نااہلیتکرپشن سے بڑا جرم ہے

جو عظیم جدوجہدمغرب نے کی تھی،وہ تودورکی بات۔ہم تواس کا عشیرعشیرکرنے کوبھی تیارنہیں ہیں


راؤ منظر حیات December 03, 2018
[email protected]

برصغیرمیں گزشتہ ڈھائی ہزارسال میں کرپشن سے پاک،ایک پَل بھی نہیں آیا۔تاریخ اوردلیل کے تناظرمیں پرکھیںتومسلمان اورہندوبادشاہوں کے مزاج میں کوئی فرق نہیں تھا۔مذہبی تفریق صرف رعایاکے لیے اہم تھی۔حکمران پر کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں تھی۔شائدآپکومیری بات غیرمناسب لگے۔مالیاتی کرپشن کے خلاف فلسفہ، مغرب میں ایک عظیم جدوجہدکے بعدسامنے آیا۔ حکمرانوں کوجوابدہ کرنے کے لیے رعایانے بے مثال قربانیاں دیں۔حکومت کو کسی بھی عقیدہ یا مذہبی عقید ے سے جداکرکے وہ معاشرے قائم کیے گئے،جہاں قانون کی حکمرانی، ایمانداری اوربے لاگ احتساب ہو۔جوہری طور پر مغربی ممالک کی بے مثال ترقی کی فکری بنیادبھی یہی جدوجہدتھی۔آج برطانیہ، امریکا، فرانس اورجاپان ترقی کے وہ خواب ہیں جنکاکم ازکم ہم لوگ تصورنہیں کرسکتے۔ عرض ہے کہ برصغیراس طرح کے فکری اور معاشی انقلاب سے نہیں گزرا،جس سے یورپ بڑی مشکل سے گزرا تھا۔ اسی وجہ سے ہماری سوچ مہذب دنیاسے پیچھے رہ چکی ہے۔

کرپشن کے متعلق بات کرنااَزحدآسان ہے۔ملک میں ہرانسان کاایمان کی حدتک عمل ہے کہ دوسرے کی کرپشن کوسامنے ضرورلایاجائے۔مگرکوئی بھی اپنی کمزوریوں کو احتساب کے لیے پیش نہیں کرتا۔یہ دوعملی رویہ ہمارے ہرطرف موجود ہے۔چلیے،مان لیجیے کہ کرپشن بہت مہیب جرم ہے۔ مگر ذرا دیکھیے کہ اس کے متعلق برصغیرکے قدیم ترین فلسفی،چانکیہ نے ہزاروں برس پہلے کیاکہاتھا۔"خطے میں رعایاکی حالت بہت خراب ہے۔سرکاری عمال پیسہ لیے بغیرکسی کاکوئی کام نہیں کرتے۔اس درجہ مالی کرپشن ہے کہ عام لوگ بدحال ہوچکے ہیں۔لگتاہے کہ سرکاری ملازمین کے لیے کرپشن ایسی ہی اہم ہے جیسے مچھلی کے لیے پانی"۔ہزاروں برس پہلے یہ اس فلسفی نے اپنی کتاب"آرتھ شاشتر"میں لکھاتھا۔حیرت اس نکتے پر بھی ہے کہ حکمرانوں کے لیے کسی قسم کی بھی پابندی نہیں لگائی گئی۔وہ ملک کی ہرچیزکامالک تھا۔جس میں دولت،زمین، خواتین، زرعی اجناس سب کچھ شامل تھا۔

اس قیامت خیزمرکزیت کو صرف اورصرف مغربی فلسفیوں نے چیلنج کیااورپھراس مفروضے کوپاش پاش کردیا۔برصغیرکسی بھی وجہ سے جدیدفکراپنانہیں سکا۔یہ ہماری بدقسمتی کاتسلسل ہے۔ماضی کے حکمران دنیا کے امیرترین لوگ تھے۔ویسے ہزاروں برس کی اس قبیح روایت کا تسلسل ہمارے ملک میں قائم ودائم ہے۔چانکیہ جس کرپشن کاذکرکررہاتھا۔اگرآج وہ زندہ ہوتا تو شائد ہمارے حالات دیکھ کرباولاہوجاتا۔کیونکہ مالیاتی اورسماجی کرپشن بڑھی ہے۔کم ہرگزہرگزنہیں ہوئی۔ رعایاجسے اب خوش کرنے کے لیے عوام کانام دیا گیا، تقریباًماضی جیسی بدحالی میں ہی سانس لے رہی ہے۔ اس کاکیامطلب ہوا۔دلیل کی بنیادپردیکھیں توصاف نظرآجاتاہے کہ ہمارے خطے میں جس میں پاکستان شامل ہے، مالیاتی کرپشن کسی صورت میں بھی ختم نہیں ہوگی۔ جتنی حکومتی سختی کی جائیگی،یہ کسی نئی صورت میں بڑے آرام سے پھیلتی پھولتی رہیگی۔اس کی سمت بھی تبدیل ہوجائیگی۔ مگر یہ قائم رہے گی۔اس کی واحدوجہ وہ عظیم سماجی اور فکری تجربہ ہے جس سے مغرب توگزراہے مگرہم لوگ نہیں گزر پائے۔ آپکا دل رکھنے کے لیے بیکارسی بات لکھ دیتا ہوں کہ شائدکرپشن کچھ کم ہوجائے۔

آج کاموضوع بالکل مختلف ہے۔دیکھناچاہیے کہ ہمیں بربادکرپشن نے کیاہے یانااہلی نے۔دونوں میں سے کس نے ہمیں ترقی کرنے سے روک دیا ہے۔ چلیے،کرپشن کوانیس بیس کم کردیجیے۔مگرنااہلی کا کیا مداوا کرینگے۔ اس پر توکوئی بات ہی نہیں کرتا۔ہمارے ہاں،صبح سے رات گئے تک،میڈیامیں ہڑبونگ مچی ہوتی ہے۔ ہربات ہوتی ہے۔مگرآج کسی نے بھی حکومتی،اپوزیشن یاکسی بزرجمہرکی انفرادی اورقومی مزاج میں اہلیت کے نہ ہونے کاذکرنہیں کیا۔بات تک نہیں کی۔ذکرنہ ہونے کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں اہلیت کی کوئی تعریف ہی موجودنہیں ہے۔چنانچہ اس کی نفی میں کیاپیش کیاجاسکتاہے۔طالبعلم کی دانست میں ہمارابنیادی مسئلہ حکمرانوں اوررعایاکی اکثریت میںاہلیت کی صفت کانہ ہوناہے۔کامل توصرف خداکی ذات ہے مگرقیامت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میںاہلیت کے نہ ہونے کے متعلق کسی کوکوئی فکرنہیں ہے۔کوئی اس اہم جزوپربات کرنے کے لیے تیارنہیں۔پورانظام ہی اہلیت کے متضادقائم ہے۔یہاں کسی بھی طرح سے اوسط درجے کی سوچ سے بالاترہوناجرم ہے۔ایک ایساجرم جسکی اَن دیکھی سزاموت سے بھی بدترہے۔مثال دیکرواضح کرناچاہتا ہوں۔ قائداعظم ایک انتہائی اہلیت والے انسان تھے۔اس کی بڑی وجہ ان کی مغربی تربیت تھی جس نے انھیں قانون کی حکمرانی، قومیت،بالادستی اورانصاف کاسبق سکھایا۔جب لنکزان میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے گئے توان کے آبائی وطن میں مندرجہ بالاصفات بالکل ہی موجودنہیں تھیں۔قائداعظمکے افکار، دراصل مغربی،سیاسی اورسماجی تہذیب کے ان اُصولوں سے کشید ہوئے ۔

جس نے انھیں ایک عظیم انسان بننے میں مدد دی۔ہاں،آہستہ آہستہ ان پرمذہبی اقدارنے بھی اثر کرنا شروع کردیاجوکہ ایک فطری عمل ہے۔تجزیہ فرمایے۔جناح صاحب کی پوری سیاسی اورسماجی ٹیم میں کس طرح کے لوگ شامل تھے۔اکثرمغربی اعلیٰ تعلیم یافتہ وہ لوگ تھے جنھیں اندازہ تھاکہ پوری دنیانئی سمت میں جارہی ہے۔انہی لوگوں نے پاکستان بنایا۔مشکل بات یہ ہے کہ صرف چندبرسوں میں متعددوجوہات کی بدولت ہمارے عظیم ملک کی فکری بنیاد کوقدامت پسندی سے جوڑدیاگیا۔افسوس یہ بھی ہے کہ ہمیں حددرجہ فرسودہ روایات کاعادی بنادیاگیا۔آہستہ آہستہ ہمارے ذہنوں میں یہ اَمربٹھادیاگیاکہ جدت پسندی ایک ادنیٰ چیز ہے۔مذہبی سوچ اورسیکولرسوچ کے درمیان اس درجہ تفریق کردی گئی کہ ہماری زندگیاں ہی منفی طورپرتبدیل ہوگئیں۔ یہیں سے نااہلی کی اس قیامت نے جنم لیاجوآج ہمارے پورے نظام کی بنیادہے۔آج ہمارا ملک حددرجہ نااہلیت کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ دورمت جایے۔ہم تولاہور کا کوڑا تک خودنہیں اُٹھاسکتے۔ایسی عظیم سائنسی درسگاہیں نہیں کھول سکے، جودنیاکے لیے قابل توجہ ہوں۔اپنے اداروں کودرست نہیں کرپائے۔ انصاف کے اُصول پرملک کواستوارنہیں کر پائے۔ ہاں،صرف نعرے لگانے میں کامیاب ہوئے۔ ہمارا پورا معاشرہ، نااہلی کوقبول کرچکاہے۔ایسے ہی جیسے سزائے موت کاقیدی موت کوقبول کرلیتاہے۔

ستربرس کے طویل سفرمیں اگرکرپشن کی داستانیں پھیلی ہوئی ہیں تواہلیت کے نہ ہونے کے طلسم ہوش رباقصے بھی موجودہیں۔مگران کاذکرکوئی نہیں کرتا۔کرپشن پرتوہم دوسرے کی برائی سمجھ کرتنقیدکرتے ہیں۔مگردوسری علت کا ذکرنہ کرنا،ہمارے ناکام ہونے کی بھرپوردلیل ہے۔کسی بھی طبقے کے متعلق بات کرلیجیے۔حالات بالکل یکساں ہیں۔ سیاستدانوں کاذکرپہلے کریں۔ کیونکہ یہ بدقسمتی سے ہمارے مقدرکے مالک بن چکے ہیں۔پچھلے بیس پچیس سال کے صدور،وزراء اعظم،وزراء اوروزراء اعلیٰ کی جانب غورسے دیکھیے۔معلوم ہوجائیگاکہ کیاگزارش کررہاہوں۔نام نہیں لکھناچاہتا۔مگرکیاواقعی ہم اتنے ادنیٰ حکمرانوں کے حقدار ہیں۔طالبعلم اسے قسمت کالکھانہیں سمجھتا۔اس کی بہت بڑی وجہ ہماری قومی کانااہلی اورمقدرپرشاکرہونے کی وہ دلیل ہے جسے تقلیدنے ہماری روح کاحصہ بنادیاہے۔ہم کسی طرح کے بڑے امتحان میں سے گزرناہی نہیں چاہتے۔

جو عظیم جدوجہدمغرب نے کی تھی،وہ تودورکی بات۔ہم تواس کا عشیرعشیرکرنے کوبھی تیارنہیں ہیں۔سیاست کو چھوڑ دیجیے۔ اہل علم کی بات کریں۔سوال ہے۔سعادت حسن منٹو جیسا بلندادیب دوبارہ کیوں نہیں پیداہوا۔چلیے،اس سطح کانہیں تو اس کادس فیصدتک بھی کچھ سامنے آجاتا۔ویسے منٹوکے ساتھ جوکچھ ہمارے منافق معاشرے نے کیا،وہ بھی ظلم، جبر اور ادنیٰ پن کی ایک انمٹ دلیل ہے۔منٹوغیرمعمولی اہلیت کا حامل تھا۔لازم ہے کہ لیاقت اورجدیدت کے امتزاج کو روایت پسندی کے پنجرے میں جکڑاہی نہیں جا سکتا۔ منٹو کو ہرقسم کے ظلم اورتکلیف کاسامناکرناپڑا۔تحقیق اورسائنس کے مشکل میدان کی طرف آئیے۔ڈاکٹرعبدالسلام کی اہلیت کادوسراسائنسدان ہم کیوں پیدانہیں کرپائے۔ معاشرے نے غیرمسلم ہونے کی وجہ سے ان کی عظیم تحقیق کوبالکل نہیں سراہا۔اس سے زیادہ ادنیٰ پن مزید کیا ہوگا۔سائنسدان اور سائنس کاتوکوئی مذہب نہیں ہوتا۔کیاکسی نے بجلی،کار، ائیرکنڈیشنر،سائیکل اور اس طرح کی ہزاروں جدید اشیاء کو صرف اس وجہ سے رَدکیاہے کہ یہ تمام غیرمسلموں نے تخلیق کی ہیں۔ مگر ہم نے اپنے ملک سے تعلق رکھنے والے بڑے سائنسدان کوہرطرح سے ذلیل کرنے کی کوشش کی۔ چلیے، اس سوال کورہنے دیجیے۔ہماراسماج،اسی اہلیت کا دوسرا سائنسدان دوبارہ کیوں پیدانہیں کرسکا۔ اسلیے کہ پورے نظام میں اہل انسان کوآگے آنے کی اجازت ہی نہیں ہے۔

غورفرمائیے،کہ ہم مذہبی حوالے سے بھی ہراس عالم کے خلاف ہیں جواسلام میں جدیدیت کاقائل ہے۔دلیل پربات کرنے اورسمجھانے کی کوشش کرتاہے۔جاویدغامدی کو پوراعالم اسلام ایک مستندعالم تسلیم کرتاہے۔مگرہمارے علماء کی اکثریت غامدی صاحب کے افکارکی نفی کرتی ہے۔ مشکل بات یہ ہے کہ غامدی کی سوچ اوربیان کے سامنے کوئی نیابیانیہ سامنے نہیں لاتے۔دراصل پورامعاشرہ اوسط درجے کابنادیاگیاہے۔ہمارے شعوراورسوچ کومقیدکردیا گیا ہے۔ جدید رجحانات پربات کرنے کو براسمجھا جاتا ہے۔ کرپشن تو اس ملک میں ہزاروں برس سے ہے اورکسی نہ کسی صورت میں رہے گی۔مگرنااہلی اتناشدیدمسئلہ ہے جس نے ہماری ملکی بنیادہی پانی پراستوارکرتی دی ہے۔ نااہلیت،کرپشن سے بہت بڑاجرم ہے۔مگراس پرکوئی بات ہی نہیں کرتا۔ شائد کریگابھی نہیں!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں