منافرت کی آگ
سشما سوراج پر واضح ہونا چاہیے کہ ان کے اس پروپیگنڈے کا سکھوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
پاکستان نے کرتار پور دربار صاحب تک سکھوں کو زیارت کی سہولت فراہم کرکے ان کی ایک دیرینہ خواہش کو پورا کردیا ہے۔ یہ کارخیر اگرچہ پاکستان کی جانب سے محض مذہبی روا داری اور خدمت خلق کے جذبے کے تحت کیا گیا ہے مگر بدقسمتی سے بھارتی حکومت اسے سیاست اور منافرت کے سانچے میں ڈھالنے میں لگی ہوئی ہے۔ وہ تو شروع سے ہی اس راہداری کے کھولنے کی صریح خلاف تھی۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتی کہ سکھوں کی پاکستان آزادانہ آمد ورفت شروع ہوسکے۔
اسے ڈر ہے کہ کہیں خالصتان کی تحریک پھر سے جڑ نہ پکڑ لے حالانکہ پاکستان کا اس تحریک سے کوئی تعلق نہیں ہے، البتہ سکھ یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ وہ 2020 میں خالصتان کے مسئلے پر ریفرنڈم کرا کے ہی دم لیں گے خواہ بھارتی حکومت کتنا ہی شور کیوں نہ مچائے۔
پاکستانی موجودہ حکومت نے سکھوں کی تکلیف کو ضرور محسوس کیا کہ وہ چار میل دور بھارتی بارڈر سے دوربین کے ذریعے اس مقدس مقام کے درشن کرکے دل کی تسلی کرلیتے تھے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ سکھوں کے دلوں میں اس مقام تک پہنچنے کی جو جستجو اور تڑپ تھی اسے بھارتی حکومت گزشتہ ستر برس سے درگزر کرتی چلی آرہی تھی۔ اب وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے ہاتھوں اس مقدس زیارت گاہ تک راہداری کی تعمیرکا شاندار افتتاح ہوچکا ہے جس میں توقع سے زیادہ سکھوں نے شرکت کی ہے جب کہ بھارتی حکومت ایسا نہیں چاہتی تھی۔
نوجوت سنگھ سدھو نے اس راہداری کے کھلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے حالانکہ بھارتی حکومت اور وہاں کے میڈیا نے ان کی اس کوشش کو سبوتاژ کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا تھا ۔ بھارتی حکومت تو ان کے خلاف بہت کچھ کارروائی کرنا چاہتی تھی مگر چونکہ پوری سکھ قوم ان کے پیچھے کھڑی ہوگئی تھی ، چنانچہ بھارتی حکومت کو ہتھیار ڈالنا پڑے اور بھارت کی طرف سے کوریڈورکی تعمیرکا مودی کو بوجھل دل سے سنگ بنیاد رکھنا پڑا ، ویسے اس بھارتی فیصلے میں آنے والے انتخابات میں سکھوں کے ووٹ حاصل کرنے کی سیاست بھی کارفرما ہے۔ گوکہ اس راہداری کو بھارت کی جانب سے دہشت گردی کے خطرات لاحق رہیں گے مگر پاکستانی حکومت نے پھر بھی سکھوں کی خاطر یہ بولڈ قدم اٹھایا ہے۔
بھارتی حکومت کو تو ابھی سے یہ راہداری ایک آنکھ نہیں بھا رہی ہے اور وہ اس سے سکھوں کو بدظن کرنے کے لیے اسے پاکستان کا ایک سازشی منصوبہ ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے گگلی کے ریمارکس پر سشما سوراج نے ایک ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ بھارت ، پاکستان کی گگلی کا شکار نہیں ہوا۔ ان کے مطابق پاکستانی وزیر خارجہ کے گگلی والے ریمارکس نے پاکستان کے عزائم کو بے نقاب کردیا ہے وہ اس کوریڈور کے ذریعے سکھوں کو بھارت کے خلاف استعمال کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ کے اس ٹوئیٹ نے خود ان کے اپنے دل کا بغض اور بھارتی حکومت کی سکھوں اور پاکستان کے خلاف منافرت کو ظاہر کردیا ہے اور ساتھ ہی انھیں اس راہداری سے جو ڈر و خوف لاحق ہے اس کا بھی برملا اظہار کردیا ہے۔
سشما سوراج پر واضح ہونا چاہیے کہ ان کے اس پروپیگنڈے کا سکھوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور وہ پاکستان کے خلوص اور خدمت کے جذبے سے کسی طرح بھی متنفر نہیں ہوں گے البتہ وہ ان کے اس نفرت انگیز بیان سے ضرور بے زاری کا اظہار کریں گے کیونکہ وہ پہلے سے ہی بھارتی حکومت کے منفی رویے سے واقف ہیں اور راہداری کے کھلنے کو سبوتاژ کرنے کی بھارتی پالیسی سے بھی آگاہ ہیں۔ تاہم سشما سوراج کے سازشی ٹوئیٹ کا وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھرپور جواب دینا چاہیے تاکہ سکھوں کو پاکستان سے بدظن کرنے کی بھارتی مہم کو لگا دی جاسکے۔
بھارتی حکومت کی مکاری بھی دیکھنے کے قابل ہے کہ ایک طرف وہ اس راہداری کے خلاف ہے اور پاکستان کے خلاف مسلسل زہرافشانی کر رہی ہے مگر دوسری جانب وہ اس کے کھلنے کا خودکریڈٹ لہٰذا چاہتی ہے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اسے اپنی حکومت کا کارنامہ قرار دے رہے ہیں۔ بہرحال پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنا تو ہر بھارتی حکومت کا ہمیشہ وطیرہ رہا ہے۔ ممبئی حملوں کے ذریعے پاکستان کو بد نام کرنے کی اس کی ابھی بھی مہم جاری ہے۔ جہاں تک ممبئی حملوں کا تعلق ہے یہ سراسر پاکستان کے خلاف بھارتی سازش ہے۔
اب انکشاف ہوا ہے کہ اس سازش میں امریکا بھی شامل تھا، اگر امریکا اس میں شامل نہیں تھا تو پھر اسے اس مسئلے پر حد سے زیادہ دلچسپی لینے کی کیا ضرورت ہے۔ حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ مسٹر مائیک پومپیو نے ممبئی حملوں کے مجرموں کی نشاندہی کرنے کے لیے پاکستانیوں کو پچاس لاکھ ڈالر انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے پہلے بھی امریکی حکومت کی طرف سے پاکستانیوں کو ایسی آفر کی جاچکی ہے مگر ایسی پیشکشوں کا مطلب پاکستان اور پاکستانیوں کا امیج خراب کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
ان حملوں کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے اسی لیے مجرموں کو پاکستان میں آج تک تلاش نہیں کیا جاسکا ہے اور جن لوگوں پر یہاں اس سلسلے میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے وہ بالکل بے قصور ہیں اور اسی لیے اب تک ان کے ان حملوں میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا اور کوئی پاکستانی عدالت ان پر فرد جرم عائد نہیں کرسکی۔
امریکی وزیر خارجہ کو چاہیے کہ وہ ممبئی حملوں کے مجرموں کو پکڑنے کے لیے بھارتیوں کو انعام کی پیشکش کریں تو ضرور اس کا مثبت نتیجہ نکل سکتا ہے اور اصلی مجرم گرفتار کیے جاسکتے ہیں اس لیے اب ثابت ہوچکا ہے کہ ان حملوں میں بی جے پی کے غنڈے ملوث تھے اور بھارت سرکار کی انھیں مکمل حمایت حاصل تھی۔ اس راز کا ممبئی پولیس کا ایک سینئر افسر ہیمنت کرکرے بھی بھانڈا پھوڑ چکا تھا جس کی پاداش میں اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔
بدقسمتی سے اس وقت کی پاکستانی حکومت نے امریکی دباؤ میں آکر ان حملوں کو پاکستانی نان اسٹیٹ ایکٹرز کی کارروائی تسلیم کرکے سخت غلطی کی تھی۔ اس غلطی کا ملک و قوم کو نہ جانے کب تک خمیازہ بھگتنا ہوگا، تاہم اب ممبئی حملوں کے حقیقت پوری دنیا پر واضح ہوچکی ہے کہ یہ محض ایک بھارتی ڈرامہ تھا جس کا مقصد کشمیر کے مسئلے سے عالمی توجہ ہٹانا اور پاکستان سے اس مسئلے پر مذاکرات سے جان چھڑانا تھا۔ جہاں تک اجمل قصاب کا تعلق ہے اس کا ان حملوں میں کوئی کردار نہیں تھا اسے نیپال سے گرفتار کیا گیا تھا جس کی خود بھارتی صحافیوں نے تصدیق کی تھی مگر بھارتی حکومت نے اسے پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے ان حملوں کی بھینٹ چڑھادیا تھا۔
حقیقت ضرور ایک دن آشکار ہوکر رہتی ہے اور یہی ہوا ہے کہ ممبئی حملوں کی پاکستان کے خلاف منظم سازش کا جرمنی کے ایک یہودی محقق مسٹر الیاس ڈیوڈسن نے اپنی کتاب "The Betryal of India" کے ذریعے راز فاش کردیا ہے۔ اس نے کئی سال کی مسلسل تحقیق اور تفتیش کے بعد بھارت میں یہ کتاب مرتب کی ہے اور یہ بھارت میں ہی شایع ہوئی ہے۔ اس نے انکشاف کیا ہے کہ اس سازش میں بھارت کے ساتھ امریکا برطانیہ اور اسرائیل بھی شریک تھے۔ اس کتاب کی سچائی کو بھارت اب تک نہیں جھٹلا سکا ہے۔ پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ وہ اب اس معاملے میں معذرت خواہانہ رویہ ترک کرکے ان حملوں کی اصل حقیقت سے عالمی برادری کو آگاہ کرے تاکہ بھارتی دہشت گردی دنیا کے سامنے بے نقاب ہوسکے۔