لاہور میں گزرے دن
انگوری باغ میں بھی دوستیاں تھیں، اہل محلہ سے ہلال خان، آفتاب ایڈووکیٹ بنات انگور کے پجاری گہرے دوست تھے۔
میں 1977 میں پروڈیوسر ہوکر ریڈیو پاکستان لاہور پہنچا۔ فیملی حیدرآباد، میں لاہور، قلیل تنخواہ ۔ لاہور سے تقریباً باہر شالامار باغ کے سامنے سڑک کے دوسری طرف انگوری باغ میں اینٹوں سے بنا، دوسری منزل پر ریڈیو حیدرآباد کے ایک دوست اور یونین دشمن (ہم دونوں الگ الگ یونینوں کے ممبر تھے) کے فلیٹ میں سو روپے ماہانہ پر رہنے لگا۔ یہ بھی اس دوست نے کرایہ نہیں لیا بلکہ نیشنل کنسٹرکشن کمپنی کی طرف سے حکومت کی جانب سے لیبر کے لیے یہ تین منزلہ فلیٹ بنائے گئے تھے، اس کی ماہانہ قسط تھی جو میں نے ضد کرکے منوائی کہ جب تک میں ہوں، میں دوں گا۔ خدا نور خان کا دنیا و آخرت میں بھلا کرے۔
میں عموماً ڈیوٹی آفیسر کے فرائض انجام دیتا تھا جو ہر نوآموز کوکرنا ہوتے تھے، ریڈیو سننا، پروگراموں پر تبصرہ اور رپورٹ، کبھی کبھی رات کے بعد صبح کی ڈیوٹی بھی، یوں بارہ بجے آنا، پانچ بجے واپس جانا۔ رنگروٹ ہر ڈپارٹمنٹ میں ہوتے ہیں اور ان کی ''گھسائی'' بھی ہوتی ہے، مگر میں اسٹیشن ڈائریکٹر سلیم گیلانی کا پسندیدہ براڈ کاسٹر بھی تھا اور خالد اصغر سینئر پروڈیوسر روم میٹ اور خالد حیات انجینئر بہترین دوست رہے۔ گلزار عثمانی نے یہ جگہ مجھے خالد اصغرکی فرمائش پر دی تھی۔ خالد اصغر کا مشہور پروگرام مجھے دیا گیا، خالد اصغرکے کہنے پر اور میں نے اسے بہت اچھے طریقے سے جاری رکھا، اور بھی کئی اچھے پروگرام سوال یہ ہے، مسئلہ یہ ہے، میرے پاس تھے۔
انگوری باغ میں بھی دوستیاں تھیں، اہل محلہ سے ہلال خان، آفتاب ایڈووکیٹ بنات انگور کے پجاری گہرے دوست تھے، مگر ان کی دیوی سے کبھی رابطہ نہیں رکھا، میں فرشتہ نہیں انسان ہوں، ہاں نماز ہمیشہ پڑھتا تھا۔ انگوری باغ میں اس وقت بہت فلیٹ خالی بھی پڑے تھے، بجلی اور پانی کا نظام کمپنی کے پاس تھا، جس کے وہ رہنے والوں سے پیسے لیا کرتے تھے اور عارضی تاروں کے ذریعے گھروں میں بجلی دے رکھی تھی اور غریبوں سے وہی سلوک کرتے تھے جو پاکستان میں 47 کے والٹن کے مہاجرکیمپ میں کیا جاتا تھا، آج بھی کم وبیش غریبوں کے ساتھ وہی رویہ ہے، پورے ملک میں جب ہر طرف تلخی ہو تو زبان میں مٹھاس کہاں سے آئے۔
مجھے انگوری باغ میں سب سُچل کہتے تھے (پیش کے ساتھ پڑھیے) وجہ بڑی دلچسپ تھی ۔ ایک رات میں ڈیوٹی کرکے واپس آیا تو گلی میں اندھیرا، اپنے فرسٹ فلورکے فلیٹ پر پہنچا تو اوپر حنیف ڈرائیورکے گھر سے چھوٹے بچے کے رونے کی آواز آرہی تھی، حنیف بالکونی میں کھڑا تھا۔ میں نے پوچھا کیا ہوا لائٹ کیوں بند ہے، توکہنے لگا B بلاک والوں نے بند کر رکھی ہے (ہم D بلاک میں تھے) میں نے پوچھا کیوں؟ کہنے لگا وہ کہہ رہے ہیں وولٹیج ڈراپ ہے، اپنا وولٹیج بڑھا رہے ہیں۔ میں نے کہا نیچے آؤ میرے ساتھ چلو دکھاؤ مجھے۔ وہ نیچے آگیا، دو تین گلیاں عبور کرتے ہوئے کہنے لگا صاحب! بہت تنگ کرتے ہیں، گرمی ہے، حبس ہے، بتی بند کردی، پنکھا بند، بچے رو رہے ہیں۔ میں نے کہا دیکھتا ہوں ابھی۔ چوک میں پہنچے، وہ روشنیوں سے جگمگا رہا تھا، لوگ جمع تھے، ہنس بول رہے تھے۔
ایک آدمی چھڑی سے ٹیک لگائے کھڑا اوپر پول کی طرف دیکھ رہا تھا، ایک آدمی وہاں ٹرانسفارمر کے پاس تار لگا رہا تھا۔ میں نے شدید غصے میں چلا کر کہا کیا ہو رہا ہے یہ؟ پول کے اوپر والے آدمی کو میں نے دیکھا اوئے تم نیچے اتروکیا کر رہے ہو یہ؟ وہ ہڑبڑا کر پول سے نیچے اتر آیا۔ میں نے اس سے کہا تم نے D بلاک کی لائن کیوں کاٹی؟ اس نے چھڑی والے کی طرف اشارہ کیا، انھوں نے کہا تھا۔ میں نے کہا کون ہو تم لائٹ بند کروانے والے؟ کسی نے کہا یہ صدر ہے، میں نے کہا صدر پاکستان ہے۔ کسی نے کہا یونین کا صدر ہے، کون سی یونین اور یونین کے یہ کام ہوتے ہیں کیا، کدھر ہے تمہارا آئین، رسید بک کہاں ہے، ممبر کتنے ہیں کالونی کے؟
ہلال بہت سمجھدار تھا جو پول سے اترا تھا، کہنے لگا سر! کل شام کو میرے گھر پر میٹنگ ہے آپ آئیے گا۔ میں نے کہا کون سا گھر ہے تمہارا؟ اس نے اشارے سے بتایا۔ میں نے کہا پانچ منٹ میں D بلاک آن کرو، ورنہ میں پھر آؤں گا۔ اس نے کہا سر! آپ بے فکر ہوجائیں، گھر پہنچنے سے پہلے لائٹ آجائے گی۔ رستے میں تھے لائٹ آگئی۔ حنیف کہنے لگا سر! یہ اسی قابل ہیں، آپ نے اچھا کیا، کل آپ میٹنگ میں آئیے گا یہ لوگ ہم غریبوں سے بہت فراڈ کرتے ہیں۔
دوسرے دن شام کو میں پہنچا تو لوگ جمع تھے۔ چھڑی والا کرسی پر بیٹھا تھا باقی لوگ نیچے۔ میں آخر میں چپ چاپ بیٹھ گیا۔ درمیان میں، میں نے کہا یونین رجسٹرڈ ہے؟ لوگوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، کئی ایک نے جگہ بنائی اور کہا سر! آگے آجائیں۔ میں نے کہا میں ٹھیک ہوں، لوگ نہ مانے مجھے آگے لے آئے۔ میں نے کہا یہ یونین ہے یا ایسوسی ایشن۔ سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ میں نے چھڑی والے سے جس کا نام عارف تھا کہا، آپ بتائیں کہاں کے صدر ہیں آپ؟ کس نے بنایا آپ کو صدر؟ وہ کسمسا کر رہ گیا۔ میں نے کہا آئین کہاں ہے؟ اس نے ایک لڑکے کو جس کا نام راحت تھا اشارہ کیا، اس نے فائل میں سے ایک پلندہ مجھے دیا۔ میں نے ایک نظر اسے دیکھا اور عارف سے کہا آپ نے تقریر کرنی ہے، اس نے گھبرا کر کہا نہیں، میں نے کہا انسانوں کی طرح نیچے بیٹھیں ،کیا بندر کی طرح کرسی پر چڑھے بیٹھے ہیں۔ وہ گھبرا کر نیچے بیٹھ گیا، میں نے راحت سے کہا یہ کرسی ہٹاؤ یہاں سے۔
میں نے لوگوں سے کہا یہ سب فراڈ ہے، یہ ایک کیمیکل کمپنی کا آئین ہے، تم سے اس کا کوئی واسطہ نہیں۔ یونین کمپنی، فیکٹری میں بنتی ہے یہاں نہیں، جب ہی تو نیشنل کنسٹرکشن والے ہمیں گھاس نہیں ڈالتے اور میں نے عارف کی طرف دیکھ کر کہا۔ یہاں ان کے ایجنٹ ہیں جو آپ کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ ٹھیک بات ہے۔ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ کئی لوگوں نے کہا۔ پھراب کیا ہوگا، ہلال خان نے پوچھا ۔ ویلفیئر ایسوسی ایشن بنائیں گے، میں نے کہا۔
(جاری ہے۔)