سارک کانفرنس موثر یا غیر موثر
2018 سارک کانفرنس میں اللہ کرے خطے کے حالات بہتر ہوجائیں۔ یہ دونوں طرف کی بلکہ سب کی خواہش ہے۔
اگست 1983 میں نئی دہلی میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان، سری لنکا اور مالدیپ کے وزرائے خارجہ کی پہلی کانفرنس کا انعقاد اور اس کا افتتاح بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ہاتھوں ہوا، اس کانفرنس میں سارک تنظیم کی بنیاد کا پہلا پتھر رکھا گیا اور دستاویزات پر بھی دستخط کیے گئے جب کہ سارک کا تصور 1980 میں بنگلہ دیش کے صدر جنرل ضیا الرحمن مرحوم نے پیش کیا تھا اور 1985 میں باقاعدہ طور پر یہ تنظیم وجود میں آئی جسے ساؤتھ ایشین ایسوسی ایشن فار ریجنل کوآپریشن کا نام اور انگریزی کے لفظوں کے پہلے حروف کو یکجا کرکے ایک لفظ کا نام دے دیا گیا جو سارک کے نام سے مشہور ہوا، گویا یہ ساؤتھ ایشین کا مخفف ہے۔ 1981 میں کھٹمنڈو میں ساتوں ممالک کے خارجہ کے سیکریٹریوں کا اجلاس ہوا،کچھ عرصہ گزر چکا ہے جب اس میں افغانستان کی بھی شمولیت ہوگئی ہے۔
اس اجلاس میں مستقبل کے پروگراموں کو ترتیب دیا گیا۔ 1982 میں ڈھاکہ اور اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں مختصر اور طویل المعیاد منصوبوں کا تعین اور علاقائی تعاون کے بارے میں سب کی ایک رائے تھی۔اس تنظیم کے وجود میں آنے کی وجہ امن وسلامتی کا قیام اور اس کے فروغ کے لیے ممکنہ حد تک کوشش ہے، علاقائی ترقی کے لیے مسائل کو حل کرنے اور وسائل کو یکجا کرنا وقت کی ضرورت قرار دیا گیا ساتھ میں سارک میں جو ممالک شامل ہیں ان کے درمیان دوستی اور ہمدردی کے رشتے کو قائم کرنا، معاشی پسماندگی کے خاتمے کے لیے اقدامات اور زندگی کو بہتر بنانا تھا، لیکن اگر ہم پچھلی سارک کانفرنسوں کا جائزہ لیں تو کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا بلکہ بھارت کی تنگ نظری اور اس کا جارحانہ رویہ سامنے آیا ہے۔
جس کی مثال دسویں اور گیارہویں سارک کانفرنس میں نظر آتی ہے، یہ کانفرنس نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں 6 جنوری 2002 میں منعقد ہوئی تھی۔ اس وقت پاکستان کے صدر پرویزمشرف جب کہ بھارت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی تھے۔ خواتین حکمرانوں میں بنگلہ دیش کی وزیراعظم خالدہ ضیا اور سری لنکا کی وزیر اعظم چندریکا کمار اٹنگا تھیں۔ اس کے علاوہ مالدیپ کے صدر مامون عبدالقیوم اور نیپال کے وزیر اعظم شیر بہادر ڈیوبا بھوٹان کے وزیر اعظم کوانگ چک نے شرکت کی۔
کھٹمنڈو میں ہونے والی کانفرنس 1999 میں منعقد ہونی تھی لیکن بھارت کی ازلی نفرت، ہٹ دھرمی کے باعث اس میں دو سال کی تاخیر ہوگئی، چین میں خرابی موسم کے باعث جنرل صدر پرویز مشرف کو پہنچنے میں تاخیر ہوئی اس طرح پہلا دن ضایع ہوگیا جوکہ بھارت کی خواہش تھی، اسے بہانہ مل گیا، اس کے برعکس سابق صدر مشرف نے اپنے طور پر مخلصانہ کاوشوں کا سلسلہ جاری رکھا۔
6 جنوری 2002 کو بھی انھوں نے اپنے طور پر ایسی ہی کوشش کی اور کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں اپنی تقریر کے اختتام پر ڈائس سے اتر کر بھارتی وزیر اعظم سے ہاتھ ملانے کے لیے ان کے پاس پہنچ گئے اور بے لوث خلوص اور دونوں ملکوں کی آپس میں پیدا ہونے والی کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے مصافحہ کیا، تاکہ وقتی طور پر ہی حبس زدہ ماحول کا خاتمہ ہو، اور خوشگوار ماحول میں بات چیت ہوسکے لیکن بھارت نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ وہ پاکستان سے کسی طور پر مصالحت نہیں کرے گا، اگر اس نے اپنے سیاسی اور نفع بخش مقاصد میں ذرا بھی لچک دکھائی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ کشمیر کے موضوع پر بھی بات چھڑ جائے اور یہی بات انصاف کے تقاضوں کی تکمیل تک پہنچ جائے کہیں ایسا نہ ہو عالمی قوتیں پاکستان خصوصاً کشمیریوں کے ظلم کے خلاف آواز نہ بلند کریں۔
ایسی ہی سوچ بھارت کی ہے، کشمیریوں پر ظلم ڈھاتے ڈھاتے وہ آج تک نہیں تھکا ہے ہر روز کشمیری آٹھ اور دس کی تعداد میں شہید ہوتے ہیں۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کا سارک کانفرنس میں شرکت کرنا بھی بے سود ہے، جب کہ تنظیم کے اغراض ومقاصد میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا شامل ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف نے ہاتھ ملا کر دنیا کو حیران کردیا اور اس طرح ان کے وقار میں یقینا اضافہ ہوا لیکن فائدہ کچھ حاصل نہ ہوسکا جب کہ سری لنکا کی وزیر اعظم چندریکا کمار اٹنگا کی پرخلوص کوششوں سے صدر پرویز مشرف اور وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی میں غیر رسمی بات چیت ہوئی، جسے ایک بڑا بریک تھرو قرار دیا گیا۔
اس سے قبل بھی دسویں سارک کانفرنس کے موقعے پر بھارت نے اپنے ایسے ہی پسندیدہ عمل کا مظاہرہ کیا تھا۔ کولمبو کانفرنس میں کشمیر ایک بار پھر فلیش پوائنٹ بن کر سامنے آیا تھا اس کے ساتھ ہی پاکستان اور ہندوستان کے مابین خیرسگالی اور تین نکاتی فارمولا کے تحت ایٹمی دھماکوں سے ہونے والی ہلاکتیں اور اس کے اثرات، قیام امن اور دونوں ملکوں کے کشیدہ حالات کے حوالے سے بات کی گئی تھی۔
پاکستان کی مثبت اور مدلل گفتگو اور تجاویزکو سب نے پسند کیا بلکہ پاکستان کے موقف کی حمایت بھی کی، پاکستان اور بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد یہ پہلی سربراہ کانفرنس تھی خاص بات اس کانفرنس کی یہ تھی کہ پاکستان اور ہندوستان کے وزرائے اعظم نے ایک گھنٹے سے زیادہ عرصے تک گفت و شنید کی۔ جس میں کشمیر سمیت دوسرے متنازع مسائل پر بات کرنے کے لیے متفقہ فیصلہ کیا گیا اور خطے میں اقتصادی تعاون کے فروغ، منشیات کی اسمگلنگ، خواتین اور بچوں کے استحصال کے خاتمے کے لیے اقدامات کو ضروری قرار دیا گیا۔
ہرکانفرنس میں مثبت خیالات اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے عزم کیا جاتا ہے، تاکہ انسانی بنیادی حقوق سے کروڑوں لوگ فائدہ اٹھا سکیں لیکن ماضی اس قدر خوشگوار نہیں رہا ہے۔ بھارت نے ہمیشہ ہی ماحول میں تلخی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے گزرے دنوں میں جب آگرہ مذاکرات ناکام ہوئے تو اسی دوران عالمی اور خصوصاً برصغیر کی سطح پر دو اہم واقعات رونما ہوئے اور پاکستان و ہندوستان کے درمیان ایسے حالات پیدا کردیے کہ جیسے عنقریب جنگ چھڑ سکتی ہے۔
11 ستمبر 2001 کو امریکا تخریب کاری کی لپیٹ میں آیا تو اس کے کچھ ہی عرصے بعد بھارتی پارلیمنٹ پر دہشت گردوں نے حملہ کردیا تو اس حادثے کو ہندوستانی لیڈروں نے اپنی فطرت کے مطابق پاکستان سے منسوب کردیا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ انھوں نے یہ موقع تلاش کرلیا اور پھرکیا تھا کہ پاکستان سے فضائی، زمین اور ریل کے سفر کو منقطع کرکے لاکھوں پاک و ہند میں آنے جانے والے مسافروں کو پریشان کردیا۔ اس کے ساتھ ہی ہائی کمشنر کو واپس بلالیا اور ساتھ میں پاکستانی سرحدوں پر آٹھ لاکھ فوج بھی بھیج دی۔
اس کے بعد پاکستان کی طرف سے امن کی مسلسل کوششیں کی جاتی رہی ہیں لیکن بھارت نے جو موقف اپنایا ہے اس سے وہ ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں، بھارت کا غصہ اور ڈھٹائی کے چرچے طشت ازبام ہوچکے ہیں ۔ کرتار پورکوریڈورکے افتتاح کو تاریخی قرار دے دیا لیکن مذاکرات کرنے کے لیے رضامند نہیں وہ جانتے ہیں کہ انھوں نے ستمگری کی حدوں کو چھولیا ہے اب اگر مذاکرات کی میز پر بیٹھ جاتے ہیں توکشمیر پر بات ہوگی، لاکھوں بے گناہ نہتے کشمیری شہید نوجوانوں کا تذکرہ آئے گا۔ ظلم کی داستان زبان زدعام ہوجائے گی اور وہ اپنی دہشت گردی جوکہ بلا جواز ہے اس کا جواب دینے سے قاصر ہیں، اسی لیے فرارکی راہ اختیار کرنا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ امن پسند ملک پر الزام لگانا بھی ان کی مجبوری ہے جھوٹ کا سہارا لے کر اپنے عیبوں پر پردہ ڈالنے کی سعی ہے ۔
2018 سارک کانفرنس میں اللہ کرے خطے کے حالات بہتر ہوجائیں۔ یہ دونوں طرف کی بلکہ سب کی خواہش ہے۔ ہندوستان کے وزیر اعظم کو بھی دعوت دی گئی ہے کہ وہ سارک کانفرنس میں شرکت کریں لیکن مودی صاحب کسی طور پر راضی نہیں ہیں۔