''الوداع''
سال کے آخری مہینے کا
آخری دن تھا، آخری سورج
چند لمحوں میں ڈھلنے والا تھا
منتظر تھی میں کب وہ آئے اور
سرد موسم میں جاکے ساحل پر
میں دسمبر کو ڈوبتا دیکھوں
اور پھر ہاتھ تھام کر اس کا
جنوری کو خوش آمدید کہوں
سال کے
آخری مہینے کے
آخری دن میں منتظر ہی رہی
وہ نہ آیا بس ایک صفحے کا
الوداعی پیام بھیج دیا
آخری اک سلام بھیج دیا
سال کے آخری مہینے کا
آخری دن تھا
آخری سورج
چند لمحوں میں ڈھلنے والا تھا
آخری سانس لے رہی تھی میں
اور دسمبر گزرنے والا تھا
(سدرہ ایاز، کراچی)
۔۔۔
''معذرت ''
دسمبر خوب صورت تھا
مگر عہدِ جوانی میں
کھجوریں، ریوڑی، اخروٹ، کاجو اور
چلغوزوں سے بڑھ کر
جسم پر تانے لحافوں میں چھپے
ہاتھوں کی سرگوشی
بدن میں آگ بھرتی تھی
عجب دن تھے
کہ وی سی آر پر چلتی ہوئی
رومانوی فلموں کے ہیرو اور ہیروئن
ہمارے عشق کی سچی اداکاری پہ
ہم کو داد دیتے تھے
ہماری چائے ٹھنڈی ہو کے ہم کو گھورتی
اور ہم
فقط اک دوسرے کے منہ کو تکتے
مسکراتے اور کمرے سے نکل جاتے
دسمبر نوجواں جوڑوں کے
کمروں کو مبارک ہو
اگر کافی کے دو مگ
نیم تاریکی، بدن پر عین گردن تک کھنچے کمبل
نئی رومانوی فلمیں
محبت کی علامت ہیں
تو ہم اس عمر میں
ایسی کسی تقریب میں
شامل نہیں ہوتے
(کبیر اطہر، صادق آباد)
۔۔۔
''تلخ یادیں''
مری دیوانگی جب بھی قدم رکھے دسمبر میں
تو دل سے ہوک اٹھتی ہے
دسمبر۔۔۔
دیکھ اب دکھ سہنے کی مجھ میں نہیں سکت
مری آنکھوں کے آنسو کھو چکے ہیں روشنی اپنی
گئے لمحوں کے پنجے تلخ یادیں نوچ بیٹھے ہیں
تری وہ نرم خو دلداری دل میں جب دھڑکتی ہے
مری اجڑی ہوئی اس مانگ میں انگارے بھرتی ہے
مرے ہاتھوں کی گرمی میں گئے ہر پل کا ٹھہرا لمس
وہ محسوس کرتی ہے تو آتش داں سے اٹھتے شعلے بازو کھول دیتے ہیں
سماعت میں تری آواز کا رس گھول دیتے ہیں
میں اپنے آپ میں پھر زندگی محسوس کرتی ہوں
دسمبر۔۔۔
جانے کیوں تم اپنے اپنے لگنے لگتے ہو
تمہاری بے رخی کے جلتے موسم ہنستے ہیں مجھ پر
مری دیوانگی جب بھی قدم رکھے دسمبر میں
(یاسمین سحر، جہلم)
۔۔۔
''رشتہ دسمبر سے''
دسمبر سے نجانے درد کا یادوں کا کیا رشتہ ہے
موسم سرد ہو جائے تو زخمِ ہجر کیونکر چھلتا ہے؟
دھند، اوجھل یاد کا آلود مطلع صاف کرتی ہے
خنک راتوں میں دل کی آگ کے شعلے لپک کر
آسماں چھونے کی کوشش میں
بدن کو راکھ کرتے ہیں
ہمیں ہر شام ہی دکھ اوڑھ کے ملتی ہے لیکن جب
دسمبر ہو تو شامیں یوں اداسی کے لہو سے
رخ سجائے سسکیوں کے پیرہن اوڑھے یہاں دل میں اترتی ہیں
بدن میں زہر بھرتی ہیں
یہ بارش اس طرح لگتی ہے
جیسے زخم پر نمکین پانی مل رہے ہوں ابر کے ٹکڑے
ہمیں یوں بھی تو بارش زہر لگتی ہے
دسمبر قہر لگتا ہے
کوئی مانے یا نہ مانے مگر سچ ہے
دسمبر درد اوڑھے خون روتے ہجر زادوں کا مہینہ ہے
ٹھٹھرتی شام میں یہ سردیوں کی مہک میں لپٹے ہوا کے سرد سے جھونکے
بدن کی روزنوں سے جس گھڑی ٹکرانے لگتے ہیں
تو شدت سے ہمیں بچھڑے ہوئے
یاد آنے لگتے ہیں
(جاناں شاہ، ڈیرہ غازی خان)
۔۔۔
''انہی دنوں ہم''
نشے میں ڈوبا ہوا دسمبر
یہ دھند میں لپٹی جوان راتیں
یہ کپکپاتے ہوئے سویرے
یہی وہ رُت ہے کہ جس میں دل نے
تری نظر سے فریب کھائے
تری وفا پہ یقین کرکے
خوشی سے دونوں جہاں گنوائے
یہی وہ دن ہیں کہ جن میں جاناں
حسیں محبت کے معبدوں میں
تم ہمارے ''خدا'' ہوئے تھے!!!
انہی دنوں ہم ''تباہ'' ہوئے تھے!!!
(شاہ زیب نوید)
۔۔۔
''دسمبر یاد آتا ہے''
ہوا کا سرد جھونکا جب
مجھے چُھو کر گزرتا ہے
مری سوچوں کے درپن میں
دسمبرکی چٹکتی دھوپ
اک چہرہ بناتی ہے!
ٹھٹھرتے سرد موسم میں
صبا جب گنگناتی ہے
ہوا سیٹی بجاتی ہے
رگوں میں سرسراتی ہے
تو یوں لگتا ہے
کا لج کی کسی کینٹین میں بیٹھی
وہ پھر سے مسکرائی ہو
مری کافی کی پیالی سے
دھویں کے گرم بادل نے
کوئی صورت بنائی ہو!
کوئی خوش بو کی صورت بات
نہاں تھی جو میرے دل میں
مری آنکھوں سے پڑھ کر وہ
ذرا سا مسکرائی ہو
بس اک وہ خواب سا لمحہ
ہے رخت زند گانی جو
دسمبر کی خنک راتوں میں
اکثر یاد آتا ہے!
نہیں بھولا جسے اب تک
وہ منظر یاد آتا ہے!!
دسمبر یاد آتا ہے !!
(عاطف جاوید عاطف، لاہور)
۔۔۔
''مجھے تم بھول مت جانا''
دسمبر کا مہینہ بھی عجب تاثیر رکھتا ہے
یہ اپنی زرد شاموں میں کوئی تصویر رکھتا ہے
مجھے اب یاد پڑتا ہے
دسمبر کا مہینہ تھا
میں تنہا پیڑ کے نیچے
اکیلا شال میں لپٹا
کسی کو لکھ رہا تھا کچھ
ابھی بس پیار لکھا تھا
کسی نے دھیرے سے آ کر
میرے ہاتھوں کو تھاما اور
ذرا دو گرم سے آنسو
میرے ہاتھوں پہ آٹپکے
نہ جانے کیا حقیقت تھی
وہ بس اتنا ہی کہہ پائے
مجھے تم بھول جاؤ ناں
ہمارے پیار کے قصے
فقط اک خواب تھے جاناں
بکھرتے خواب میں تنہا
نہ تم یونہی جلا کرنا
سنو جاناں!
نیا جو سال آئے گا
نئے رشتے بنا لینا
نئے سپنے سجا لینا
تمہیں میری قسم جاناں
مجھے تم بھول جاؤ ناں
ابھی کچھ کہہ رہے تھے وہ
نہ جانے کیا ہوا ان کو
کہ پھر وہ ٹوٹ کر روئے
لپٹ کے میرے سینے سے
بہت ہی دیر تک پھر وہ
یونہی لپٹے رہے مجھ سے
یہی کہتے رہے مجھ سے
تمہیں میری قسم جاناں
مجھے تم بھول مت جانا
مجھے تم بھول مت جانا!!!
(نعمان بدر، قصور)
۔۔۔
''محبت''
سنو جانِ جاناں سنو
یہ ہوا سنسنا سن سی کانوں میں سُر گھولتی کہہ رہی ہے محبت بنو
اور دسمبر کا پیغام لاتے یہ پنچھی بڑے جوش سے اڑ رہے ہیں یہاں
اور پیلے سے پتوں کو پھر سے امیدِ سحر مل رہی
جانِ جاناں سنو
تم کو ہم مل چکے
ہم کو تم مل چکے
اور محبت کے گیتوں کی مالا بنی
سارے گاما پا دھا نی سا گاتے ہوئے
آسماں رک گیا
یہ زمیں چل رہی
قسمتوں میں لکھا سب چمکنے لگا
ایک ایسی کہانی بنانے لگی ساری دنیا خود اپنے ہی ہاتھوں سے
جس کا سِرا کچھ نہیں
ہو جہاں ختم جگ کی یہ ساری کہانی
وہاں سے ہماری شروع ہو چکی
جانِ جاناں سنو
ہو محبت مبارک تمہیں
تم کو ہم مل چکے
ہم کو تم مل چکے
(ماہ رخ علی ماہی، کراچی)
۔۔۔
دسمبر میں کہا تھا ناں کہ واپس لوٹ آؤ گے
ابھی تک تم نہیں لوٹے دسمبر لوٹ آیا ہے
٭٭٭
یہ سال بھی اداس رہا روٹھ کر گیا
تجھ سے ملے بغیر دسمبر گزر گیا
٭٭٭
مجھے کب فرق پڑتا ہے دسمبر بیت جائے تو
اداسی میری فطرت ہے اسے موسم سے کیا لینا
٭٭٭
وہ مجھ کو سونپ گیا فرقتیں دسمبر میں
درخت جاں پہ وہی سردیوں کا موسم ہے
٭٭٭
سرد ٹھٹھری ہوئی لپٹی ہوئی صرصر کی طرح
زندگی مجھ سے ملی پچھلے دسمبر کی طرح
٭٭٭
یکم جنوری ہے نیا سال ہے
دسمبر میں پوچھوں گا کیا حال ہے
٭٭٭
دسمبر کی شبِ آخر نہ پوچھو کس طرح گزری
یہی لگتا تھا ہر دم وہ ہمیں کچھ پھول بھیجے گا
٭٭٭
سامنے آنکھوں کے پھر یخ بستہ منظر آئے گا
دھوپ جم جائے گی آنگن میں دسمبر آئے گا
٭٭٭
مجھ سے پوچھو کبھی تکمیل نہ ہونے کی چبھن
مجھ پہ بیتے ہیں کئی سال دسمبر کے بغیر
٭٭٭
الاؤ بن کے دسمبر کی سرد راتوں میں
تیرا خیال میرے طاقچوں میں رہتا ہے
آپ کا صفحہ
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچۂ سخن'' ، روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین) ،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
email:[email protected]