میٹروبس میٹرو ٹرین سے اچھا نظام
ہم آخرکیوں اپنے حد سے زیادہ گنجان آباد اور آلودہ شہروں میں ماس ٹرانزٹ کے نئے آئیڈیاز پہ کام نہیں کرتے؟
امریکا کی شمال مغربی ریاست واشنگٹن کے شہر سی ایٹل میں 24 مارچ 1962 کو مونو ریل شہریوں کے لیے کھولی گئی۔ یہ ہوئی ایک مثال ۔ ہم دوسری مثال مشرق بعید کے ملک تھائی لینڈ کی لے لیتے ہیں جہاں 5 دسمبر 1999 کو بی ٹی ایس اسکائی ٹرین کا افتتاح ہوا ۔ تیسری مثال آپ افریقا کے ملک ایتھوپیا کی ہی لے لیجیے۔
جی ہاں اسی ملک ایتھوپیا کی جسے ہمارے ہاں ابھی بھی قحط، بھوک اور خانہ جنگی سے تباہ شدہ ملک سمجھا جاتا ہے۔ اسی ایتھوپیا کے شہر ادیس ابابا میں شہریوں کے لیے لائٹ ریل ماس ٹرانزٹ سسٹم کا 20 ستمبر 2015 کو آغاز ہوا ۔ یہ مثالیں بتاتی ہیں کہ دنیا بھرکے شہروں میں کتنے پہلے سے کتنی ہی طرح کے ریل ماس ٹرانزٹ سسٹم کام کررہے ہیں اور ہم؟ ہم ابھی تک لاہور میں اورنج لائن میٹرو ریل سسٹم کی تعمیر ہی مکمل نہیں کر پائے ہیں۔ کام چل رہا ہے ہمارے ہاں ایسے ہی کام چلتا ہے۔ چلیے یہ تو بات ہوگئی۔ شہری ریل سسٹمزکی۔
اب ہم آتے ہیں میٹرو بس ٹرانزٹ سسٹمزکی طرف۔ آپ براعظم جنوبی امریکا کے سب سے بڑے ملک برازیل کے شہرکری ٹیبا کی مثال لے لیجیے جہاں آج سے 44 سال پہلے 1974 میں میٹرو بس نظام آر آئی ٹی کا آغاز ہوا، ایشیا کے سب سے پہلے بی آر ٹی (بس ریپڈ ٹرانزٹ) سسٹم کا آغاز انڈونیشیا کے شہر جکارتہ سے ہوا۔ جہاں جنوری 2004 کو ٹرانس جکارتہ میٹرو بس کا نظام شہریوں کے لیے کھولا گیا۔ اب بات میٹرو بس کے بارے میں چل نکلی ہے تو ذرا لٹے پٹے شہرکراچی کا بھی ذکر ہوجائے جہاں کا واحد ماس ٹرانزٹ سسٹم کراچی سرکلر ریلوے محکمہ ریلوے کے کرپٹ افسران کی ٹرانسپورٹ مافیا سے ملی بھگت کے نتیجے میں 1999 میں مکمل طور پر بند ہوگیا۔
1999 کے بعد اب کہیں جاکے وفاقی حکومت کی طرف سے گرین لائن بس سسٹم (بی آر ٹی) پہ ابھی بھی کام چل رہا ہے جس میں نئی وفاقی حکومت کے آنے کے بعد اب کچھ تیزی نظر آرہی ہے البتہ سندھ کی نمایندہ صوبائی حکومت نے اس منصوبے کے لیے نہ ہی ابھی تک بسیں فراہم کی ہیں اور نہ ہی اس کی طرف سے تعمیر کیے جانے والے اورنج، یلو اور بلو لائن میٹرو بس سسٹمز پہ کوئی قابل ذکر کام کیا گیا ہے، مگر بھلا کون ہے جو اس پہ جواب طلب کرے؟
اٹھارہویں ترمیم زندہ باد ۔ یہ بدقسمت کراچی شہر ہے جو صوبائی حکومت کو تقریباً اس کے حاصل ہونے والے محصولات کا 95 فی صد اور وفاقی حکومت کو تقریباً 65 فی صد ادا کرتا ہے۔ ہاں البتہ صوبائی حکومت نے اسٹریٹ کرائم کی جنت کراچی میں چنگ چی رکشوں کی دوبارہ سے اجازت دے دی ہے۔ ظاہر ہے چنگ چی رکشوں کے ''ماس ٹرانزٹ نظام'' پہ نہ تو حکومت کا پیسہ خرچ ہوتا ہے اور نہ ہی کراچی کے شہریوں کوکوئی آرام دہ اور با عزت سواری میسر آتی ہے چنانچہ کچھ عجب نہیں کب یہ نظام صوبائی حکومت کو مرغوب نظر آتا ہے۔ خیر آپ کراچی کو تو چھوڑیے کیونکہ کراچی کا پیسہ باہر لے جانے کے لیے ہے نہ کہ کراچی پہ خرچ کرنے کے لیے۔
ہم آتے ہیں ایک بڑے سوال کی طرف کی بحیثیت ایک ملک اور قوم ہم ہمیشہ دوسروں سے پیچھے کیوں رہتے ہیں؟ ہم ہمیشہ دوسروں کی نقل، دوسری کی تقلید کیوں کرتے ہیں؟ ہم خود اپنی کوئی مثال کیوں قائم نہیں کرتے؟ ہم آخرکیوں اپنے حد سے زیادہ گنجان آباد اور آلودہ شہروں میں ماس ٹرانزٹ کے نئے آئیڈیاز پہ کام نہیں کرتے؟ میٹرو بس اور میٹرو ٹرین جیسے روایتی ماس ٹرانزٹ نظام ہماری قرضوں میں ڈوبی معیشت کے لیے اپنی بھاری لاگت کی وجہ سے بہت بڑا مسئلہ ہیں۔ ہمارے شہرکیونکر انتہائی بے ترتیبی سے پھیلے ہیں اور شہری انتظامیہ کے پاس اپنے شہروں کے زمین پہ اور زیر زمین موجود انفرا اسٹرکچر کے اپ ڈیٹڈ اور درست ماسٹر پلان موجود نہیں چنانچہ روایتی میٹرو منصوبوں کی بھاری بھرکم لاگت ہمیں اور بھی بھاری پڑتی ہے۔
2017 کی متنازعہ مردم شماری کے مطابق ہمارے 10 بڑے شہروں کی آبادی میں پچھلے 19 سالوں میں 74.4 فی صد کا اضافہ ہوا ہے اور ساتھ ہی ان شہروں خصوصاً تباہ حال کراچی میں چنگ چی اور سی این جی رکشوں اور موٹر سائیکلوں کی بہتات سے بد نظمی، افراتفری اور صوتی و فضائی آلودگی انسان کی قدرتی قوت برداشت سے کہیں باہر ہوچکی ہے۔ چنانچہ جسمانی، اعصابی اور نفسیاتی عوارض عام ہیں ۔ ہمارے شہر پچھلے دس سالوں میں دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی اگلی صف میں شامل ہوچکے ہیں۔ شہروں میں زہریلی فضائی آلودگی کی وجہ سے شہری کینسر، دمے اور دوسری کئی بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔
اس تمام صورتحال میں ہمیں اپنے شہر کے لیے ایک ایسا ماس ٹرانزٹ سسٹم چاہیے کہ جس کی تعمیر کے لیے ہمیں اپنے شہروں میں بڑے پیمانے پہ گہری کھدائی، زیر زمین شہری تنصیبات کی بڑے پیمانے پہ منتقلی اور درختوں کی بے تحاشا کٹائی کی ضرورت نہ پڑے۔ یہ سسٹم نہ صرف لاگت میں سستا ہو بلکہ ماحول دوست بھی ہو۔ اس طرح کا اسمارٹ ماس ٹرانزٹ سسٹم بنانے کے لیے ہمیں میٹرو بس (بی آر ٹی) اور میٹرو ٹرین جیسے روایتی نظاموں سے آگے جاکر سوچنا ہوگا جیسے کہ SET نظام یعنی سولر ایلیویٹڈ ٹرانسپورٹ نظام۔ شمسی توانائی سے چلنے والی کیبل کاروں کا ٹرانسپورٹ نظام ہم جیسے طرح طرح کے نظام کی بات کررہے ہیں۔ اس پہ دنیا کے مختلف ریسرچ اداروں، یونی ورسٹیوں اور کمپنیوں میں کام چل رہا ہے اور پروٹوٹائپ پہ کام ہورہاہے۔
یہ در اصل ایک ایسا ماس ٹرانزٹ نظام ہوگا جو پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے تیار کردہ کیبل کاروں (آٹو میٹڈ وہیکلز) پہ مشتمل ہوگا۔ ہر کیبل کار میں دو سے ڈھائی درجن اور زیادہ کی گنجائش ہوگی۔ یہ کیبل کاریں زمین سے کچھ بلندی پہ کیبل کے ایک سپورٹ سسٹم سے چلیں گی۔ اس سپورٹ سسٹم کا اسٹرکچر سولر فوٹو والٹیک پینلز سے مزین ہوگا جو فی میل ایک میگا واٹ اور زیادہ تک کی بجلی سورج کی روشنی کی مدد سے پیدا کریںگے جس سے یہ کیبل کاریں حرکت کریںگی۔ اس پورے نظام کا انفرا اسٹرکچر روایتی میٹرو بس اور میٹرو ٹرین کے نظاموں کے مقابلے میں کہیں کم جگہ گھیرے گا، اس کی تنصیب اور اس کا چلانا آسان اور کم خرچ ہوگا۔
وفاقی حکومت کو ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے ایک پرکشش سرمایہ کاری پیکیج بنانا چاہیے جس کے تحت وہ ملکی اور غیر ملکی ریسرچ اداروں، یونیورسٹیوں اورکمپنیوں سے مل کر SET کا یہ سستا اور ماحول دوست ماس ٹرانزٹ سسٹم ہمارے شہروں کے لیے تیار کریں۔ تعمیر کریں، نصب کریں اور چلائیں، اس سے ملک میں ٹرانسپورٹ اور ٹریفک کے مسائل میں کمی کے ساتھ سائنسی خصوصاً گرین انرجی پہ ریسرچ اور کام میں بھی ترقی ہوگی۔ یہ ضروری نہیں کہ جب باہر والے کوئی کام کریں تب ہی ہم کریں، ان کی نقل کریں۔ ہمیں خود بھی کبھی کسی کام میں پہل کرنی چاہیے۔