فطرت کا خزانہ

قدیم زمانے سے فطرت کو مختلف انداز سے بیان کیا جاتا رہا ہے۔ ہر دور کے شاعروں و فلسفیوں نے فطرت۔۔۔


Shabnam Gul July 01, 2013
[email protected]

قدیم زمانے سے فطرت کو مختلف انداز سے بیان کیا جاتا رہا ہے۔ ہر دور کے شاعروں و فلسفیوں نے فطرت سے تحرک حاصل کرکے اسے اپنی تحریروں کا موضوع بنایا۔ Ivy بیل کو ڈائنوسس اور باخوس دیوتا سے منسوب کیا جاتا ہے۔جسے شاعری، تحریک اور وجد کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ رومن فلورا کو پھولوں کی دیوی سمجھتے ہیں، جو انسانوں میں خوشحالی کو بانٹتی ہے۔ کنول کا پھول مشرق میں مقدس کہلاتا ہے۔ یہ پھول عورت، تخلیق اور دائمیت کی عکاسی کرتا ہے۔ Larual کے درخت کو شاعری و اپالو دیوتا کا سمبل سمجھا جاتا ہے۔ قدیم دور میں فاتح اور کھلاڑیوں کو اس درخت کے پتے اعزاز کے طور پر پہنائے جاتے تھے۔ مقدس کتابوں میں بھی درختوں، پودوں و پھولوں کا ذکر ملتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ زرخیز علاقے سکون اور وجدانی کیفیتوں کا باعث بنتے ہیں۔ Master Lam Kam Chuen اپنی کتاب The Ways of Healing میں قوت کے اظہار کی پانچ قسمیں بتاتا ہے۔ پانی، آگ، زمین، دھاتیں اور درخت جو انسان کی بقا کا جواز بنے ہوئے ہیں۔ کنگ کہتا ہے کہ ''درخت پھیلاؤ کی قوت ہیں، ان کی شاخیں کھلی اور وسیع ہیں، ان کی قوت میں بہاؤ موجود ہے۔ یہ قوت مضبوط ہے، یہ ہمیں ماحول سے ہم آہنگ ہونا سکھاتی ہے۔ درخت کی قوت چودہویں کے چاند کی مانند بڑھتی اور چھا جاتی ہے، اسی دوران چیزیں ایک دوسرے میں ضم ہوجاتی ہیں اور پھلتی و پھولتی ہیں جو فطرت کو جنم دیتی ہے وہ بہار کی قوت''۔ یہی وجہ ہے کہ ایشیاء کے اکثر ملکوں میں لوگ فطرت کی طرف زیادہ مائل ہیں۔

پودوں کے امتزاج سے تیل بنائے جاتے ہیں، جن میں Essential Oil کا نام دیا گیا ہے جو ایروما تھراپی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ان پھولوں وجڑی بوٹیوں کے عرق کو سونگھنے سے صحت کے حوالے سے مطلوبہ نتائج حاصل کیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر ایڈوڈ بیچ نے دریافت کیا کہ ہماری شخصیت و جذباتی زندگی کے عدم توازن کا نتیجہ ہے۔ پھولوں کے عرق میں ذہنی تناؤ کو کم کرنے کے اجزاء موجود ہیں۔ لہٰذا پودوں کو دوسرے کیمیائی اجزا کے میلاپ سے مزید بااثر بنایا جانے لگا۔ ان پھولوں کے عرق کو سونگھنے، نہانے کے پانی میں شامل کرکے اور چائے میں استعمال کیا جاتا ہے۔جیسے Lavender کی خوشبو سونگھنے سے سر کا درد اور تھکن رفع ہوجاتی ہے اور بہت اچھی نیند آتی ہے۔ یوکلپٹس کا درخت جا بجا نظر آتا ہے۔ اس کے بھی بے شمار فوائد ہیں۔ یہ اکثر GELS میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جو درد کے لیے فائدہ مند ہوتی ہیں۔اس کا عرق ذہن کو چیت وفعال رکھتا ہے۔

پھولوں سے بنے تیل و عرق کا استعمال ایشیا و یورپ میں آج بھی اپنے عروج پر ہے۔ ترقی یافتہ قومیں کام کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے خود کو ذہنی و جسمانی طور پر چاق و چوبند رکھنے کے لیے فطرت کے خزانے سے مستفید ہونا جانتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں پر جڑی بوٹیوں سے بنی چائے بہت مقبول ہے۔ ہربل چائے کو ذہنی و جسمانی کارکردگی کو بہتر بنانے میں کے لیے اہم سمجھا جاتا ہے۔یہ چائے پتوں، بیج و پھلوں سے تیار کی جاتی ہے۔ پھولوں اور جڑی بوٹیوںسے بنی چائے 5ہزار سال پہلے چائنا کے حکمران شین ننگ نے دریافت کی تھی۔ برطانیہ میں یہ چائے سترہویں صدی میں استعمال کی جانے لگی،جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے بیوپاری چائنا سے آتے دوست و احباب کے لیے ہر بل چائے کے تحفے ساتھ لانے لگے۔نیویارک کے تھامس سیلون نے 1904 میں پہلا ٹی بیگ ایجاد کیا۔ اور دنیا میں چائے پینے کی ایک نئی روایت قائم کی۔

ہربل چائے کولیسٹرول کو کم کرنے، قوت مدافعت بڑھانے، وزن کم کرنے کے لیے استعمال کی جانے لگی۔ جاپان کے ڈاکٹرز کے مطابق سبز چائے کے 5کپ روزانہ ہر قسم کے کینسر کا دفاع کرتے ہیں انڈیا میں واقع چائے کے باغات دنیا کو تیس فیصد چائے مہیا کرتے ہیں 1904 میں انگریز بیوپاری رچرڈ نے St Louis world fair میں ٹھنڈی سبز چائے کو متعارف کروایا۔ چائے کی پتی کے آئس کیوبز سبز چائے میں ڈال کر دنیا کو یخ بستہ سبز چائے کی طرف مائل کیا۔ برطانیہ میں سبز چائے کا استعمال زیادہ ہونے لگا۔ کہا جاتا ہے کہ برطانیہ میں 175 ملین کپ روزانہ چائے پی جاتی ہے اور چائے کی مانگ میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ ہمارے ملک میں چائے میں دودھ اور چینی کا استعمال زیادہ کیا جاتا ہے۔ یوں چائے کے ایک کپ میں ہر بار ہم 40 کیلوریز حاصل کرتے ہیں۔

جدید دنیا میں یہ پھول و جڑی بوٹیاں روز مرہ کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ ایک اٹھارہ سالہ لڑکی کو Deep Vein Thrombosis جیسی پیچیدہ بیماری تشخیص کی گئی۔ اس کی دو مہینے کی بیٹی ہے۔ یہ عارضہ زیادہ تر چھوٹی عمر کی ماؤں کو لاحق ہوتا ہے۔ اس کی ٹانگ میں جما ہوا خون کا لوتھڑا دریافت ہونے کے بعد اسے چھ مہینے کا بیڈ ریسٹ بتایا گیا۔اسے سخت احتیاط کی ہدایت کی گئی کیونکہ وہ صورت حال جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ اس کی خالہ جو خود بھی ڈاکٹر ہے، ایک دن کہنے لگیں کہ آپ فطرت کے خزانے سے کوئی حل نکالیے۔ لہٰذا دو وقت ادرک کی چائے کے ساتھ Digraphic Breathing (گہری سانسوں کی مشقیں) اس کے لیے تجویز ہونے کے ساتھ مختلف سبزیوں کے سوپ میں بتائے گئے۔ یقین کیجیے فقط دس دن میں وہ لڑکی اٹھ کر بیٹھی اور چلنے لگی۔ ایک مہینے کے بعد جب اس نے الٹرا ساؤنڈ کروایا تو اس مسئلے کا دور دور تک نام و نشان باقی نہیں تھا۔

چھ مہینے کی طوالت کے بجائے اس ہربل علاج اور سانسوں کی مشقوں سے وہ فقط ایک مہینے میں زندگی کے معمول کی طرف لوٹ آئی۔ ادرک جراثیم کش جڑی بوٹی ہے۔ اس کے علاوہ ہر قسم کی سوجن کا موثر علاج بھی ہے۔ اس میں بہت موثر Blood Thinner خون پتلا کرنے والے اجزا شامل ہیں۔ ہلدی، ادرک و لہسن دل کی بیماری کی احتیاطی تدابیر کے طور پر ایشیا و یورپ میں دوا کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ جہاں تک تنفس کی مشقیں ہیں تو وہ موجودہ دور میں ذہنی دباؤ کا شکار ہر شخص کو کرنی چاہئیں۔ جو دل کی بیماری سے متاثرہ لوگوں کو تجویز کرنے میں احتیاط برتی جاتی ہے۔ لیکن دل کے متاثرین وہ لوگ جو چل پھر نہیں سکتے، انھیں معتدل تنفس کی مشقیں ضرور کرتے رہنا چاہیے۔

یہ حقیقت ہے کہ ان پھلوں، سبزیوں و جڑی بوٹیوں کا استعمال فقط غذا کے طور پر نہیں ہوتا بلکہ ان میں موجود صحت بخش اجزا بہت سے امراض سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ یہاں صورتحال یہ ہے کہ اکثر تعلیم یافتہ افراد بھی غذائی جزئیات کی اہمیت و افادیت سے لاعلم رہتے ہیں۔ اکثر لوگ اس بات کا تعین نہیں کرپاتے کہ انھیں کون سی غذا کھانی چاہیے اور کس قسم کے کھانوں سے احتیاط برتا جائے۔ ہم دن بدن غیر فطری زندگی اور غذا کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے گھر بھی دیکھے ہیں جہاں سبزیاں و پھل فرج میں رکھے خراب ہوجاتے ہیں اور پھنکوا دی جاتی ہیں۔ کئی بچے پھل کی جگہ جنک و فاسٹ فوڈ کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہماری نئی نسل فاسٹ فوڈ کے اردگرد چکر لگاتی ہوئی نظر آتی ہے۔ وہ کھانے جو آج ان کی اولین ترجیح بن چکے ہیں آنیوالے کل میں انھیں اچھی صحت، کارکردگی و چستی سے محروم کردینگے۔ اس سے پہلے کہ وہ دن آئے آپ فطرت کے خزانے سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے آنے والے کل کے لیے خود کو ذہنی، جسمانی و روحانی طور پر مستحکم کرلیجئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔