قصہ مختصر

سیان ٹاور90ڈگری پرجھکی ہوئی ایک شاہ کاررہایشی عمارت ہےجسےدنیا کی بلندترین بل کھاتی عمارت کا اعزازحاصل ہے۔


Rizwan Tahir Mubeen June 30, 2013
سیان ٹاور90ڈگری پرجھکی ہوئی ایک شاہ کاررہایشی عمارت ہےجسےدنیا کی بلندترین بل کھاتی عمارت کا اعزازحاصل ہے۔ فوٹو : فائل

دبئی کا سیان ٹاور
90 ڈگری پر لچک کھاتی دنیا کی بلند ترین عمارت

دبئی میں تعمیر ہونے والا سیان ٹاور نوے ڈگری پر جھکی ہوئی ایک شاہ کار رہایشی عمارت ہے۔ جسے دنیا کی بلند ترین بل کھاتی عمارت کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ سوئیڈن میں واقع HSB Turning Torso سے مشابہہ ہے، جو اسی طرز کی لچک کھاتی ہوئی عمارت ہے، لیکن اس کی بلندی 190 میٹر ہے، جب کہ سیان ٹاور 310 میٹر بلند ہے۔ ہر منزل پر اس لچک کھاتی عمارت کا جھکائو 1.2 ڈگری پر ہے، جو نچلی منزل سے بالائی منزل تک پورے نوے ڈگری تک ہوجاتا ہے۔ 80 منزلہ سیان ٹاور کی تعمیر 2006ء میں شروع ہوئی، جو آٹھ برس بعد 10جون 2013ء کو پایۂ تکمیل تک پہنچی۔

2007ء میں اس عمارت کی تعمیر سیلاب کے باعث خاصی متاثر بھی ہوئی۔ 570 عالی شان اپارٹمنٹس پر مشتمل اس عمارت میں رہائش کے علاوہ پارکنگ، کانفرنس روم، ٹینس کورٹ، جمنازیم وغیرہ کی سہولیات بھی موجود ہیں۔

سیان ٹاور بغیر کسی ستون کے Open-Space آرکیٹکچرل تصور کے تحت تعمیر کیا گیا ہے۔ اسے بنانے والی ٹیم اس سے قبل دبئی کی فلک بوس عمارت برج خلیفہ بھی تعمیر کر چکی ہے اور شکاگو (امریکا) کا Trump Tower اور شنگھائی (چین) میں Jin Mao بنا چکی ہے۔ سیان ٹاور دبئی میں ضلع دبئی مرینہ پر واقع ہے، جو کاروباری نقطۂ نگاہ سے نہایت اہم مقام ہے۔ ابتداً اس عمارت کا نام Infinity ٹاور تھا، تاہم پھر اسے سیان ٹاور کے نام سے بدل دیا گیا، کیوں کہ دنیا میں Infinity نام کی ایک سے زاید عمارات موجود ہیں۔ اس لیے دنیا کی اس منفرد عمارت کا نام دوسروں سے مختلف کرنے کی غرض سے ہم نے اسے سیان ٹاور کا نام دیا، کیوں کہ اس نام اور اس جیسی کوئی دوسری عمارت دنیا میں موجود نہیں ہے۔ یوں سیان ٹاور صحرائے عرب میں اپنی نوعیت کے منفرد شہر دبئی کی شان بڑھانے کا ایک اور روشن حوالہ بن چکا ہے۔

دو منہ والی بلی کی پیدایش
Duecyکی ماں نے بھی اس کی پرورش سے انکار کر دیا

11جون کو امریکی ریاست Oregon میں عجیب الخلقت دو منہ والی بلی کی پیدایش ہوئی ہے، جس کا نام Duecy رکھا گیا ہے۔

اس کی پیدایش کسی چڑیا گھر یا کسی گھر وغیرہ میں نہیں بلکہ ایک گلی میں ہوئی ہے۔ اس کی تین آنکھیں، دو ناک اور دو منہ ہیں۔ اس بلی کو ذرایع ابلاغ کے سامنے پیش کرنے والی خاتون Stephanie Durkee نے بتایا کہ ایک دن ان کے بچے باہر سے گھر لوٹے تو انہوں نے آکر بتایا کہ انہوں نے بلی کا ایک ایسا عجیب وغریب بچہ دیکھا ہے، جس کے دو سر ہیں۔

اس بلی کی ماں نے بھی اسے چھوڑ دیا ہے۔ اس لیے Stephanie اسے اپنے گھر لے آئیں، جہاں وہ Duecy نامی اس بلی کے بچے کی پرورش کر رہی ہیں۔ ننّھی Duecy کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے اسے ایک سرنج کی مدد سے دودھ پلایا جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق اس طرح کے عجیب الخلقت جانوروں کو مختلف بیماریوں کے خطرات لاحق رہتے ہیں۔ اس لیے وہ بہت کم بچ پاتے ہیں، تاہم اس وقت Duecy بالکل صحت مند ہے۔ موسمی اثرات کی شدت سے بچانے کے لیے Duecy کو گرم تولیے کے کپڑے میں لپیٹ کر رکھا گیا ہے۔

غربت بھی مُٹاپے کو راہ دکھاتی ہے!
نچلے طبقے کے بچے مُٹاپے کا زیادہ شکار ہوتے ہیں

بچوں میں دبلے پن کی بیماری کو غذائی کمی اور غذائی کمی کو غربت سے جوڑا جاتا رہا ہے، لیکن حال ہی میں جمع کیے جانے والے اعدادوشمار کے مطابق ترقی پذیر علاقوں اور ممالک میں بچوں میں مُٹاپے کی شرح زیادہ ہے۔

رائس یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک تحقیق نے قرار دیا ہے کہ غربت مُٹاپے کا باعث بن سکتی ہے۔ ریچل ٹولبرٹ کی سربراہی میں کی جانے والی تحقیق کے مطابق امیر علاقوں میں ایسی صورت حال نہیں، جب کہ چند محقق یہ بھی کہتے ہیں کہ کم غذائیت والی خوراک بھی مُٹاپے کا ایک سبب ہے۔ توانائی کا بچوں کی نشونما سے براہِ راست تعلق ہے اور اگر بچوں کو ان کی خوراک سے توانائی نہیں حاصل ہو رہی تو اس کے اثرات مُٹاپے کی صورت میں سامنے آ سکتے ہیں، جو اس کی جسمانی صحت کے ساتھ ذہنی نشوونما پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے۔



طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان مسائل سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ روزمرہ زندگی کے معمولات اور انداز میں تبدیلی لائی جائے۔ بچوں کو شروع ہی سے جسمانی سرگرمیوں، جیسے مختلف کھیل اور ورزش وغیرہ میں، دل چسپی لینا سکھایا جائے۔ اس طرح نہ صرف بچوں میں مُٹاپے کو روکا جا سکے گا، بلکہ ان کی ذہنی استعداد بھی بڑھائی جا سکے گی۔

ماہرین نفسیات کا غریب بچوں میں مُٹاپے کے حوالے سے کہنا ہے کہ غربت میں مُٹاپے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ایک غریب بچہ جب بھی اور جہاں بھی کچھ میسر ہو فوراً ہی کھا لیتا ہے، جب کہ ایک بہتر مالی حالت کا حامل بچہ شاید ایسا نہیں کرے گا، کیوں کہ اس کے اندر ایک غریب بچے کی طرح کھانے اور غذا کے لیے محرومی کا عنصر موجود نہیں ہوگا۔ اس لیے وہ ہمیشہ اپنے وقت اور اپنی بھوک کی مناسبت سے ہی کھائے گا۔

الٹا کروگے تو پھر سیدھا دکھائی دے گا
''بوجانا'' ہرچیز کو اُوندھا کر کے دیکھتی اور پڑھتی ہے

سربیا کی ایک خاتون Bojana Danilovicپیدایشی طور پر اپنی مخصوص دماغی حالت کی وجہ سے ہر چیز کو الٹا کر دیکھتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان کا دماغ دیکھی جانے والی چیز کا عکس الٹا بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر چیز کو اوندھا کر کے دیکھتی ہیں۔ ایسا کرنے سے انہیں وہ چیز سیدھی دکھائی دیتی ہے۔ بوجانا کے والدین کے مطابق بچپن میں انہوں نے چلنے کے لیے قدم بھی پچھلی طرف ہی اٹھائے تھے، تاہم انہوں نے محنت کر کے بوجانا کو سیدھا چلنا سکھایا، جس سے وہ سیدھا چلنا تو سیکھ گئیں، لیکن سیدھا دیکھنا، لکھنا اور پڑھنا ممکن نہ کرسکیں۔ کوئی اخبار ہو یا کوئی رسالہ، یہ اسے پڑھتی الٹا ہی ہیں۔ موبائل پر آئے پیغامات پڑھنے کے لیے انہیں موبائل کو بھی گُھمانا پڑتا ہے اور ٹی وی اور کمپیوٹر کی اسکرین کو بھی سر کے بل کھڑا کرنا پڑتا ہے۔



ان کا کہنا ہے کہ انہیں نظر بالکل ٹھیک آتا ہے، لیکن کسی چیز یا تحریر کو سمجھنے کے لیے اسے اُلٹا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے ساتھ ایسا ہوتا ہے لیکن کیوں، اس کا انہیں خود بھی نہیں پتا۔ امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بوجانا جس مسئلے سے دوچار ہیں اسے spatial orientation phenomenon کہتے ہیں۔

جب پانی کے نَلوں سے گیس نکل آئی۔۔۔!
فیصل آباد میں پیش آیا ایک عجیب وغریب واقعہ

نیو سول لائن، فیصل آباد کے علاقے میں 500 سے زاید گھروں میں مسلسل تین روز تک پانی کے نلوں سے سوئی گیس کا اخراج ہوتا رہا۔ جس سے شہری عجیب وغریب پریشانی میں مبتلا ہوگئے۔ متعلقہ اداروں نے مسئلہ حل کرنے کے لیے اطراف کی آبادیوں کی گیس ہی بند کر ڈالی، جس سے لوگوں کے چولہے بھی گیس سے محروم ہوگئے، لیکن نل بہ دستور گیس اُگلتے رہے، جس سے بعض گھروں میں آتش زَدگی کے واقعات بھی پیش آئے۔

پہلے مکین اسے گیس اخراج کا پیش خیمہ سمجھتے رہے، لیکن ماجرا کچھ اور نکلا۔ خبر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ گیس پانی کے ساتھ آ رہی تھی یا پانی کی جگہ! اگر صرف گیس ہی آرہی تھی تو پھر بھی اسے کسی طرح چولہے سے منسلک کر کے اسے جلایا جا سکتا تھا، لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس رہا تو بیک وقت گیس اور پانی کی موجودگی سے چولہے کا جلا رہنا ممکن نہیں لگتا۔

ہمارے ہاں تو ایسی صورت حال اور بھی خطرناک ہو سکتی ہے، کیوں کہ یہاں بہت سے سگریٹ نوش اپنا شوق بیت الخلا میں بھی نہیں چھوڑتے اور اگر وہاں کے کسی نل سے گیس جاری ہوگئی تو۔۔۔! خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا جو برسبیل تذکرہ آگیا، تاہم اپنی نوعیت کا یہ منفرد ''حادثہ'' ہمارے جیسے ملک میں اور بھی ''تاریخی '' رہا کہ یہاں گیس کی کمی کا رویا جانا بھی اب حکومتی ترجیحات کا حصہ بن چکا ہے۔

کہاں تو گیس کی بندش نے لوگوں کی ناک میں دَم کر رکھا ہے اور کہاں گیس ہے کہ پانی کے نلوں سے بھی نکل رہی ہے۔ ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ شاید گیس اپنی کمی کا بھانڈا پھوڑنے کے لیے ''متبادل'' راستے اختیار کر رہی ہے۔ اس سے قبل ہمارے ہی ملک میں پانی نے بھی ایک بار گیس کی راہ اختیار کی تھی اور لوگوں کے گیس پائپوں سے اچانک پانی جاری ہو گیا تھا اور لوگ اپنے چولہوں اور گیس کی لال ٹینوں سے اُبلنے والے ''چشمے'' سے سخت مشکلات کا شکار ہو گئے تھے۔

تجربات کے لیے۔۔۔!
مشرقی جرمنی کے شہریوں پرنئی دوائیں آزمائی جاتی رہیں

یوں تو سرمایہ داریت کے حوالے سے انسانیت سوز واقعات اور کردار سامنے آنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ ماہرین سیاسیات کہتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ ذہنیت اپنی اجارہ داری کے لیے کوئی بھی گھٹیا ترین قدم اٹھانے سے بھی نہیں چُوکتی۔ اب اسی خیال کو لیں جو خاصا تقویت پا چکا ہے کہ دنیا میں بہت سی بیماریوں کی دوائیں مبینہ طور پر بیماریوں سے پہلے ایجاد کر لی گئیں اور ان کے لیے بیماریاں بعد میں بنائی گئیں، تاکہ انہیں بھاری قیمت پر فروخت کر کے زیادہ سے زیادہ سرمایہ کمایا جا سکے اور اپنی گرفت مضبوط رکھی جاسکے۔ یعنی چابی پہلے بنی اور اس کا تالا بعد میں۔۔۔ اب اسی پر قیاس کرتے چلے جائیں آپ کو معیشت میں ہوسِ زر سے پیدا ہونے والے ان مسائل کے دوسرے سِرے پر سرمایہ داریت بیٹھی نظر آئے گی۔

اسی سے ملتے جلتے معاملے کے حوالے سے جرمنی کے ہفت روزہ اشپیگل نے ایک حیرت انگیز انکشاف کیا ہے، جس کے مطابق مغرب کی مختلف ادویہ ساز کمپنیاں سابق مشرقی جرمنی کے لوگوں کو نئی دوائوں کے تجربات کی بھینٹ چڑھاتی رہیں اور انہیں اس بات کی خبر تک نہ ہونے دی اور 50 ہزار مریضوں پر مختلف دوائوں کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔ اس دوران فشار خون (بلڈ پریشر) کی دوا کا ٹیسٹ کرنے کے دوران دو مریضوں کی موت بھی واقع ہوئی۔

جرمنی کے جریدے نے اپنی حالیہ اشاعت میں سابق مشرقی جرمنی کی وزارت خارجہ کی دستاویزات کو عام کیا ہے، جن کے مطابق، جرمنی، سوئٹزرلینڈ اور امریکا کیے بیش تر دوا ساز اداروں نے اس دوا کے عوض بھاری رقوم بھی ادا کیں۔ واضح رہے کہ 1989ء میں سوویت یونین کے زوال کے بعد مشرقی اور مغربی جرمنی متحد ہو گئے اور جرمنی کو تقسیم کرنے والی تاریخی دیوار برلن مسمار کر دی گئی تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں