قوم پرست کارکنوں کی پیپلزپارٹی میں شمولیت

ڈاکٹر قادر مگسی کا نواز لیگ کو مشروط حمایت کا عندیہ


Parvez Khan July 02, 2013
ڈاکٹر قادر مگسی کا نواز لیگ کو مشروط حمایت کا عندیہ فوٹو : فائل

HYDERABAD: متحدہ قومی موومنٹ کے مقتول راہ نما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے حوالے سے متحدہ کے قائد الطاف حسین اور بعض ذمہ داران پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔

جس کا مظاہرہ اتوار کی صبح الطاف حسین کے متحدہ کی قیادت سے علیحدگی کے اعلان میں سامنے آیا۔ کم و بیش 2 سال سے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کے حوالے سے کی جانے والی قیاس آرائیوں اور افواہوں کے بعد اب سندھ کے سیاسی منظر نامے میں کچھ تبدیلیاں ہوتی محسوس ہو رہی ہیں۔ الطاف حسین کے قیادت سے مستعفی ہونے کے اعلان کے بعد کارکنوں، ہم دَردوں کی بڑی تعداد زونل آفس جناح چوک پر جمع ہوگئی۔ مرد و خواتین اور مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے ذمہ داران نے ایم کیو ایم کے دفتر میں جمع ہو کر اپنے قائد الطاف حسین سے فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا۔

ملک کا معاشی مرکز کہلانے والے کراچی اور حیدرآباد کے علاوہ سکھر کا شمار بھی صوبے کے ان علاقوں میں ہوتا ہے، جہاں سے مرکز و صوبائی سطح پر راہ نما اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ عام انتخابات کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی جانب سے دیے گئے بیانات اور پارٹی ذمہ داریوں میں ردو بدل ہر شخص کی زبان پر رہی ہے۔

برطانوی پولیس کی جانب سے کیے جانے والے اقدام کے بعد کارکنوں میں شدید ردعمل نظر آتا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی پارٹی پر مضبوط گرفت ہے اور ان کے ذمہ داران و کارکنان کسی بھی صورت میں اپنے قائد کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔ اتوار کو متحدہ کے کارکنوں نے جس مخلصی کا اظہار کیا وہ کم ہی کسی اور کے ہاں نظر آتا ہے۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ حالات کچھ بھی ہوں، ایم کیو ایم کے کارکن اپنا فعال کردار جاری رکھیں گے۔

دوسری طرف مئی 2013ء کے عام انتخابات کے بعد سکھر ڈویژن سے منتخب ہونے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز کی بڑی تعداد قومی و صوبائی اسمبلی کے اجلاسوں میں مصروف ہوگئی ہے اور علاقے کے عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے افسران کے دفاتر کے دھکے کھانے پر مجبور ہیں، منتخب نمائندوں کے اسسٹنٹ، پی اے زیادہ تر موبائل فون پر رابطہ کر کے شہریوں کے مسائل کے حوالے سے آگاہ کر رہے ہیں۔

سندھ میں قوم پرست جماعتوں میں بھی اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور بہت سے ذمہ داران پارٹی قائدین سے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے پیپلز پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں سندھ ترقی پسند پارٹی کو الوداع کہہ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے حیدر شاہانی، و دیگر کا اپنے آبائی علاقوں اور پی پی میں شامل ہونے پر والہانہ استقبال کیا جا رہا ہے۔ جس سے یہ امید ہوچلی ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں مزید کسی قوم پرست جماعت سے تعلق رکھنے والے راہ نما پیپلز پارٹی میں شامل ہوں گے، جب کہ سندھ ترقی پسند پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر قادر مگسی اپنی تنظیم کو مزید بہتر اور فعال بنانے کے لیے ان دنوں سکھر سمیت اندرون سندھ کے دوروں پر ہے اور اپنے ذمہ داران کے ہمراہ اپنے یونٹس کے نئے دفاتر کے افتتاح کے علاوہ معززین سے رابطوں کو فروغ دے رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں ڈاکٹر قادر مگسی نے نیوپنڈ میں دفتر کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر قادر مگسی کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں ہمیشہ سندھ دشمن منصوبوں پر عمل کیا، سندھ کے ساحلی جزیروں کو فروخت کرنے کے علاوہ دُہرا بلدیاتی نظام نافذ کر کے سندھ سے غداری کی۔ ایسے حالات میں سندھ کے نوجوانوں کو متحد ہو کر کام کرنا چاہیے۔ انہوں نے دعوا کیا کہ سندھ حکومت ایک مرتبہ پھر متحدہ قومی موومنٹ کو اقتدار میں حصہ دینے کی تیاریاں کر رہی ہے، امن و امان کی صورت حال برقرار رکھنے کے لیے بلاتفریق کارروائی ہونی چاہیے۔

جب تک ایک بھی سندھی زندہ ہے، کراچی کو سندھ سے الگ نہیں ہونے دیں گے۔ انکا کہنا تھا کہ اگر مسلم لیگ ن اچھے اقدام کرے اور عوام کو سہولت دیں تو ہم ان کے ساتھ ہیں اور اگر انہوں نے سندھ مخالف منصوبہ شروع کیا، تو اس کے خلاف بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔ انہوں نے اپنے دوروں کے دوران ستمبر میں حیدرآباد اور یکم دسمبر کو کراچی میں سندھ دھرتی میری ماں کے عنوان سے ریلیاں نکالنے کا اعلان بھی کیا۔ چند ماہ خاموشی کے بعد اچانک اندرون سندھ کے دورے کرنے کا سلسلہ شروع کرنے اور گنجان آبادی والے علاقوں میں دفاتر کے قیام سے یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ آئندہ بلدیاتی انتخابات میں قوم پرست جماعتیں خصوصاً سندھ ترقی پسند پارٹی اہم کردار ادا کرے گی اور ان کی کوشش ہے کہ پارٹی سے ناراض ہوکر جانے والے افراد کا خلا پورا کیا جا سکے۔

عام انتخابات کے موقع پر مختلف مذہبی جماعتوں کی جانب سے نکالی جانے والی ریلیاں اور بڑے بڑے جلسے منعقدکرنے کے باوجود الیکشن میں بدترین شکست سے دوچار ہونے کے بعد مذہبی جماعتیں خاموش ہو کر رہ گئی ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام، متحدہ دینی محاذ، جمعیت علمائے پاکستان، سنی اتحاد کونسل، سنی تحریک وغیرہ جماعتوں کے راہ نماؤں کی جانب سے ایک ماہ گزرنے کے باوجود کسی بھی قسم کی سرگرمیاں نظر نہیں آرہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مذہبی جماعتوں کے کارکنوں میں خاصی مایوسی پائی جاتی ہے۔

مذہبی جماعتوں میں سب سے فعال کردار ادا کرنے والی جے یو آئی بھی ان دنوں خاموش نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر خالد سومرو، آغا محمد ایوب شاہ ودیگر راہ نماؤں کی جانب سے ہفتہ وار پریس کانفرنس، کارکنوں سے خطاب اور علاقوں کے دورے کا سلسلہ بھی موقوف ہوکر رہ گیا ہے۔ انتخابات میں ناکامی سے دوچار ہونے والی مسلم لیگ فنکشنل کی سرگرمیاں بھی ایک طرح سے ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ مذکورہ جماعتوں کی جانب سے خاموشی اختیار کرنے کے بعد ان کے کارکنوں میں بے چینی کی سی فضا پائی جا رہی ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر اسلام الدین شیخ، اور ان کے صاحب زادے رکن قومی اسمبلی نعمان اسلام شیخ آئندہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے تیاریاں کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور انہوں نے شہری علاقوں پر خصوصی توجہ دینا شروع کردی ہے۔

شہریوں کا خیال ہے کہ اگر دونوں باپ بیٹوں نے اسی طرح توجہ دی تو آئندہ بلدیاتی انتخابات میں وہ ضلع سکھر میں اپنا من پسند ناظم لانے میں کام یاب ہوں گے۔ بلدیاتی سطح پر اگر ہم سکھر میں متحدہ قومی موومنٹ کی سیاسی صورت حال اور اثر رسوخ کا جائزہ لیں تو ماضی میں سکھر سے متحدہ کے 7ناظمین اور 100کے قریب کونسلروں نے سابق ضلع ناظم سید ناصر حسین شاہ کو کام یابی دلانے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

2013ء کے انتخابات میں حلقہ پی ایس 1پر سلیم بندھانی کا 26ہزار سے زاید ووٹ حاصل کرنے کے بعد شہری سطح پر ایم کیو ایم کا ووٹ انتہائی مضبوط ہو اہے اور وہ آئندہ بلدیاتی انتخابات میں اہم کردار ادا کرے گا، لیکن فی الحال کچھ کہنا اس حوالے قبل ازوقت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں