جنگیں اور دہشت گردی بطورِ پیداوار

سماج، انسان اور فطرت کے ارتباط کا نتیجہ ہے۔ فطرت اور انسان کے ارتباط سے ’پیداوار‘ وجود میں آتی ہے۔۔۔۔



سماج، انسان اور فطرت کے ارتباط کا نتیجہ ہے۔ فطرت اور انسان کے ارتباط سے 'پیداوار' وجود میں آتی ہے۔ اگر انسان نہیں تو پیداوار نہیں اور اگر پیداوار نہیں تو انسان کی بقا ممکن نہیں ہے! بے شک انسانی ہاتھ کی پیداوار ہو یا انسانی ذہن کی پیداوار، جیسے دہشت گردی اور جنگیں ! پیداوار سماج کو قائم رکھنے کے لیے لازم ہے۔ جدید سرمایہ داری نظام میں پیداوار ایک جنس (Commodity) کی شکل اختیارکر لیتی ہے، جو تبادلے کے عمل کے دوران میں نہ صرف منافع کو جنم دیتی ہے بلکہ اس پیداواری عمل کے نتیجے میں تمام گزشتہ نظریات کی از سر نو تشکیل کرتی ہے۔

اس طرح پیداواری عمل کے تحت نظریات کی ہیئت تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اور یہ عمل دہرا ہوتا ہے۔ کارل مارکس ''سرمایہ'' کے پہلے باب میں لکھتا ہے کہ پیداوار جونہی جنس کی شکل اختیارکرلیتی ہے تو ایک پُراسرار شے بن کر انسانوں کے سامنے سر کے بل کھڑی ہوجاتی ہے۔ یعنی انسان کے ہاتھ کی پیداوار اس سے الگ اپنی جگہ بناتی ہے اور اس طرح انسانوں کے مابین تعلقات اس' جنس' کی بنیاد پر ہی ارتقا پذیر رہتے ہیں۔

؎جب ہم اپنے معاشروں پر نظر ڈالتے ہیں تو دکھائی دیتا ہے کہ ماں باپ اور بچوں ، بہن بھائیوں، حتیٰ کہ تمام لوگوں کے درمیان حقیقی اور سچے جذبات کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور صرف ایک ہی تعلق باقی رہتا ہے جو زرکی وساطت سے صورت پزیر ہوتا ہے،یعنی سرمایہ داری نظام میں محبت، احساس و جذبات اور دیگر انسانی اقدار کو پیسے کے عوض خریدا اور بیچا جاتا ہے۔ اگر مغرب میں جدید سرمایہ داری کے آغاز و ارتقا پر نظر ڈالیں تو اٹھارویں صدی کے وسط سے جرمنی میں جو فکر و فلسفہ متشکل ہوا اس میں سماج کو بالکل ایسے ہی تسلیم کرلیا گیا جیسا کہ ان کو دکھائی دیتا تھا، مگرانسانی محنت کے اس پہلو کو یکسر نظر انداز کردیا گیا جو نئے سماج کی تشکیل میں سب سے بنیادی عامل تھا۔ تبادے کے دوران جو سماج وجود میں آیا ، حقیقت میں وہ ایک طرح کی بُعد (Reification) کا شکار تھا۔

اس میں اشیا کے مابین تعلقات کو حقیقی سمجھ لیا گیا اور انھیں بنیادی تسلیم کرتے ہوئے سماج کے نظم و نسق کا کام سیاسی بنیادوں پر شروع کردیا گیا۔ ایک بُعد زدہ Commodified) ) سماج سے انسانی اقدار کو ہم آہنگ کرنے کے لیے اخلاقی ضابطے تشکیل دیے گئے، اور ان ضابطوں میں پیداواری عمل کی تبدیلی کے ساتھ تغیرات رونما ہوتے رہے۔بُعد سرمایہ داری سماج کے بنیادی تضادات کو مخفی رکھنے کا نام ہے، ان کے اظہار کی صورت میں دہشت گردی اور جنگوں کا عمل میں آنا لازم ہوتا ہے۔

جدید سرمایہ داری کے آغاز میں جنس انسان کے ہاتھ کی پیداوار تھی۔ اور یہ تسلیم کیا جاتا تھا کہ پیداوار ی عمل جاری رہے گا تو سرمایہ داری نظام اپنے تسلسل کو برقرار رکھ پائے گا، جب کہ پیداواری عمل کی معدومیت سرمایہ داری کے انہدام تک لے جاتی ہے۔ جوں جوں سرمایہ داری نظام کا ارتقا ہوا ہے پیداوار کی نوعیت تبدیل ہوتی گئی ہے۔ پہلے پیداوار صرف انسان کی محنت کا نتیجہ تھا، لیکن منافع کمانے اور اپنا تسلط برقرار رکھنے کے خواہشمند حکمران طبقات نے پیداوار کے دائرے میں وسعت لانے کے لیے مختلف قسم کے نظریات کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔

اس حوالے سے دیکھیں تو بیسویں صدی کے آخری چند عشروں میں پیداواری عمل میں بنیادی تبدیلی نے جنم لیا ہے، کیونکہ اس عہد میں جنگیں اور دہشت گردی ایک پیداواری صنعت اور آئیڈیالوجی کی شکل میں سامنے آئی ہیں۔ پیداواری عمل میں یہ تبدیلی اگرچہ سرمایہ داری کی بقا کے لیے لازم تھی مگر یہ تبدیلی انسان اور فطرت کے مابین ارتباط کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ اس کی جڑیں پیداواری عمل کے اس متبدل کردار میں پیوست ہیں کہ جس میں جنگیں اور دہشت گردی کو ایک آئیڈیالوجی کی شکل دینا سامراجی معاشی مفادات کے لیے ناگزیر تھا۔

امریکا میں برپا ہونے والے نو اور گیارہ ستمبر کے واقعات میں اور اس کے بعد ایک جدید اور انوکھا منظر یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ جنگوں اور دہشت گردی کو پیداوار بنانے کی غرض سے مختلف کردار اور نظریات تراش لیے گئے تھے۔ اور اس کے بعد یہ نعرہ لگایا گیا کہ ''یا تم ہمارے ساتھ ہو یا ان کے ساتھ!'' اسی تناظر میںمغربی جامعات میں جنگوں کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے دہشت گردی کو بطور ایک مضمون کے نصاب میں شامل کرلیا گیا۔ سامراجیوں نے جنگوں اوردہشت گردی کی صنعت کو استحکام عطا کرنے کے لیے ذرایع ابلاغ کا سہارا بھی لیا گیا ہے۔

ان دہشت گردوں کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ ان کے ارتقا میں سامراجی ایجنسیوں نے بھی اتنا بنیادی کردار محض اس لیے ادا کیا کہ دہشت گردی کے نتیجے میں برپا ہونے والی جنگوں کوپیداواری صنعت کے طور پر استحکام مل سکے۔اور آج جنگیں اور دہشت گردی کی ترکیب سے ایک مضبوط پیداواری صنعت تیار ہوچکی ہے۔ سامراج اس سے نہ صرف یہ کہ دنیا کے مختلف ممالک میں اپنی موجودگی کا جواز پیش کررہا ہے، بلکہ اس سے معاشی مفادات کے حصول کے ساتھ ساتھ اپنی طاقت میں اضافہ اور اپنے وجود کو دوام عطا کررہا ہے۔جدید سرمایہ داری کے عہد میں جہاں سرمایہ داروں کی مختلف صنعتوں میں انسان کے ہاتھ کی پیداوار سے اجناس تیار ہوتی تھیں تو وہاں آج سامراجیوں کی تیار کردہ صنعت مختلف نظریات کے استعمال سے دہشت گرد تیار کرتی ہے۔

سامراجی جامعات میں یہ درس دیا جاتا ہے کہ دہشت گرد جنت کے حصول کے لیے دہشت گردی کرتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی منافع اور اپنی حکمرانی کے حصول کے لیے کی اور کروائی جاتی ہے۔ مغربی ذرایع ابلاغ کے ذریعے سامراجیوں کو فرشتہ صفت کرداروں کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ مغربی اور امریکی اقوام انسانی آزادی، انسانی حقوق ، انصاف اور مساوات جیسی اقدار کے بہت بڑے پاسبان ہیں، اور انھی اقدار کو قائم رکھنے کے لیے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

دہشت گردوں کو ان تمام اقدار کے دشمن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، لہٰذا ان کے ممالک میں داخل ہوکر ان کو ختم کرنا سامراجی اقدار کی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے کے 'مخالف' کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، تاکہ اپنے ممالک کے معصوم لوگوں کو وحشیانہ بربریت کے ارتکاب کا جواز فراہم کیا جاسکے۔ عوام کے اذہان میں ان کی درندگی کا تصور بٹھایا جاتا ہے، تاکہ نظریاتی سطح پر ان سے نفرت کا جواز مل سکے۔ ان سے نفرت پیدا کرنا سامراجیوں کے مفادات کی تکمیل کے لیے لازمی ہے۔ اگرچہ آج کے دہشت گرد کی تخلیق میں سرمایہ داری نظام کے بحران کا بنیادی کردار ہے ، مگر آج دہشت گرد ایک ایسا کردار بن چکا ہے جو بظاہر سامراجیوں کا دشمن ہوتے ہوئے بھی انھیں جنگوں کا جواز فراہم کرکے سرمایہ داری نظام ہی کو منافع، طاقت اور حکمرانی فراہم کرنے کا باعث ہے۔

دہشت گردوں کے نظریاتی سرپرستوں کو لوگوں کو دہشت گردی کی تعلیم دینے کا کہا جاتا ہے۔ جہاں مغربی ذرایع ابلاغ کے زہریلے خیالات کا اثر نہ ہو، وہاں معصوم لوگوں کی کسی بستی پر بارود کے گولے گرادیے جاتے ہیں۔ اگر اٹھارہ افراد ہلاک ہوجائیں تو بچنے والے چند افراد کا دہشت گرد بننا لازمی ہے۔دہشت گردوں کے نظریاتی اساتذہ جو حقیقت میں سامراج کے نمایندے ہوتے ہیں، وہ بہترزندگی گزارتے ہیں اور ان کے طالب علم سیدھے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔

نو اور گیارہ ستمبر کے بعد کے سماجی و سیاسی مظاہر میں دیکھا گیا ہے کہ سامراجیوں نے دہشت گردوں کو جدیدصنعتی سرمایہ داری نظام کی امیج پر خلق کیا ہے۔جس طرح سرمایہ دار ذرایع پیداوار پر قابض ہوتا ہے اور محنت کش کی محنت کے نتیجے میں قدرِ زائد کا مالک بن جاتا ہے، بالکل اسی طرح جنگوں اوردہشت گردی کی صنعت میں ذرایع پیداوار یعنی ایجنسیاں، ذرایع ابلاغ، مذہبی آئیڈیالوجی وغیرہ پر سرمایہ دار ہی قابض ہوتا ہے۔ وہ ان تمام ذرایع کا استعمال محض اس لیے کرتا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ دہشت گرد کا حملی جنگوں تک لے جائے گا ۔ اس کے نتیجے میں اسی طرح قدر زائد حاصل ہوگی جس طرح محنت کش نے اسے پیدا کیا تھا۔

اس پس منظر میں دیکھیں تو دہشت گرد قدر زائد کوپیدا کرنے کے علاوہ مذہبی بنیادوں پر نفرت اور نظریاتی تفریق اور آفاقیت کے اس مقولے کے متعلق تشکیک کے پہلو کو نمایاں کرتا ہے جس کی تہہ میں لبرل جمہوریت کے مثالی آدرش، مثال کے طور پر انسانی حقوق ، انصاف اور مساوات جیسی اقدارپیوست تھیں۔

ان اقدار کے انہدام کے لیے کسی ایسی آئیڈیالوجی کی ضرورت نہیں ہوتی جو سرمایہ داری نظام سے اپنی ساخت میں الگ وجود رکھتی ہو، بلکہ ان اقدارکو انھی عوامل سے خطرہ درپیش رہتا ہے جو سرمایہ داری نظام سے متعین ہوتے ہیں اور بحران کے عہد میں اس کی بقا کی ضمانت بن جاتے ہیں۔ اگر نو اور گیارہ ستمبر کے واقعات رونما نہ ہوتے ، تو ان کے نتیجے میں جنگیں بھی برپا نہ ہوتیں تو ممکن تھا کہ اندرونی شورشوں سے سرمایہ داری کا انہدام عمل میں آچکا ہوتا۔سرمایہ داری کا انہدام جو اس کی باطنی حرکت کا نتیجہ ہوتا ہے، آخری تجزیے میں جنگوں اور دہشت گردی ہی اس غیر انسانی نظام کا تحفظ کرتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔