بُک شیلف

جانئے دلچسپ کتابوں کے احوال۔


Rizwan Tahir Mubeen December 09, 2018
جانئے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو: فائل

ہر شئے کا نظریہ
مصنف: اسٹیفن ہاکنگ
مترجم: علیم احمد
صفحات:183 قیمت: 500روپے
ناشر: گفتگو پبلی کیشنز، اسلام آباد

رواں سال عصرحاضر کے عظیم ترین سائنس داں اسٹیفن ہاکنگ کی رخصتی کے سبب ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، زیرتبصرہ کتاب انہی کے سات سائنسی لیکچروں کا ترجمہ ہے، جس میں وقت اور کائنات سے لے کر بلیک ہولز وغیرہ تک سات ابواب استوار کیے گئے ہیں۔

کتاب کے آخری حصے میں شامل دو ضمیموں میں سے ایک کا عنوان 'بلیک ہول سے'' اطلاع'' کا فرار'، جب کہ دوسرے کا ''اسٹیفن ہاکنگ: مختصر سوانح'' ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ کے ان عوامی لیکچروں میں بات ماضی کی سائنسی تحقیق سے شروع ہوتی ہے، جس میں قدیم محققین کے مفروضوں کی تصدیق یا تکذیب کرتے ہوئے وہ بہت سے نئے سوالات اٹھاتے ہیں، جب کہ کہیں وہ اپنے قیاس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ آگے بڑھتے ہوئے ان کی گفتگو جدید تحقیق اور دلائل کی روشنی میں مستقبل کے حوالے سے امکانات تک پھیلتی چلی جاتی ہے، کہیں ان کا یقین مستحکم ہے، تو وہاں انہوں نے اپنی بات کو 'دعویٰ' بھی کہا ہے۔

اس کتاب کے مترجم ماہ نامہ 'گلوبل سائنس' کے سابق مدیر ہیں، اس سے پہلے وہ اسٹیفن ہاکنگ کی 'بریف ہسٹری آف ٹائم' کا بھی ترجمہ کرچکے ہیں۔ وہ کتاب کے ابتدائی صفحات میں 'ایک ترجمہ جو محض ترجمہ نہیں' کے زیرعنوان نام وَر محقق سید قاسم محمود کے تین شاگردوں میں سے ایک ہونے پر نازاں ہوتے ہیں اور قارئین کے گوش گزار کراتے ہیں کہ کس طرح انہیں اس عظیم سائنس دان کے لیکچروں کو اردو کے قالب میں ڈھالنے کے لیے جستجو اور محنت کرنا پڑی، بہت سی سائنسی گتھیاں سلجھانے کے لیے انہیں لیکچر چھوڑ کر پہلے اس کے تصور سے آگاہی حاصل کرنا پڑی، تاکہ یہ علمی گفتگو پوری صحت اور اہتمام کے ساتھ قارئین تک پہنچائی جا سکے۔ مترجم نے کتاب میں جہاں جہاں ضرورت محسوس کی قوسین لگا کر 'عرض مترجم' کے ذریعے قارئین کو بات سمجھانے کی کوشش بھی کی ہے۔ کتاب میں شامل تصاویر کی طباعت اگرچہ بہت بڑھیا نہیں، لیکن قارئین کی ضرورت پوری کرتی ہیں۔

وفا کی وفات
مصنف: م ص ایمن
صفحات:192 قیمت:400 روپے
ناشر: ایمن لائبریری، کراچی

اگر اس ناول کے عنوان سے کسی آزردگی کا تاثر پیدا ہو رہا ہے، تو یقیناً یہ صرف ناول تک ہی ہے۔۔۔ اس کے مندرجات میں المیوں اور صدموں کی وہ انتہائیں موجود نہیں، جو کہ اکثر کہانیوں میں ضروری سمجھی جاتی ہیں۔۔۔ ہمارا خیال ہے کہ کچھ کتھائیں ایسی بھی ہونا چاہئیں جہاں درد، الم اور رنج سرسری سے گزر جایا کریں اور ان کے پورے پورے ابواب نہ ہوں، ایک اچھی کہانی ہو، جو اپنے نشیب وفراز سے گزرے اور مختلف موڑ کاٹتے ہوئے انجام بخیر ہو جائے۔۔۔ اور اس ناول میں یقیناً ایسا ہی ہے۔



یوں تو اس میں امیر لڑکی کی سبزی فروش سے محبت کی داستان ہے، جو ادب میں ایک بہت عام سی روایت ہے، لیکن اُن کی محبت کی کہانی یک سر مختلف ہے، جس میں 'وصل' کے بعد 'ہجر و وصل' کے مراحل پیش آئے ہیں۔ شاید اس بابت 'مقبول عام' ادب کے نقاد اُسے ہدف بنانے کی کوشش بھی کریں، لیکن وہ جو کہا جاتا ہے کہ کہانی میں صرف کردار فرضی ہوتے ہیں اور کہانی حقیقی ہوتی ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ اس ناول کو بھی ہم اسی خانے میں رکھ سکتے ہیں۔ اس میں ہمیں محبت کی داستان میں انسانی نفسیات اور تربیت کی بابت بھی خاصا مواد ملتا ہے۔ خاندانی میل جول کے حوالے سے ایک سچا جملہ ملاحظہ ہو کہ ''سب نے ایک دوسرے کے بغیر زندہ رہنا سیکھ لیا تھا'' ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کے بقول 'کہانی کا پلاٹ اس قدر دل چسپ، پُرتجسس اور کسی حد تک سنسنی خیز ہے کہ اسے ادھورا چھوڑنے کا دل ہی نہیں چاہتا۔' ساتھ ہی وہ کرداروں کی مکالمہ نویسی کی بھی تائید کرتے ہیں۔ کہانی کی 'جان' دیکھ کر وہ اظہارخیال کرتے ہیں کہ اگر یہ کسی 'پیشہ ور' ناول نگار کے ہاتھ لگ جاتا تو وہ اسے کم سے کم 500 صفحات تک لے جاتا، پھر اسے کتنے لوگ پڑھتے عموماً یہ لکھنے والے کا مسئلہ نہیں ہوتا۔

سود و زیاں ہے زندگی
مصنف: عابدہ رحمانی
صفحات:128، قیمت: 380 روپے
ناشر: الفتح پبلی کیشنز، راول پنڈی

بیرون ملک مقیم مصنفہ کی اس کتاب میں 33 مختصر افسانے شامل ہیں، جو مختلف جرائد کے علاوہ آن لائن بھی شایع ہوتے رہے ہیں۔ ان میں بدیس میں رہتے ہوئے دیس کی نگاہوں سے وہاں کی چیزوں کا گہرا ادراک نظر آتا ہے، موضوعات بھی زیادہ تر تارکین وطن سے منسلک ہیں، یا وہاں کے ماحول میں ان کے رہن سہن، رسوم ورواج اور مسائل کا بیان ہیں۔ کتاب میں بہت سے الفاظ ملا کر لکھے گئے ہیں، جو کتابت کی غلطی سے زیادہ غفلت معلوم ہوتی ہے، کیوں کہ یہ سلسلہ پوری کتاب تک دراز ہے۔

ان الفاظ میں ''آنلائن، جنکو، اسنے، اسپر، کسکے اور اسمرتبہ'' وغیرہ جیسے الفاظ تواتر سے شامل ہیں، جنہیں الگ لکھنا روا ہے اور ان کے ملا کے لکھنے سے نہ صرف ان کی ہیئت خراب ہوتی ہے، بلکہ قاری ان کو پڑھنے اور ان کے اِبلاغ میں بھی دشواری محسوس کرتا ہے۔ اس کتاب کے پیش لفظ میں 'صاحبۂ کتاب' نے لکھا ہے کہ میری مزید دو کتابیں 'سود وزیاں زندگی' اور'قوس قزح' طباعت کے مراحل میں ہیں، یہ سہو عجلت میں ہوا یا واقعی اس سے ملتے جلتے عنوان کی ایک اور کتاب آنے والی ہے، کیوں کہ پہلی کتاب کے عنوان اور زیرتبصرہ کتاب میں صرف 'ہے' کا فرق ہے!

یادیں باقی ہیں
مصنف: معین کمالی
صفحات: 249، قیمت: 300 روپے
ناشر: مکتبۂ دگر، گلشن اقبال، کراچی

اس کتاب میں کوچۂ صحافت سے وابستہ مصنف کے مختلف شخصیات کے حوالے سے 43 مضامین اور انٹرویوز جمع کیے گئے ہیں، جو مختلف رسائل وجرائد میں شایع ہو چکے ہیں۔ اکثر مضامین کے ساتھ مکمل حوالہ مع تاریخ اشاعت درج کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔

آخر میں شخصیات کے اشاریے کے ساتھ تاریخی واقعات کا اشاریہ بھی دیا گیا ہے۔ مضامین میں مولانا حسرت موہانی، مشفق خواجہ، ڈاکٹر اسرار احمد، قابل اجمیری، نیر علوی، محمد صلاح الدین اور معین اختر وغیرہ جیسی شخصیات پر اظہارخیال کیا گیا ہے۔ جب کہ درجن بھر انٹرویوز بھی ہیں، جن میں شریف الدین پیر زادہ، شیر محمد مری، قاضی محمد اکبر، نواب محمد یامین خان، حاجی نجم الدین سریوال، پروفیسر حسن الاعظمی، ڈاکٹر سید سلمان ندوی وغیرہ بھی کتاب کا حصہ ہیں۔

ایک مضمون میں عبدالسلام نیازی کی جگہ عبدالستار نیازی کا سہو ہوا تو مضمون میں انہوں نے یہ غلطی دُہرائی اور پھر معذرت بھی شایع کی۔ کتاب میں شامل مواد کی اشاعت کا زمانہ 1960ء سے ماضی قریب تک ہے، جس میں شخصی معلومات کے ساتھ تاریخی حوالے اور بہت سے واقعات پر ان کا مخصوص بیانیہ بھی موجود ہے۔

حتیٰ کہ 'ایک گلوکارہ' کے زیرعنوان وہ متوفیہ کی عاقبت پر یوں خامہ فرسائی فرماتے ہیں کہ ''ان کا ٹھکانا جنت قرار پانا مشکل ہے!'' کتاب میں شامل بہت سے مضامین کے آخر میں 'اضافہ از ناشر' کی سرخی جما کر اختلافی اظہار بھی کیا گیا ہے، جو بعض جگہوں پر اتنا ہے کہ دو صفحے کے مضمون کے بعد سات صفحوں تک پھیلتا چلا گیا ہے! ایک جگہ 'ماں کو خراج عقیدت' کے عنوان سے عالمی سماجی کارکن 'مدرٹریسا' کے لیے لکھا، جس کے آخر میں 'اضافہ از ناشر' میں مدر ٹریسا کا ''اصل'' روپ بھی تفصیل سے لکھا گیا ہے۔

خواب تہ آب
مصنف: اشرف یوسفی
صفحات:160 قیمت:400 روپے
ناشر: مثال پبلشرز، فیصل آباد

مختلف استعاروں سے آراستہ یہ شعری مجموعہ آسان اظہار خیال سے مزین ہے؎

جس طرح زندگی ضرور ت ہے

تو مری آج بھی ضرورت ہے!



اس مجموعے میں شامل غزلیات اگرچہ مختلف موضوعات کے ساتھ روایتی ہجر ووصل اور عشق کے مضمون سے پرے نہیں ہیں، لیکن یہ اظہار براہ راست نہیں، بلکہ اس کا ڈھب کچھ الگ دکھائی دیتا ہے۔ کتاب میں شامل ایک غزل کا یہ شعر دیکھیے تو بے ساختہ احمد فراز کی غزل 'اس کا اپنا ہی کرشمہ ہے فسوں ہے، یوں ہے' یاد آجاتی ہے؎

ایک اقرار محبت ہے کہ انکار سا ہے

پوچھتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ ''ہوں ہے'' یوں ہے

ڈاکٹر ریاض مجید فلیپ پر رقم طراز ہیں ''اشرف یوسفی کی شاعری میں اگرچہ ان احوال وواقعات کی پرچھائیں بھی ملتی ہیں جن کا ذکر شروع میں کیا گیا ہے، مگر ان کی داخلیت پسندی اتنی مضبوط ہے کہ خارجی اثرات قبول کرنے کے باوجود انہوں نے اپنے باطن میں موجود حسن وزیبائی کے ذخیروں کو فراموش نہیں کیا انہوں نے اپنے خیالات میں جو سخن زاد آباد کیے ہیں، ان کی طرف (خارجی شکست وریخت کے باوجود) ان کی نظر بار بار جاتی ہے، وہ اپنے داخل سے نئے نئے منظر کشید کرتے ہیں اور ان سے اپنی شاعری کی جمالیات ترتیب دیتے ہیں۔''

چٹو اور کٹکو
مصنف:سمیرا انور
صفحات:110، قیمت:350 روپے
ناشر: رائٹرز پبلی کیشنز، لاہور

بچوں کی 23 کہانیوں پر مشتمل مصنفہ کا یہ دوسرا مجموعہ ہے، جس میں انہوں نے پچھلی کتاب کی طرح مختلف جانوروں کے کرداوں سے اپنی کہانیاں بُنی ہیں، جن میں واضح طور پر بچوں کی اخلاقی تربیت کے لیے مختلف پیغامات پنہاں ہیں۔ بچے جانوروں کے ذکر میں کھو کر کہانی اپنی بھر پور توجہ برقرار رکھتے ہیں اور اس وسیلے ان کے ذہن میں اچھی بات زیادہ گہرائی سے راسخ ہوتی ہے، بہ نسبت کسی وعظ ونصیحت کے! باتصویر کتاب کے مندرجات میں شامل ایک کہانی 'چٹّو اورکٹکّو' کو ہی اس کتاب کا عنوان کیا گیا ہے۔ اس کتاب کی مصنفہ زندگی میں 'سیکھتے رہنے' کی پیروکار ہیں اور بچوں کو بھی اسی کی تلقین کرتی ہیں اور ان کی کہانیاں بھی کسی نہ کسی 'سیکھ' کے گرد گھومتی ہیں۔ عبدالرشید فاروقی لکھتے ہیں کہ 'اشتیاق احمد کے دنیا سے جانے کے بعد سمیرا انور شاید واحد لکھاری ہیں جو بہت تیزی سے عمدہ لکھ رہی ہیں۔'

زندہ کتابیں پیپر بیک کتابی سلسلہ
پیش کش واہتمام:راشد اشرف

کوچۂ قاتل (خودنوشت)
مصنف: رام لعل
صفحات:256، قیمت: 450 روپے
ناشر: بزم تخلیق ادب، پاکستان، کراچی

یہ خود نوشت دراصل 1947ء کے بٹوارے کا نوحہ ہے، 1993ء میں لکھنئو سے شایع ہونے والی یہ کتاب کم یاب تھی، اب سلسلے 'زندہ کتابیں' کے تحت دوبارہ منظرعام پر آئی ہے۔ اس کے 18میں سے چار ابواب میں مصنف کے بچپن اور ادبی کاوشوں کا احوال ہے، جس میں ادب پاروں کی اشاعت اور ردعمل سے لے کر اُس وقت کے معروف ادیبوں کا بیان ہے اور فیض اور حفیظ جالندھری کی وزارت اطلاعات میں موجودگی کا ذکر ہے، جب کہ پانچویں باب میں تقسیم کے ہنگامے شروع ہو جاتے ہیں۔

جس میں تاریخ کے طالب علم کو ایک چشم دید کی گواہیاں ملتی ہیں۔۔۔! کس طرح انہوں نے گھر میں قائداعظم کی تصویر اور سینے پر پاکستان کا نقشہ لگایا، پھر یکم مارچ 1947ء کو پنجاب اسمبلی نے پاکستان کی حمایت کی اور ماسٹر تارا سنگھ نے اسمبلی کے دروازے پر تلوار نکال کر اعلان کیا کہ پاکستان ہماری لاشوں پر بنے گا، اور حالات بگڑ گئے۔ اگلے صفحات پر ''عارضی'' ہجرت کا قصد ہے کہ 'پڑوسی نہ روک لیں، اس لیے بغیر بتائے ایک ٹفن لیے گھر سے نکلے، پھر یہ خیال آنا کہ جب ہم نہ لوٹیں گے، تو پڑوسی کتنا پریشان ہوں گے۔۔۔!' پھر وہاں بھی کہا جاتا ہے کہ 'مسلمان' حلیہ بدلو ورنہ مارے جائو گے! حتیٰ کہ ایک جگہ 'ثبوت' کے واسطے بے لباسی سے گزرنا پڑا! رام لعل کی یہ خوں نم خوں کتھا اپنے قاری کو کسی عمدہ ناول کی طرح جکڑ لیتی ہے، اور ذہن کے پردے پر وہ سب کچھ دکھا دیتی ہے۔

جو مصنف کے تجربات تھے۔۔۔ ہر الٹتے ورق کے ساتھ بے دخلی و بے دری کی الم ناکیاں اور رنج انتہا تک پہنچتا ہے۔ کہیں تو آتش خاموش لفظوں سے نکل کر جھلسانے لگتی ہے، کہیں ستم زدہ لوگوں کی آہ وبکا قرطاس کو پامال کر کے قاری کا دل چیر جاتی ہے۔ اس کتاب میں تصویر کوئی نہیں، لیکن لفظوں سے آگ وخون کے وہ مناظر استوار ہوتے ہیں کہ آنکھیں اشک بار ہوئے جاتی ہیں، اور تاریخ کی کاٹ مصنف کے لفظوں کے ذریعے بارہا کلیجے کے پار ہوئے جاتی ہے۔



یادیں اور خاکے اور اَن کہی کہانیاں
مصنفہ:سیدہ انیس فاطمہ بریلوی
صفحات:200 قیمت: 400روپے
ناشر: بزم تخلیق ادب، پاکستان، کراچی

یہ معروف صحافی مجاہد بریلوی کی والدہ کی تصانیف ہیں، بلکہ حفظ مراتب کے تحت انیس فاطمہ سے ان کے بیٹے کو شناخت کیا جانا چاہیے، جو ایک دو نہیں بلکہ 13 کتب کی مصنفہ تھیں، جن میں خاکوں پر مشتمل دو کتابیں یادیں اور خاکے (1968ء) اور اَن کہی کہانیاں (1970ء) یک جا کر کے دوبارہ شایع کی گئی ہیں۔ سماج کے عام اور ستم زدہ لوگوں کے اِن خاکوں میں عہد رفتہ کی گم گشتہ تہذیب زندگی کرتی ہے، میلوں ٹھیلوں کے قصوں سے یہاں انیسویں صدی میں بریلی میں پڑنے والے بدترین قحط کی بازگشت تک ہے، کہ جب والدین اپنے جگر گوشوں کی زندگی کے واسطے انہیں کہیں چھوڑ آتے یا فروخت کر دیتے۔

اس میں مصنفہ کے والد سے 'منظورن بوا' تک، سبھی کردار ان کی ذاتی زندگی کے ہیں، لیکن ان کے گہرے اور انداز بیان نے انہیں بے حد پُراثر اور اہم بنا دیا ہے۔ ڈاکٹر احسن فاروقی 'مقدمے' میں اس بابت لکھتے ہیں کہ نام وَروں کو لکھتے ہوئے خرابیوں کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے، جب کہ عام لوگوں پر لکھتے ہوئے کسی مصلحت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جس طرح سماج کے غریب اور پسے ہوئے طبقے پر حساس قلم کاروں کی کہانیاں اپنا گہرا اثر رکھتی ہیں، بالکل ایسے ہی ان خاکوں میں سچائی کے ساتھ تاریخی سماجیات مِن وعَن رقم کی گئی ہے، وہ ان خاکوں میں طبقاتی تقسیم کے تناظر میں سماج کے نچلے طبقے کا نہایت قریب سے جائزہ لیتی ہیں، پیٹ کے الائو سے لے کر تن ڈھانپنے تک انہیں کس کس طرح اپنی جان جوکھم میں ڈالنا پڑتی ہے، یہ سب انہوں نے نہایت باریک بینی سے سپرد قلم کیا ہے۔ ایسے ادب پاروں کو نئی نسل تک پہنچانے کی کوشش بلاشبہہ قابل ستائش ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں