایسے محفوظ خفیہ دروازے نہیں ہیں جہاں سے حادثات کے وقت مزدور نکل سکیں ۔ ان کی سیفٹی کے لیے عالمی مزدور قوانین کے مطابق کوئی ایک بھی سہولت نہیں ہے جہاں قانون میں درج کیے گئے شقوں پر عمل ہوتا ہو ۔ لانڈھی میں جتنے بھی ڈائینگ ، ہوزری،گارمنٹ ، صابن اور شیشے بنانے کی فیکٹریوں، ٹینری اور نیل بنانے والی فیکٹریوں، بسکٹ اور پلاسٹک کی فیکٹریوں وغیرہ میں مزدوروں کے لیے سرکاری قوانین کے مطابق بھی اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا، جس کے نتیجے میں آئے روز ہمارے محنت کش اپنے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ یہ ہزاروں مزدور ہی صرف جان سے نہیں جاتے بلکہ اپنے پیچھے یعنی ان کی روزی سے لاکھوں پلنے والے ان کے بیوی بچے فاقہ کشی،گدا گری ، بے راہ روی ، خودکشی اور دربدری پر مجبور ہوتے ہیں۔
ہماری حکومت کو جب کوئی ایسے واقعات رو نما ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں تو بیان بازی اور معاوضہ دینے کے اعلان کی حد تک اکتفا کرتے ہیں۔ پھر چند دن گزرنے کے بعد معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہوجاتا ہے۔ فیکٹری کا فرنس پھٹنے سے چھ مزدوروں کی شہادت کے فورا بعد نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری ناصر منصور لانڈھی میں واقع فیکٹری پہنچے، مزدوروں کی خیریت دریافت کی۔
لیبر ڈیپارٹمنٹ اور فیکٹری مالکان نے جاں بحق ہونیوالے مزدوروں کے لواحقین کو معاوضہ دینے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ سننے میں یہ آ یا ہے کہ مل مالکان کے خلاف ایف آئی آر بھی درج ہوئی ہے اور لواحقین کو معاوضہ دینے کے لیے قانونی چارہ جوئی کا عمل شروع ہوچکا ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس عمل سے کہاں تک مثبت نتیجہ نکلتا ہے۔
پاکستان میں سب سے زیادہ مزدوروں کی جان کا تحفظ، علاج، روزگار، اور رہائش کی ضرورت ہے۔اس کے بعد ملاوٹ سے پاک تیل، پانی ، دودھ اور دیگر سستی اشیاء کی فراہمی کی ضرورت ہے ۔ ہمیں بم ، میزائل اور ٹینک نہیں چاہیے، ہمیں جان کا تحفظ ، صحت ، تعلیم اور روزگار چاہیے۔ ہمارا میڈیا ان مسائل پر اکا، دکا پروگرام کرتا ہے، وہ بھی ہتھیلی پر جان رہ کر۔باقی تمام پروگرام فضول باتوں پر ہوتے ہیں، مگر اب مزدورطبقے نے پھر سے اپنے حقوق کے لیے لڑنا شروع کیا ہے،کبھی اسلام آباد میں یوٹیلیٹی اسٹورکے مزدور،کبھی کراچی میں نرسیں،کبھی گڈانی شپ بریکنگ کے مزدور،کبھی پاکستان کواٹرکے مکین اپنے مطالبات منوا لیتے ہیں ، توکبھی پورٹ قاسم کے مزدوروں کے مطالبات اور ایمپریس مارکیٹ کراچی کے دکاندار وں کے مطالبات بیچ میں ہی اٹک جا تے ہیں، مگر لڑتے رہنے سے مسائل ایک حد تک حل ہوتے رہیں گے، اس کے سوا سارے راستے بندگلی میں جاتے ہیں ۔