نیا پاکستان اور معاشی مشکلات
ہمارے ملک کا بیانیہ ہماری عوام کی سوچ و فکر کی عکاسی نہیں کرتا۔
ہمارے میاں صاحب نے وہ کمال کیے ہیں جن کی سزا آج ہم بھگت رہے ہیں۔ ایسا کہنا خود چھوٹی مدت کے پس منظر میں ہے ورنہ سچ تو یہ ہے کہ ان کمالات کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ خان صاحب کے ان تین مہینوں میں ملک کے مجموعی قرضوں میں ایک ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ یعنی کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔ ملک کے مجموعی قرض جو تیس ہزار ارب تھے اب اکتیس ہزار ارب ہوچکے ہیں۔ آپ کے آنے سے ڈالر کی قیمت میں بیس رو پے کا اضافہ ہوا اسی طرح بجٹ کے خساروں میں بھی۔ میاں صاحب کے زمانے میں ہر سال ایک ہزار ارب کے لگ بھگ بجٹ کا خسارہ تھا اور اس کے علاوہ اربوں ڈالر کے قرضے تھے جو کبھی اس حیلے تو کبھی اس بہانے لیے گئے۔
آخر مصنوعی طریقوں سے اس ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر اٹھارہ ارب ڈالر جو دکھانے تھے۔ اور یوں آج یہ ملک ایک سو ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ ان قرضوں میں بڑی مدت والے قرض کم اور چھوٹی مدت والے قرضے زیادہ ہیں۔ اسی طرح رواں مالی سال میں ہمیں اٹھائیس ارب ڈالر کے قرضوں کی اقساط سود کی مد میں ادا کرنے ہیں۔ ہمارے میاں صاحب پر شیر شاہ سوری کی طرح راستوں کے جال بچھانے کا جنون سوار تھا۔ یہ پروجیکٹس بھی برے نہیں اگر قرضہ مقامی ہو۔ اتنے میگا پروجیکٹس، روڈ و راستے بڑے بڑے شاہانہ ایئرپورٹ، ٹرینوں کے جال وغیرہ وغیرہ اور وہ بھی سب بیرونی قرضوں سے!!!
2013ء میں ہمارے بیرونی قرضے ایکسپورٹ کے تناسب سے 193 فیصد تھے اور اب یہ 411% ہیں۔ میاں صاحب اور ان کی حکومت عوام کو یہ بتاتی رہی کہ ہمارے امپورٹ بل اس لیے بڑھے کہ ہم سی پیک کی مد میں مہنگی مشینری منگوا رہے ہیں جس سے ہماری مجموعی پیداوار بڑھے گی اس لیے ایسی امپورٹ ایک اچھی علامت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میاں صاحب کے حکومت میں ہماری ایکسپورٹ کیوں کم ہوئی؟ یہ سب ایک window ڈریسنگ تھی۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ 2013ء سے لے کر خان صاحب کی حکومت آنے تک، حکومت کو چلانے کے حوالے سے جو اخراجات تھے وہ دگنے ہو گئے۔ اتنے شاہانہ بیرونی ملکوں کے دورے اور اتنے شاہانہ اخراجات تو پھر ایسا ہی ہونا تھا ۔
اب ہماری حکومت کی کیا اسٹرٹیجی ہونی چاہیے؟ سب سے پہلے جن سو ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کے دلدل میں ملک پھنسا ہوا ہے ان قرضوں کو آدھا کرنا ہے۔ ایکسپورٹ بڑھانی ہے۔ ٹیکس کے نظام کو بہتر کرنا ہے۔ میاں صاحب کا نعرہ تھا قرض اتارو ملک سنوارو۔ دیکھا جائے تو قرضے لینا کوئی بری بات نہیں مگر اس بات کا احتساب ہونا ضروری ہے کہ کیا قرضوں کا صحیح استعمال ہو رہا ہے۔ میاں صاحب بھی کشکول لے کے نکلے تھے جس طرح آج ہم ڈیم بنانے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ پھر نہ جانے کیا ہوا وہ جمع کیے ہوئے پیسے کہاں صرف ہوئے۔ کچھ خبر نہیں۔ پھر ہم نے اپنے بینک بیچئے۔ جب یہ بینک سرکاری نہ رہے تو سیاستدانوں کو خوب قرضے دیے گئے۔
جنرل ضیاء الحق نے اس پلاننگ کا خوب استعمال کیا ان بینکوں سے اپنے اقرباء کو قرضے دلوائے اور ان بینکوں کا دیوالیہ کیا۔ قرضے رائٹ آف ہوئے۔ پھر ہم نے اپنا ٹیلیفونک نظام دبئی کی ایک کمپنی کو بیچ ڈالا۔ اربوں اور کھربوں کی ریئل پراپرٹی تھی، جس طرح سے ریلوے کی ہے۔ انھوں نے ہمیں ڈالر دیے اور پھر ہمارے اربوں کھربوں کی زمینیں بکنا شروع ہوئیں۔ بلآخر کورٹ کو بیچ میں آنا پڑا۔ ہمارے شوکت عزیز بھی اسٹیل مل کو بیچنے کے بہانے سے اس کی کھربوں کی زمین جو ہزاروں ایکڑ ز پر محیط ہے کسی من پسند آدمی کو بیچ رہے تھے۔ بظاہر یہ دکھایا گیا کہ زمین کو خریدنے والی پارٹی بیرونی ہے لیکن اصلیت میں وہ ایک ڈمی پارٹی تھی لہذا کورٹ نے مداخلت کی اور ڈیل کینسل ہوئی۔ اور پھر جنرل مشرف نے ہمارے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی یہ جرأت دیکھ کر ان کو گھر بھیج دیا۔
ہم دراصل کیپٹلسٹ دنیا میں رہتے ہیں۔ ہم اس کا لاشعور ہیں حب الوطنی کی باتیں ضرور کی جاتی ہیں لیکن اس کا اطلاق ہمارے شرفاء پر نہیں ہوتا ۔کیا کوئی پوچھے گا اسٹیٹ بینک کے گورنر سے کہ ایک دن میں ڈالر دس روپے کیسے مہنگا ہو گیا۔ اگر ڈالر مہنگا ہونے کی انفارمیشن میرے پاس ہو اور میں ٹرمپ جیسا لالچی انسان ہوں اور اسی ریاست کا حصہ ہوں تو میں کیا کروں گا یقینا میں ڈالر کا ذخیرہ پہلے سے ہی کر لوں گا اسی طرح جب ہم نے ہندوستان کی ضد میں آ کر ایٹمی دھماکا کیا تھا تو ہمیں اپنے لوگوں کے ڈالر اکائونٹ منجمد کرنے پڑے تھے اور یہ انفارمیشن جس کے پاس پہلے پہنچی ہو گی تو سوچیں اس نے کیا کیا ہو گا۔
آج یہ انفارمیشن ہمارے اسٹاک ایکسچینج کے پاس ہے۔ وہ کیپٹلسٹ انڈیکٹر سے، اپنے اتار چڑہائو کے بارے میں بہت کچھ بتاتا بھی ہے اور بہت کچھ چھپاتا بھی ہے۔ کچھ پتہ نہیں ڈالر کب اور کہاں سے آ رہا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے پاس سوائے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے کوئی اور راستہ نہیں اور آئی ایم ایف کی شرائط مانتے مانتے یہ حکومت انجام کار اپنی مقبولیت کھو دے گی۔ آج اعظم سواتی چلے گئے۔ کل اسد عمر جائیں گے مگر ذلفی بخاری اپنی کرسی پر محفوظ رہیں گے اور پچاس لاکھ گھر بھی بنائیں گے ان کو اربوں اور کھربوں کی زمین کوڑیوں کے بھاؤ دی جائے گی۔
اب ہماری نیشنل سیکیورٹی کے سامنے balance of payment کا مسئلہ سامنے آ گیا ہے جس طرح ہماری نیشنل قیادت اومنی گروپ کے گرد گھوم رہی ہے اسی طرح فیڈرل قیادت کسی اور گروپ کے گرد۔ یہ کمپنیاں آف شور ہو ں یا ان شور ہوں۔ قومی مفاد ات کی بہ نسبت ہمیں اپنے ذاتی مفادات زیادہ عزیز ہیں ہم اپنے ذاتی مفاد کو قومی مفاد کا لبادہ اوڑھاتے ہیں۔ ہمارے پاس اب بیچنے کے لیے بھی کچھ بھی نہیں اگر کچھ ہے بھی تو ایسی پارٹیوں کے اندر ان لالچی کمپنیوں کے proxies بیٹھے ہیں۔
ہو سکتا ہے انڈوں، کٹوں اور دیسی مرغیوں سے ہمارے ملک کی قسمت بدل جائے مگر یہ بات کہنے کے لیے یہ وقت مناسب نہ تھا نہ ہی یوٹرن لینے کی بات اس وقت کرنا مناسب تھی۔ نہ ہی اس بات کی ضرورت تھی کہ ہٹلر اور موسلینی کو ہیرو بنا کر پیش کرنے کی ضرورت تھی۔ روز کوئی نہ کوئی ایک مزاحیہ بیان سننے کو ملتا ہے اس وقت کا تقاضہ یہ نہیں کہ غیر سنجیدہ باتیں کی جائیں اور حقیقت سے دور آئیڈیاز کو پیش کیا جائے۔ یہ وقت بہت سنجیدہ وقت ہے اور سنجیدگی سے ملکی مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ balance of payment کا ہے جس کو Disbalanced میاں صاحب کے دور اقتدار میں کیا گیا۔ ہماری معیشت دن بہ دن سکڑتی جارہی ہے ،آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں اور پھر ان کی کڑی شرائط، ہمارے ریاست کے اداروں میں تضادات ان سب کا خمیازہ صرف غریب عوام کو ہی بھگتنا پڑے گا۔
ہمارے ملک کا بیانیہ ہماری عوام کی سوچ و فکر کی عکاسی نہیں کرتا۔ بڑی مشکل سے ہم نے مذہبی انتہا پسندی پر قابو پایا تھا اور اب ایک معاشی طوفان کا سامنا ہے۔ ہمارے دشمن اس ملک کو معاشی جنگ میں الجھانا چاہتے ہیں اور ہماری قیادت اس بات سے شاید بے خبر ہے۔ اس ملک کو بچانے کے لیے ہم سب کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا ہوگا۔ دن دوگنی رات چوگنی محنت کرنی ہوگی تاکہ اس ملک کو اس معاشی طوفان سے بچایا جاسکے۔ ہمارے ملک کے دشمن کہیں باہر نہیں بلکہ اندر ہی ہیں۔ اس ملک کی معاشی مضبوطی ہی اس کو تمام عناصر سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔