وزیر اعظم بیورو کریسی کے ساتھ وزراء کی کارکردگی پر بھی توجہ دیں
وزیر اعظم نواز شریف کے تیسری بار وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے حوالے سے ناقدین اسی بحث میں الجھے تھے۔۔۔
پاکستان مسلم لیگ(ن)کو برسر اقتدار آئے ایک ماہ ہوا چاہتا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف کے تیسری بار وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے حوالے سے ناقدین اسی بحث میں الجھے تھے کہ دیکھنا یہ ہے کہ ان میں کچھ تبدیلی آئی ہے یا وہی پرانا سیاسی حکومتوں والا وتیرہ روا ہوگا۔گزشتہ پانچ سال بالخصوص اور پندرہ سال کے دوران کی جانے والی حکومتی بے قاعدگیوں، بے ضابطگیوں اور بے سمت ناکام کوششوں کے بعد ملک کی معاشی و معاشرتی تنزلی کے ماحول میں محض تیس یوم کے اندر کوئی بڑی تبدیلی لانا بلاشبہ ناممکن ہے مگر اب تک کے اقدامات سے وزیر اعظم نوازشریف کے ارادے ظاہر ہونا ضرور شروع ہوگئے ہیں۔
وزیر اعظم نے ماضی سے ہٹ کر اب کی بار معمول کا درخواستی کلچر ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ وزیر اعظم نے کابینہ ارکان سے تو پہلے روز ہی کہہ دیا تھا کہ میں آپ کو فری ہینڈ دے رہا ہوں ،میرٹ شفافیت اور کفایت شعاری کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ اپنے اہداف کو خود مقرر کریں اور پندرہ یوم کے اندر ابتدائی رپورٹ وزیر اعظم آفس بھجوادیں۔ اس حوالے سے وزیر امور کشمیر برجیس طاہر بروقت اپنی وزارت کی ابتدائی رپورٹ بھجوانے میں کامیاب ہوئے ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مزید تین وزارتوں سے مطلوبہ رپورٹیں وزیر اعظم آفس کو موصول ہوئیں، مگر دیگر وزراء اور ان کے سیکرٹری وزیر اعظم کی طرف سے دی گئی پندرہ یوم کی ڈیدلائن بھول گئے اور اسی بناء پر وزیر اعظم کو گزشتہ روز تمام وزارتوں، ڈویژنوں، سرکاری اداروں کے سربراہوں کو پیغام بھیجنا پڑا کہ نااہل اور کرپٹ افسروں اور اہلکاروں کے خلاف فوری اور بلا امتیاز کاروائی کی جائے۔
وزیر اعظم کو بیوروکریسی کو اپنے پہلے سے بتائے گئے عزائم کو تحریری شکل میں بھجوانے کی ضرورت اس لئے بھی پیش آئی کہ انھوں نے بیوروکریٹس کی روایتی سستی،نااہلی اوربہانہ بازی کو مسلسل تیس دنوں سے محسوس کرلیا تھا۔ مثلًا وہ جہلم نیلم ہائیڈرو پراجکٹ کے معائنے کیلئے کشمیر گئے تو واپڈا حکام روایتی سستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نامکمل اور ناقص معلومات پیش کرتے رہے۔ ایک سو تیس ارب روپے کے ابتدائی تخمینے کا حامل یہ منصوبہ ہماری بیوروکریسی کی روایتی سستی اور نااہلی کے باعث آج دو سو پچھتر ارب روپے کی لاگت کو پہنچ چکا ہے۔ بیوروکریسی کی روایتی سستی کی دوسری مثال اس وقت سامنے آئی جب برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈکیمرون پاکستان کے دورے پر آئے۔
ان سے ملاقات سے قبل حسب معمول وزارت خارجہ کے حکام وزیر اعظم کو بریفنگ دے رہے تھے تو اس میں ایک نکتہ پاکستان کیلئے مزید امداد کے حصول کی خواہش کے اظہار کی تجویزکی صورت میں درج تھا۔ وزیر اعظم یہ دیکھتے ہی غصے سے لال پیلے ہوگئے اور انھوں نے موقع پر موجود وزارت خارجہ کے اعلٰی ترین تربیت یافتہ بیوروکریٹس کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ آپ میری بات کو اس طرح سمجھ ہی نہیں رہے جس طرح میں کہہ رہا ہوں آپ لوگ خدا کیلئے روایتی سوچ کے باکس سے باہر نکلیں،میں آئندہ تحریری یاتقریری صورت میں امداد کی بات دیکھنا نہیں چاہتا، پاکستان دوسرے ممالک سے دوطرفہ تجارت، سرمایہ کاری اور اقتصادی روابط کا خواہاں ہے۔
اس موقع پر انھوں نے اپنے مشیرسرتاج عزیز اور معاون خصوصی طارق فاطمی کو بھی بین السطور سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہی اس بریف کو دیکھ لیتے۔ اس کے علاوہ بھی گزشتہ تیس یوم کے دوران وزیر اعظم نوازشریف کو بیوروکریسی کے کئی روایتی انداز دیکھنے کو ملے اور وہ اس میں واضح تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں۔
بیوروکریسی کو سیدھاکرنے کی کوشش میں وفاقی کابینہ کے ارکان کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کے پہلے اجلاس میں واضح طور پر کہا تھا کہ میں آپ کو اپنے اہداف خود مقرر کرنے کی آزادی دے رہاہوں مگر تین ماہ اور چھ ماہ کے بعد جب میں آپ کی کارکردگی کا جائزہ لوں گا تو غیر تسلی بخش کارکردگی کی بناء پر میں وزراء کے پورٹ فولیوز تبدیل بھی کرسکتا ہوں اور پورٹ فولیوز واپس بھی لے سکتا ہوں۔ ایسی صورتحال میں محترم سرتاج عزیز جیسے بزرگ کابینہ ارکان کو بھی آوٹ آف دی باکس سوچ کے ساتھ کام کرنا ہوگا ۔
وزیر اعظم نواز شریف کو اپنی تمام تر خلوص نیت کے ساتھ بیوروکریسی کا قبلہ درست ضرور کرنا چاہیے مگر اپنی کابینہ کے ارکان کی کارکردگی کا بھی تین یا چھ ماہ کے بجائے ماہانہ بنیادوں پر جائز ہ لینا چاہیے۔اسی تناظر میں اگر وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی کارکردگی دیکھی جائے تو وہ اپنی پہلی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں اوپر تلے چھ، سات بار یہ بڑے دھڑلے سے یہ کہہ گزرے کہ میں گھبرا کے فیصلے بدلنے والا نہیں اور پھر دنیا نے دیکھا کہ انھوں نے تنخواہوں میں اضافے کیلئے بنائی گئی کمیٹی کے اجلاس سے قبل ہی تنخواہوں میں اضافہ کرکے اپنی ناپختہ کارکردگی کا عملی ثبوت دیدیا۔
اب آئی ایم ایف سے مذاکرات کے حوالے سے بھی ان کے دعوے آسمان کو چھورہے ہیں مگر واقفان حال بتاتے ہیں کہ ہمیں بالآخر آئی ایم ایف کی زیادہ شرائط ماننا پڑیں گی اور کوئی بعید نہیں کہ ان کے کہنے پر قوم کو چار سو پچھتر ارب روپے کے اضافی ٹیکس برداشت کرنا پڑیں۔وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، وزیر امور کشمیر برجیس طاہراور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کی کارکردگی اب تک کی صورتحال کے مطابق تسلی بخش قرار دی جاسکتی ہے جبکہ وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمٰن توقع کے برعکس اپنی تمام تر پھرتیوں کے باوجود متاثر کن نتائج حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔
وزیر پانی وبجلی خواجہ آصف اور ان کے رفقائے کار کی کارکردگی بھی تھوڑے ہی دنوں میں سامنے آ جائے گی۔ توانائی پالیسی کی صوبوں سے منظوری کے بعد بہت جلد وزیر اعظم نواز شریف نئی توانائی پالیسی کا اعلان کریں گے اور توقع ہے کہ رمضان کے دوران عوام کو حالیہ جاری لوڈشیڈنگ میں تین سے چار گھنٹے کی کمی نصیب ہوگی۔ وزیر اعظم کے دورہ چین کی بھی اس حوالے سے بے حد اہمیت ہے اگر وہاں سے حسب توقع سرمایہ کاری اور تکنیکی امداد مل جاتی ہے تو یہ نواز حکومت کی بڑی کامیابی ہو سکتی ہے اور ایسی صورت میں پوری قوم پر ویز مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے اطلاق اور صدر زرداری کے خلاف سوئس کیسز دوبارہ کھولے جانے کی مہم جوئی بھی خاموشی سے برداشت کرلیں گے ورنہ بائیس اگست کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کے برسراقتدار ہونے کے باوجود عوام اپنے غم وغصے کا اظہار کرنے میں ہرگز کسی رعایت سے کام نہ لیں گے۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ بھی سوئس کیسز کے حوالے سے حکومتی اقدامات سے خاصے نالاں ہیں اور اپنی ناراضگی کا برملا اظہار بھی کرتے پھرتے ہیں۔انتہائی مہارت سے سیاسی چال چلنے کے ماہر مولانا فضل الرحمٰن وفاقی کابینہ میں شمولیت کے حوالے سے پہلی بار بے بس نظر آرہے ہیں ، پہلی بار ماہرین سیاست میاں نواز شریف کو مولانا فضل الرحمن سے بڑا سیاستدان کہنے پر مجبور نظر آرہے ہیں ۔