گورنر ہاؤسز کو آرٹ گیلری نہیں شیلٹر ہوم بنائیں

ہمیں اندازہ ہے کہ اس وقت تحریک انصاف اور اس کے قائد عمران خان شدید دباؤ میں ہیں۔


مزمل سہروردی December 04, 2018
[email protected]

ISLAMABAD: گورنر ہاؤس لاہور کی دیوراریں گرائی جا رہی ہیں۔ وعدہ تو گورنر ہا ؤس پر بلڈوزر پھیرنے کا تھا۔ لیکن ابھی صرف دیوراریں گرائی جا رہی ہیں۔ اعلان یہ بھی ہے کہ گورنر ہاؤس میں آرٹ گیلر ی بنائی جائے گی۔مجھے امید ہے کہ پنجاب کے بعد باقی چار صوبوں کے گورنر ہاؤس کی دیواریں بھی گرا دی جائیں گی۔

اس کے بعد وزیر اعظم سیکریٹریٹ اور ایوان صدر کی دیواریں بھی گرا دی جائیں گی۔ اور سب جگہ اتفاق کے لوہے سے بنے جنگلے لگا دئے جائیں گے۔ شائد عمران خان نے بند پڑی اتفاق فیکٹری کو چلانے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ تا کہ شریف فیملی کی کچھ تو اشک شوئی کی جا سکے۔ بہر حال یہ بھی ایک مضحکہ خیز بات ہے۔

بہر حال اس سے پہلے اس پر بات کی جائے یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ اس نئے پاکستان میں کچھ بھی نیا نہیں ہو رہا۔ لوگوں کو بیوقوف بنانے کے پرانے ہتھکنڈے نئی شکل میں چل رہے ہیں۔ مجھے تو تحریک انصاف، ن لیگ اور پی پی پی کی ایک بگڑی ہوئی شکل بنتی نظر آ رہی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ بلا شبہ وہ ایک دبنگ وزیر اعلیٰ تھے جنہوں نے بڑے بڑے کام کیے۔ آج دس سال بعد بھی پنجاب میں ان کے کاموں کی گونج سنائی دیتی ہے۔

چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے دور وزارت اعلیٰ میں ایک نیا وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ تعمیر کیا۔ جس کو آٹھ کلب روڈ کہتے ہیں۔ اس نئے شاندار بلڈنگ کی تعمیر کا مقصد تھا کہ وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ کا تمام اسٹاف ایک ہی چھت تلے بیٹھ کر کام کر سکے۔ اس سے پہلے وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ کا اسٹاف مختلف عمارتوں میں بیٹھ کر کام کرتا تھا۔ اس نئی بلڈنگ میں وزیر اعلیٰ کا بھی بہت شاندار دفتر بنایا گیا۔ سب افسران کے کمرے شاندار تھے۔ میٹنگز روم بھی شاندار تھے۔

چوہدری پرویز الٰہی اپنے دور وزار ت اعلیٰ کے آخری سال اسی بلڈنگ میں بیٹھتے رہے۔ لیکن جب اقتدار کے سورج نے کروٹ لی جیسے اب لی ہے اور ن لیگ کے اقتدار کا سورج طلوع ہوا۔ تو ن لیگ نے اس نئی بلڈنگ کو پیسے کا ضیاع اور شاہ خرچی قرار دے دیا۔ ن لیگ کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ سردار دوست محمد کھوسہ نے اپنی قیادت کی ہدایت پر اس دفتر میں بیٹھنے سے انکار کر دیا جیسے آج میڈیا کو شاندار وزیر اعظم ہاؤس کا دورہ کرایا گیا اور باتھ رومز کی فوٹیج بنوائی گئی ہے تب بھی ایوان وزیر اعلیٰ کا میڈیا کو دورہ کرایا گیا۔

وزیر اعلیٰ کے شاندار دفتر کی فوٹیج بنوائی گئی۔ شاندار کمرے دکھائے گئے۔ عوام کی دولت کے بے دریغ خرچ کی کہانی سنائی گئی۔ ایک انقلابی اعلان کیا گیا کہ آٹھ کلب کی اس شاندار بلڈنگ کو ایک یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا جائے۔ نئی یونیورسٹی کی تیاریاں شروع کر دی گئیں۔ سب ن لیگ کو سمجھا رہے تھے کہ یہ کیا حماقت کر رہے ہیں لیکن انھیں سمجھ نہیں آرہی تھی جیسے آج تحریک انصاف کو سمجھ نہیں آرہی۔ پھر ن لیگ کو بتایا گیا کہ یہ عمارت ایک دفتر کے لیے بنائی گئی ہے۔

یونیورسٹی کے کلاس روم بڑے ہوتے ہیں۔ یونورسٹی کی ضروریات اور وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ کی ضروریات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کسی بھی یونیورسٹی نے اس بلڈنگ کو اپنے کیمپس کے طور پر استعمال کرنے پر رضامندی کا اظہار نہیں کیا۔دس سال شہباز شریف اپنے الفاظ کے قیدی بن کر اس بلڈنگ میں بیٹھنے سے بھاگتے رہے۔ یہ بلڈنگ اپنی جگہ موجود رہی۔ اسٹاف بھی وہاں بیٹھتا رہا۔ صرف وزیر اعلیٰ نہیں بیٹھتے تھے۔ آج جب اقتدار کے سورج نے دوبارہ کروٹ لی ہے۔

وہی آٹھ کلب دوبارہ آباد ہو گیا ہے۔وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اسے پوری آب وتاب سے استعمال کر رہے ہیں۔ اس لیے پنجاب میں جب بھی اقتدار کا سورج کروٹ لیتا ہے۔ ایسی سیاسی بلیم گیم شروع ہو جاتی ہے۔ کل ایوان وزیر اعلیٰ گرانے کی بات کی جا رہی تھی، آج گورنر ہاؤس کی دیواریں گرائی جا رہی ہیں۔کل بھی عوام کو بیوقوف بنایا جا رہا تھا، آج بھی عوام کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔ پنجاب اسمبلی کی نئی بلڈنگ پر بھی ن لیگ نے اسی قسم کی سیاست کی تھی۔ دس سال یہ بلڈنگ مکمل نہیں کی گئی۔ اس کو پیسے کا ضیاع قرار دیا گیا۔ لیکن اقتدا ر کے سورج کے کروٹ لیتے ہی یہ بلڈنگ دوبارہ شروع ہو گئی ہے اور تیزی سے کام جاری ہے۔

سوا ل یہ بھی ہے کہ گورنر ہاؤس کی دیواریں گرا کر جنگلے لگانے سے مجھے کیا مل جائے گا۔ کیا یہ بھی پیسے کا ضیاع نہیں ہے۔ اس وقت جب پاکستان شدید مالی بحران میں ہے۔ یہ نئے جنگلوں کا خرچہ کیوں ضروری تھا۔کیا کوئی پوچھ سکتا ہے کہ گورنر ہاؤس کو آرٹ گیلری اور بوٹینیکل گارڈن میں تبدیل کرنے سے کیا تبدیلی آجائے گی۔ جہاں کھانے کو روٹی نہ ہو۔ روپے کی قدر میں روز کمی ہو رہی ہو، ڈالر اڑان پر ہو، جہاں بجلی مہنگی ہو تی جائے، گیس مہنگی ہوتی جائے، بیروزگاری میں اضافہ ہوتا جائے، فیکٹریاں بند ہوتی جائیں، سرمایہ بھاگ رہا ہو۔

وہاں آرٹ گیلر ی کا کیا جواز ہے۔ آپ سو دن کی اپنی کارکردگی دیکھیں اور آرٹ گیلری کا شوق دیکھیں۔ ملک میں وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ہونا چاہیے لیکن یہ کام مصنوعی کاموں سے ممکن نہیں۔ اس کے لیے انقلابی اقدمات اٹھانا ہوںگے ۔ حوصلہ کرنا ہوگا۔ گاڑیوں اور ہیلی کاپٹر کو چھوڑ کر سائیکل پر چلنا ہوگا۔ عمران خان اور ان کی ٹیم کو سائیکل پر چلنا ہوگا۔ بڑے بڑے محلات سے چھوٹے گھروں میں جانا ہو گا۔ یہ گاڑیوں کے قافلے بند کرنا ہوگا۔ چارٹرڈ جہاز بند کرنا ہوگا۔

جب باقی سب کچھ ویسے ہی چل رہا ہے تو یہ بیچاری گورنر ہاؤس کی دیواریں گرا کر کیوں غریب کے جذبات کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کیوں زخموں پر نمک پاشی کی جا رہی ہے۔ اگر یہ حکومت وی آئی پی کلچر کے خاتمہ میں سنجید ہ ہے تو گورنر ہاؤس کو آرٹ گیلری بنانے کے بجائے شیلٹر ہوم بنائے۔ وہاں یتیم خانہ بنائے۔ یتیم بچے گورنر کے بیڈ روم میں سوئے ہوئے ہیں۔ پھر تو بات سمجھ میں آئے ورنہ اس طرح کے مصنوعی کام نہ کل چل سکے تھے اور نہ ہی آج چل سکیں گے۔

ہمیں اندازہ ہے کہ اس وقت تحریک انصاف اور اس کے قائد عمران خان شدید دباؤ میں ہیں۔ تحریک انصاف نے جو بھی وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں ہو رہے ہیں۔ ہر محاذ پر ناکامی ہی ناکامی ہی ہے۔ پرانے حکمران کھا گئے کا چورن بھی مزید نہیں بیچا جا سکتا۔ اب کام کر دکھانے کا پریشر بڑھتا جا رہا ہے۔ لوگ کارکردگی کا پوچھنے لگ گئے ہیں۔ یوٹرنز پر سوالوں نے پریشان کر دیا ہے۔ جب کوئی جواب نہیں بن پایا تو یو ٹرن کے حق میں دلائل دینے شروع کر دئے گئے ہیں۔ لوگ وعدوں کی تکمیل مانگ رہے ہیں۔ ایسے میں جس نے بھی یہ مشورہ دیا ہے کہ گورنر ہاؤس کی دیواریں گرا دیں، کچھ دباؤ کم ہو جائے گا وہ دوست نہیں دشمن ہے۔ جس کا بھی خیال ہے کہ عوام گورنر ہاؤس کی دیواریں گرانے اور اس کو آرٹ گیلری بنانے پر تالیاں بجانے لگ جائیں گے۔ وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔اب ان کاموں کا وقت گزر گیا ہے۔ پہلے دس دن میں یہ کام کیے جاتے تو کوئی محدود سا فائدہ ہو سکتا تھا۔ لیکن اب پانی سر سے گزر گیا ہے۔

ایک دوست نے پوچھا ہے کہ یہ آرٹ گیلری کیا ہوتی ہے۔ میں نے کہا وہاں مہنگے مہنگے فن پاروں کی نمائش ہوتی ہے۔ لوگ اپنے مہنگے مہنگے فن پارے پیش کرتے ہیں۔ اور فن کے دلدادہ ان کو دیکھتے ہیں۔ا س نے کہا کیا کبھی کسی غریب نے کبھی کوئی فن پارہ خریدا ہے۔ میں نے کہا ان کی قیمت کم از کم لاکھوں میں ہوتی ہے۔ کروڑوں میں بھی ہوتی ہے۔اس نے کہا یہ تو امیروں کے شوق ہیں۔ پہلے بھی تو گورنر ہاؤس آرٹ گیلری ہی ہے۔ فرق کیا ہوا ۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی ؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں