اے میرے اچھے فن کار
بچپن کی بہت کم یادیں ایسی ہوتی ہیں،جنھیں ہم سنبھال کر رکھتے ہیں۔ان یادوں میں عموماً بچپن کے دوست،معصوم شرارتیں...
بچپن کی بہت کم یادیں ایسی ہوتی ہیں،جنھیں ہم سنبھال کر رکھتے ہیں۔ان یادوں میں عموماً بچپن کے دوست،معصوم شرارتیں،رنگین کھلونے،اسکول میں بے فکری کے دن، ٹیلی ویژن پر دیکھے ہوئے کارٹون اوربچوں کے ڈرامے شامل ہوتے ہیں۔میرے حافظے میں بھی، بچپن کا دیکھا ہوا ایک یادگارڈراما نقش ہے،جس کانام ''عینک والاجن''تھا۔
گزشتہ دنوں ''دی ایکسپریس ٹریبیون'' نے اس ڈرامے کے حوالے سے ایک خبر شایع کی،جسے پڑھ کر پتاچلا،اس ڈرامے کو دوبارہ فلمایاجارہا ہے تاکہ موجودہ عہد کے بچے بھی اس شگفتہ وشوخ کردار سے لطف اندوز ہوسکیں۔اس سلسلے میں ڈرامے کے پرانے اداکاروں سے رابطہ بھی کیا جا رہا ہے۔
مگرخوشی کا یہ احساس زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکااورحالیہ دنوں میںسوشل میڈیا پر ایک خبر گردش کرنے لگی کہ عینک والے جن کاکردارنبھانے والے فن کار''شہزاد قیصرعرف نشیلا'' کا انتقال ہوگیا ہے۔یہ ایک افسوس ناک خبر تھی۔چونکہ شہزاد قیصر کی عرفیت نشیلا نہیں تھی،اس لیے مجھے یقین نہیں آرہاتھااورپھر میرا شبہ درست نکلا۔یہ خبر غلط تھی۔دراصل لاہورمیں تھیٹرکے ایک اداکار''نشیلا''کاانتقال ہواتھا اورانھوں نے ''عینک والا جن''میں ایک ثانوی کردار اداکیاتھا،ایک ایسے جن کا،جو ہر بات گاکر کیاکرتاتھا،مگر شہزادقیصرکے حوالے سے یہ غلط خبر یوں پھیلی کہ ایک نجی چینل نے اپنی نیوز ویب سائٹ پہ خبر تواداکارنشیلا کے انتقال کی چلائی، مگر تصویر شہزاد قیصر کی اپ لوڈ کردی۔اس وجہ سے یہ غلط فہمی ہوئی،لیکن سوشل میڈیا میں تصدیق کرنے کے لیے کون اپنی جان جوکھوں میں ڈالے ، لہٰذا یہ غلط خبر ہی کئی روز تک گردش کرتی رہی۔
غلط خبر کانقصان یہ ہوا کہ''عینک والے جن'' میں ''نستور''کا کردارنبھانے والے''شہزاد قیصر''کے مداحوں کواس سے تکلیف پہنچی اورخود شہزاد قیصر کوکتنی تکلیف پہنچی ہوگی۔ایک زمانہ اس اداکار کے فن کا معترف رہاہے۔ایک ایسی ہی غلطی پہلے ہمارا سرکاری ٹی وی معروف شاعراحمد فراز کے حوالے سے کرچکاہے،جس سے ان کے چاہنے والوں کو بے حد صدمہ پہنچاتھا۔قومی سطح پر ایسی غلطیاں ہمیں زیب نہیں دیتیں۔
پی ٹی وی لاہور مرکز سے نشر ہونے والا بچوں کا یہ مقبول ڈراما''عینک والاجن'' اس لحاظ سے انفرادیت رکھتا ہے کہ نوے کی دہائی میںنشر ہونے والے اس ڈرامے کے مصنف اے حمید اورہدایت کارحفیظ طاہر جیسے منجھے ہوئے اوراپنے پیشے سے محبت کرنے والے لوگ تھے۔
''عینک والا جن''کے حوالے سے ایک حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ اس ڈرامے میں پاکستان کی تین معروف گلوکاراؤں نے بحیثیت اداکارہ ایک ساتھ کام کیا،یہ شبنم مجید، فریحہ پرویز اورحمیرا ارشد تھیں۔ان کے علاوہ دیگر فنکاروں میںمنالاہوری،نثاربٹ،اسد بھنڈارا،حسیب پاشا،نصرت آرا،اجلال طاہر،معطربخاری جیسے منجھے ہوئے اداکار بھی شامل تھے۔ ڈرامے میں دوبچوں کاکردار نبھانے والے ننھے فنکار معروف اداکارعاصم بخاری کے نونہال تھے،جنہوں نے اپنی معصوم اداکاری سے ڈرامے کی مقبولیت کو چارچاند لگا دیے۔ سب سے بڑھ کراس ڈرامے کی کاسٹ میںتین اداکاروں کی مجموعی موجودگی بہت ہی متاثر کن تھی۔وہ تین اداکارجمیل فخری، البیلا اور ببوبرال تھے،یہ تینوں فنکار اب ہم میں نہیں ہیںمگر ان کافن انھیں مداحوں کے دل میں زندہ رکھے گا۔
جانے والوں کوکون روک سکتاہے۔اس برس بھی کئی شخصیات ہم سے بچھڑ گئیں،ان میں فلم ،ٹی وی،تھیٹر اور ادب کے کئی معروف نام،جن میں آسیہ،منظور نیازی،مہناز،ریاض الرحمان ساغر،قمر علی عباسی اور حال ہی میں انتقال کرنے والے اداکار نشیلا شامل ہیں۔جدوجہد کے ایک پورے سلسلے کو جمع کیاجائے تو ایک فن کار کی زندگی بنتی ہے۔فن کار بھی ہر کوئی نہیں ہوتا اورنہ ہی اتنی آسانی سے بن سکتا ہے۔
ہمارے ساتھ بحیثیت قوم ایک مجموعی طور پر مسئلہ ہے،ہم فنکار کو ان کا حق صحیح وقت پر نہیں دیتے۔کیا کبھی ایسا ممکن ہوگا، ہم فنکاروں کی خدمات کا اعتراف ان کی زندگی میں ہی کرلیں،تاوقتیکہ کوئی فنکار اورادیب ہم سے بچھڑ نہ جائے۔اس رویے کی ایک تازہ ترین مثال ''سعادت حسن منٹو'' کوبعد ازمرگ دیا گیا قومی اعزاز ہے۔اسی طرح کئی شاعر، ادیب،اداکار اوردیگر شعبوں کے ہنرمند شامل ہیں،جن کو بعد ازمرگ اعزاز دیاگیا۔اس رویے کو کیانام دیاجائے؟
ساٹھ کی دہائی میں پی ٹی وی کے آغاز کے ساتھ ہی پاکستانی ڈرامے کے روشن عہد کی ابتدا ہوئی۔اس وقت سے لے کر اب تک سیکڑوں ڈرامے پیش کیے جاچکے ہیں اور ہزاروں فنکاروں نے ان میں اپنے فن کا مظاہرہ بھی کیا ہو گا۔ پی ٹی وی کی تاریخ کے دس مقبول ڈراموں کی فہرست مرتب کی جائے، تو ان میں خدا کی بستی،تنہائیاں،الف نون، اندھیرا اُجالا، ایلفابرووچارلی،آنگن ٹیڑھا،آنچ ،دھواں،سورج گرہن اور انگاروادی جیسے ڈرامے شامل ہوں گے۔ان ڈراموں میں جن فنکاروں نے کام کیا،ان میں سے کتنے فنکارآج ہمیں یاد ہیں؟ ہم صرف چمکتے ہوئے ستاروں کو پسند کرتے ہیں۔ ظاہری طورپر فن کاروں کو تو خراج تحسین پیش کرتے ہیں،مگر بھلانے میں بھی دیر نہیں لگاتے۔ معروف اداکارہ روحی بانواس کی ایک زندہ مثال ہے۔
ہماری فلمی صنعت پہلے ہی تباہ ہوچکی اورہمارا ڈراما جس کی دھوم پوری دنیا میں ہے،اس کی مقبولیت بھی اپناوجود کھورہی ہے۔اس کی کئی وجوہات ہیں۔میں نے صفِ اول کے کئی ممتاز ڈرامانگاروں،جن میں انورمقصود،اصغرندیم سید،ڈاکٹر انورسجاد،حسینہ معین،فاطمہ ثریابجیا،کمال احمد رضوی اورعمیرہ احمد سمیت دیگر ڈراما نگارشامل ہیں،ان سے ایک صحافی کی حیثیت سے سوال کیاکہ ہمارے ہاں اب ایسے ڈرامے کی حوصلہ افزائی کیوں ہورہی ہے ؟ہمارے ڈراموں میں اب وہ اثر نہیں،جیسا پرانے ڈراموں میں تھا۔جب وہ ٹی وی سے نشر ہوتے تھے،توان کو دیکھنے کے لیے ہمارے شہر اورگاؤ ویران ہوجایاکرتے تھے۔
اس سوال کے جواب میں مجھے جو کچھ جواب میں ملا،اس پر کسی اوردن بات کریں گے،مگر حاصلِ گفتگویہ ہے کہ ان کے نزدیک تخلیق کار کے ساتھ ساتھ ناظرین کا بھی قصور ہے، اگر ٹی وی ڈرامے نے تربیت کے عنصرسے چشم پوشی کی ،توناظرین بھی اپنی ذمے داری سے سبکدوش ہوگئے۔کمال احمد رضوی کی زبانی ایک واقعہ آپ کے لیے رقم کررہاہوں،اس سے یہ بات مزید واضح ہوجائے گی۔
کمال احمد رضوی بتاتے ہیں''ایک دن میری گاڑی خراب ہوگئی اوریہ وہ وقت تھا جب ٹی وی سے ''الف نون''نشر ہواکرتا تھا۔میں جیسے تیسے گاڑی کومکینک کے پاس لے کر پہنچا اوراس سے کہاکہ اسے جلدی سے ٹھیک کردو۔وہ کہنے لگا،آج گاڑی دے جائیں،کل لے جائیے گا۔میں نے پوچھا ،ابھی کیوں نہیں؟وہ بولا،ابھی ٹی وی سے الف نون آنے والا ہے،مجھے وہ دیکھنا ہے۔میں بولاکہ وہ میں ہی توہوں۔مکینک نے کہا،جی میں جانتاہوں،مگراس ڈرامے کی کوئی قسط چھوڑ نہیں سکتا۔''
ناظرین کی سنجیدگی کا اس بات سے اندازہ ہوتا ہے۔ اب اگرغیر معیاری ڈراما مقبول ہو یا کوئی فنکار گم نامی کی موت مر جائے، تواس میں ہم بھی برابر کے قصور وار ہیں،صرف حکومت کے کندھوں پر بوجھ ڈالنے سے ہم بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ موجودہ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اب ہم اپنی روش تبدیل کریں،اگر کوئی اچھا اورمعیاری ڈراما ہے ،تو اس کی حوصلہ افزائی کریں۔فن کار کو اس کی زندگی میں ہی اس کا حق دے دیں۔ ایک فنکار اورچاہتا ہی کیا ہے؟ساری زندگی میں داد و تحسین ہی اس کی دولت ہوتی ہے،جس کو وہ ایسے سنبھالتا ہے، جیسے ہم بچپن کی یادوں کوسنبھال کررکھتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ یہ روایت بھی اب دم توڑ رہی ہے۔
ہردن کسی کردار کواوڑھ کر جینے والے کسی فن کار کے لیے ہی احمد ندیم قاسمی نے یہ نظم لکھی تھی کہ ۔۔۔
ریت سے بُت نہ بنا،اے میرے اچھے فنکار
ایک لمحہ کو ٹھہر،میں تجھے پتھر لادوں !
فن اورفنکار کو مرنے سے بچاناہے توہمیں اپنے اخلاقی زوال کوروکناہوگا،ورنہ مادیت پرستی کی دیمک ڈرامے کی صنعت کو بھی چاٹ کھائے گی۔