ڈالر کی اُڑان اور معاشی حقائق

معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق بظاہر لگ رہا ہے حکومت کی جانب سے ڈالر میں اضافے کو قابو میں لا رہی ہے۔


Editorial December 02, 2018
معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق بظاہر لگ رہا ہے حکومت کی جانب سے ڈالر میں اضافے کو قابو میں لا رہی ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

اسلام آباد: انٹربینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر134سے 8 روپے اضافے کے بعد تاریخ کی بلند ترین سطح 142 کو چھو کر139 روپے پر آگیا۔ زرمبادلہ کے ڈیلرز کے مطابق یہ موجودہ حکومت کے لیے ڈالر کی اڑان کا دوسرا واقعہ ہے جس نے عوام، کاروباری طبقوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے، بتایا جاتا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کے بعد غیرملکی قرضوں کے حجم میں 760 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔

ماہرین کے مطابق قرضے کے اجرا کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط میں روپے کی قدر میں مزید کمی سرفہرست ہے اور شرح سود میں 100 پوائنٹس اضافہ کے امکانات بھی ہیں۔ اندیشہ ہے کہ ڈالر کی بڑھتی قدر سے مہنگائی کا سیلاب آئے گا اور روزمرہ استعمال کی ضروری درآمدی اشیا، پٹرول سمیت ہر شے کی قیمت اور عوام کی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی، جب کہ مقامی صنعتوں میں استعمال درآمدی خام مال کی قیمت بڑھنے سے پیداواری لاگت میں نمایاں اضافہ ہو جائے گا۔

یہ حقیقت میں ایک کولیٹرل ڈیمیج ہے جس پر اقتصادی ماہرین اور حکومتی معاشی ٹیم کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے، بہر حال اسٹیٹ بینک کی بر وقت مداخلت سے امریکی ڈالر 142 سے 139 روپے کی سطح پر آگیا، اسٹیٹ بینک نے کمرشل بینکوں سے رابطے کر کے صرف حقیقی خریداروں کو ڈالر فروخت کرنے کے احکامات جاری کیے موجودہ حکومت کی مدت کے تین ماہ کے دوران اب تک ڈالر کی قدر میں 18 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔

معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق بظاہر لگ رہا ہے حکومت کی جانب سے ڈالر میں اضافے کو قابو میں لا رہی ہے اور حکومت آئی ایم ایف پروگرام کی طرف جا رہی ہے، ایک معاشی تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ آیندہ چند ہفتوں میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 150 روپے تک گر سکتی ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملک میں بے یقینی کی کیفیت ہے اور تجارتی خسارے کی وجہ سے حکومت کو ہر روز 6 ارب روپے قرضوں کی مد میں ادا کرنے پڑتے ہیں، حکومت کو فوری امدادی پیکیج کی ضرورت ہے۔

اصل میں بنیادی مسئلہ وزیراعظم کی اقتصادی ٹیم کی مہارت و اہلیت اور ملکی معیشت کی نبض شناسی کے فقدان کی بھی ہے، حکومت سے کسی نے یہ فرمائش بھی نہیں کی کہ اس کی معاشی ٹیم میں ایڈم اسمتھ، جان مینارڈ کینز، ڈاکٹر محبوب الحق ، امرتا سین، فرانسس فوکویاما یا جیفری سیچز جیسے نامور ماہرین اقتصادیات شامل ہوتے تب ہی ملکی معاشی حالت کی کایا پلٹ ہوسکتی تھی مگر حکومت کے اقتصادی مشیروں سمیت وزیر خزانہ اسد عمر سے عوام کو بڑی توقعات ہیں ، انہیں معیشت کے استحکام کے لیے ہنگامی اقدامات کا بہترین نسخہ بروئے کار لانا چاہیے، مگر افسوس ہے کہ تجارتی خسارہ اور قرض و سود کی ادائیگیوں کے باعث ہر ہفتے زرمبادلہ کے ذخائر میں اوسط 200 ملین ڈالر کی کمی ہو رہی ہے۔

کراچی سے بزنس رپورٹر کے مطابق ڈالر مہنگا ہونے سے پاکستان اسٹاک مارکیٹ بیٹھ گئی، جمعہ کو بھی اتار چڑھاؤ کے بعد محدود پیمانے پر مندی چھائی رہی اور کے ایس ای 100انڈیکس 40600 اور 40500 کی نفسیاتی حدوں سے گرتے ہوئے 142.80 پوائنٹس کمی سے40496.03 پوائنٹس کی سطح پر آ گیا۔ ڈالر مہنگا ہونے اور روپے کی قدر گرنے سے سونے کی قیمت میں فی تولہ ایک ہزار روپے تاریخ کا بلند ترین اضافہ ہوا ہے اور فی تولہ قیمت ساڑھے 64 ہزار ہو گئی،10 گرام سونا 857 روپے اضافے سے 55 ہزار 298 کا ہو گیا۔

عالمی مارکیٹ میں سونے کی قدر 3 ڈالر کم ہو کر ایک ہزار 122 ڈالر فی اونس ہوگئی۔ رواں مالی سال 2018-19 کے پہلے پانچ ماہ (جولائی تا نومبر) دوران فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا عبوری ریونیو شارٹ فال بڑھ کر99 ارب روپے ہو گیا ہے جب کہ صرف گزشتہ ماہ (نومبر) کے دوران 35 ارب روپے سے زائد کا ریونیو شارٹ فال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

بلاشبہ وزیر اعظم عمران خان نے صورتحال سے کسی گھبراہٹ کا شکار نظر نہیں آتے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں، یہ وقتی ری ایڈجسٹمنٹ ہوتی ہے، سرمایہ کاری اور قیمتی زرمبادلہ آنے سے معاشی صورتحال بہتر ہو گی۔ ادھر مسلم لیگ (ن) نے حکومت کی 100روزہ کارکردگی پر حقائق نامہ جاری کر دیا۔

ن لیگ نے واضح کیا ہے کہ حکومت نے جو وعدے کیے تھے اس میں سے ایک بھی پورا نہیں ہوا، 3 ماہ میں مہنگائی میں تاریخی اضافہ ہوا، روپے کی قدر میں سب سے زیادہ کمی ہوئی، جی ڈی پی گروتھ ریٹ میں کمی آئی ہے، ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوئے ہیں۔

ماہرین کے مطابق قرضوں میں 760 ارب اضافہ ہوا ہے جب کہ معیشت کو فوری امدادی پیکیج چاہیے۔ دریں اثنا حکومتی حلقوں میں امید افزا سوچ بدستور نمو پذیر ہے، وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق اکنامک ڈپلومیسی خارجہ پالیسی کی اہم ترجیحات میں شامل ہے، ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کا رجحان بڑھ رہا ہے جو ہماری حکومت کی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار ہے، لیکن ترجمان عوامی نیشنل پارٹی زاہدخان نے دلچسپ تبصرہ کیا کہ اب عمران خان بھینس کے کٹے ، انڈے مرغیاں بیچ کر زرمبادلہ کمائیں گے۔ ملک کے وزیر اعظم انڈے اور گوشت بیچ کر زرمبادلہ کمانے کا سوچ رہے ہیں۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کی 100 دن کی کارکردگی زیرو ہے، گاڑیاں فروخت کرنے سے تبدیلی نہیں آتی، اندرون سندھ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے عوام پر مہنگائی کے بم گرائے ہیں ہم حکومت کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہیں تو وہ برا منا لیتے ہیں۔

اس اقتصادی اور مالیاتی گمبھیرتا میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے آیندہ 2 ماہ کے لیے شرح سود میں ڈیڑھ فیصد اضافہ کا اعلان کر دیا جو گزشتہ5 سال کی بلند ترین سطح ہے، مرکزی بینک نے دوماہ کے لیے شرح سود 10 فیصد مقرر کی گئی۔ مالیاتی پالیسی میں کہا گیا کہ مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جسے روکنے کی ضرورت ہے۔ پالیسی کے مطابق روپے کی قدر میں کمی طلب اور رسد کو ظاہر کر رہی ہے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہو رہا ہے، تاہم معیشت میں استحکام کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔

مرکزی بینک کی جاری کردہ مالیاتی پالیسی کے مطابق خاص طور پر جاری کھاتے کے خسارے میں بہتری کے کچھ ابتدائی آثار دکھائی دینے لگے ہیں۔ تاہم بڑھتی ہوئی مہنگائی، بلند مالیاتی خسارے اور زرِ مبادلہ کے کم ذخائر کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو درپیش قلیل مدت دشواریاں برقرار رہیں، اس تشویش کی عکاسی اعتمادِ صارف اور کاروبار کے حالیہ سرویز کے نتائج سے بھی ہوتی ہے۔

مالی سال 19ء کے پہلے چار ماہ کے دوران اوسط مہنگائی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت (CPI) بڑھ کر 5.9 فیصد ہو گئی جب کہ مالی سال 18ء کی اسی مدت میں 3.5 فیصد تھی۔ افراط زر میں یہ رجحان اور بھی نمایاں تھا جس سے معیشت میں مہنگائی کے بڑھتے ہوئے دباؤکا پتہ چلتا ہے، بڑے پیمانے پر اشیا سازی (lam) کے حالیہ اعداد وشمار کو دیکھا جائے تو توقع ہے کہ مالی سال 2019 ء کے دوران معاشی سرگرمیوں میں نمایاں اعتدال آئے گا جو معاشی استحکام کی راہ پر چلنے کی قلیل مدت لاگت کی عکاس ہے۔

ادھراسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کے اعلان پر بھی تجارتی اور کاروباری حلقے محتاط رہنے پر مجبور ہوگئے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ اس الجھی ہوئی صورتحال میں کاروبار اور سرمایہ کاری کیسے ممکن ہے، حکومت پہلے سے دست تہہ سنگ ہے، حکومت کو قرض دینے کے لیے عالمی کنسورشیم نے قرض دینے کا عندیہ بھی دیدیا ہے، حکومت کو اربوں کے قرضے بینکوں سے لینے ہونگے، آئی ایم ایف سے رجوع کی مجبوری بھی ظاہر کی جا رہی ہے تو بادی النظر میں اس گراں شرح سود پر بینکوں کے قرضوں پر معاشی استحکام کا معمہ کیسے حل ہو گا۔ حکومت کو اس ملین ڈالر سوال کا جواب دینا ہوگا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں