10 دسمبر یومِ انسانی حقوق اور انسانیت کے دشمن
انھیں مطلوبہ وقت دیا گیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ وہ دیے گئے وقت میں خود کو کلیئر کروائیں
عالمِ مغرب کے انداز بھی نرالے ہیں۔ دس دسمبر کا دن بھی مغربی دُنیا ہی نے ''یومِ انسانی حقوق'' کے لیے مختص کررکھا ہے۔ لیکن یہ مغرب اور امریکا ہی ہیں جنہوں نے ہمیشہ انسانی حقوق کی پامالی کی ہے ۔ برطانوی سامراج نے برِ صغیر میں مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے اور انسانی حقوق کی بے حرمتی کی، اِسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ حالیہ تاریخ میں سوویت رُوس نے افغانستان میں اور پھر امریکا ''بہادر'' نے افغانستان سمیت عراق و شام اور لیبیا میں انسانی حقوق کو پاؤں تلے روندا ہے، ہم ان ممالک کو انسانیت کا ہمدرد نہیں کہہ سکتے ۔
یہاں تک ہی نہیں ، یہ طاقتور مغربی ممالک کمزور خطّوں میں انسانی حقوق روندنے والی قوتوں کی ہمنوائی بھی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر بھارت پچھلے71برسوں سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کا خون کرتا چلا آرہا ہے لیکن مجال ہے کہ امریکا ، بھارت، کینیڈا، یورپی یونین اور دیگر مغربی ممالک بھارت کا ہاتھ روکنے کی کوئی سبیل کریں۔ مزید ستم یہ ہے کہ ہمارے ملک میں انسانی حقوق کا دَم بھرنے اور انسانی حقوق کے نام سے اپنے پیٹ بھرنے والی تنظیمیں بھی کھل کر کشمیریوں کی آواز میں اپنی آواز ملانے سے انکاری ہیں ۔ شائد اسلیے کہ جن مغربی مراکز سے انسانی حقوق کی ان تنظیموں کو فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں۔ ان تنظیموں میں مقامی این جی اوز بھی شامل ہیں اور آئی این جی اوز(انٹرنیشنل غیر سرکاری تنظیمیں) بھی۔
پاکستان،پاکستانی عوام، پاکستانی قانون اور پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کو مگر ایسی عالمی این جی اوز سے کوئی اعتراض نہیں ہے جو خالص انسانی بنیادوں پر ، پاکستان کے مروجہ قوانین کی پابندی کرتے ہُوئے، مثبت کام کر رہی ہیں۔ مگر جب کوئی عالمی این جی اواپنی متعینہ حدود سے تجاوز کرتی ہے تو لا محالہ پاکستان کے متعلقہ اداروں کو اُن کے خلاف حرکت میں آنا پڑتا ہے۔ یہ صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ دُنیا کے تمام ممالک اپنی سیکیورٹی اور سلامتی کے لیے ایسے ہی اقدامات کرتے ہیں۔کئی بار ایسا بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ عالمی این جی اوز درپردہ پاکستان کے مفادات کے خلاف بروئے کار آتی ہیں۔ اُن کا کردار ہاتھی کے دانتوں کی طرح ہے ۔
کھانے کو اور ، دکھانے کو اور؛ چنانچہ ملکی مفادات اور سلامتی کے تقاضے یہی ہیں کہ ایسی عالمی تنظیموں کے راستے مسدود کر دیے جائیں اور انھیں ملک سے نکل جانے کو کہہ دیا جائے۔ مہذب سفارتی آداب بھی یہی ہیں۔گذشتہ حکومت کے دوران وزیر داخلہ، چوہدری نثار علی خان، نے پاکستان میں کام کرنے والی کئی عالمی این جی اوز کے مشکوک کردار کے پیشِ نظر انھیں ملک سے نکل جانے اور بوریا بستر سمیٹ لینے کے احکامات جاری کیے تھے ۔
اس مقصد کے لیے ایک قانونی فریم ورک کا اجرا بھی کیا گیا تھا۔ مشاہدے میں یہ بات آئی تھی کہ 2015ء سے قبل کئی عالمی این جی اوزبڑی کامیابی کے ساتھ ہمارے سماج کے مختلف سیکٹرز میں گھس چکی تھیں اور اپنے ڈونرز کے مفادات کاتحفظ کررہی تھیں۔ چنانچہ پالیسی فریم ورک طے ہونے کے بعد فیصلہ کیا گیا تھا کہ تمام عالمی این جی اوز کا تنقیدی نظر سے جائزہ لیا جائے اور انھیں قانون کے دائرے میں لایا جائے۔ اور یوں گہرے غوروفکر کے بعد ''آئی این جی اوز پالیسی 2015ء'' تشکیل دے گئی ۔ یہ بڑا ہی شاندار اقدام تھا۔ حکم دیا گیا تھا کہ پاکستان میں کام کرنے والی تمام عالمی این جی اوز خود کو رجسٹر کروائیں۔
معلوم ہُوا ہے کہ نئی آئی این جی اوز پالیسی کے تحت ابھی تک صرف145عالمی آئی این جی اوز نے وزارتِ داخلہ میں خود کو رجسٹر کروانے کے لیے درخواستیں دی ہیں۔ اور جب ان کا دقتِ نظر سے جائزہ لیا گیا تو انکشاف ہُوا کہ ان میں سے 63ایسی عالمی این جی اوز ہیں جو پاکستان کے مفادات، پاکستان کی سلامتی اور پاکستان کے بنیادی نظرئیے کے خلاف کام کررہی ہیں۔ متعلقہ وزارتوں نے جب ملک کے حساس اداروں کے تعاون سے ان کا تعاقب کیا تو مزید کئی انکشافات ہوتے چلے گئے؛ چنانچہ ان میں سے49عالمی آئی این جی اوز کو نوٹس دیے گئے، یہ کہہ کر کہ وہ پاکستان میں اپنے تمام آپریشنز بند کردیں اور رخصت ہو جائیں۔ یہ نوٹس دوبار دیے گئے ۔ پہلی بار نومبر2017ء میں اور دوسری بار اگست 2018ء میں۔ان میں 18ایسی آئی این جی اوز تھیں جنہوں نے وزارتِ داخلہ کے بھیجے گئے نوٹسز کے خلاف اپیلیں کیں ۔
انھیں مطلوبہ وقت دیا گیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ وہ دیے گئے وقت میں خود کو کلیئر کروائیں۔ اُن کی اپیلیں سننے کے لیے ایک سپیشل کمیٹی تشکیل دی گئی تھی تاکہ سارے معاملات خوش اسلوبی اور انصاف سے طے پائیں۔ جب مذکورہ عالمی این جی اوز خود کو متعلقہ اتھارٹی کے سامنے کلیئر نہ کر سکیں تو 18کو صاف الفاظ میں کہہ دیا گیا کہ وہ ملک میں اپنے تمام کام بند کردیں۔ دو ماہ پہلے انھیں دوبارہ نوٹس جاری کیے گئے کہ وہ اپنے اپنے بستر سمیٹ لیں۔اس کے ساتھ ہی باقی عالمی این جی اوز کو بھی وقت دیا گیا کہ وہ بھی خود کو وزارتِ داخلہ میں رجسٹر کروائیں۔
ماضی کی طرح ان عالمی این جی اوز نے سُنی، اَن سُنی کر دی۔ حالیہ ایام میں انکشاف ہُوا ہے کہ ان میں سے40عالمی این جی اوز ایسی ہیں جنہوں نے پاکستان کی وزارتِ داخلہ میں خود کو رجسٹر کروانے کا سرے سے تکلّف ہی نہیں کیا تھا۔ بعض ریاستی اداروں کے مشاہدات اور تجربات میں یہ بھی آیا ہے کہ نان رجسٹرڈ عالمی این جی اوز پاکستان مخالف سرگرمیوں میں بھی ملوث ہیں۔مبینہ طور پر ان میں سے بعض پاکستان کے ووٹنگ پراسیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش بھی کر تی رہی ہیں۔
بعض مبینہ طور پر اسٹرٹیجک سائیٹس کی جاسوسی کرتی اور غیر قانونی ڈیٹا اکٹھی کرتی بھی پائی گئی ہیں۔واقعی اگر یہ الزامات درست ہیں تو ایسی عالمی این جی اوز کو پاکستان میں کام کرنے اور اپنے سازشی جال بچھانے کی ہر گز اجازت نہیں ہونی چاہیے ؛ چنانچہ 7دسمبر2018ء کو نصف درجن سے زائد عالمی این جی اوز کو پاکستان سے فارغ کر دیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کی وزیر ، محترمہ ڈاکٹر شیریں مزاری، نے بھی ایک ٹویٹ کے ذریعے اس کی تصدیق کر دی ہے۔یہاں اس بات کا ذکر خاص طور پر کیا جانا چاہیے کہ رواں لمحوں میں حکومتِ پاکستان نے اپنے ہاں 81عالمی این جی اوز کو کام کرنے کی اجازت بھی دے رکھی ہے ۔ ان میںامریکا کی20، برطانیہ کی14، جرمنی کی11شامل ہیں۔ یہ تنظیمیں پاکستان بھر میں عوام کے لیے ترقیاتی اور بہبودی منصوبوں پر کام کررہی ہیں۔ انھیں کوئی پریشان کرتا ہے نہ اُن کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں۔یہ بہرحال نہیں ہو سکتا کہ عالمی غیر سرکاری تنظیموں کو پاکستان میں شتر بے مہار کی طرح دندنانے کی اجازت دی جائے اور یہ خود کو ہماری وزارتِ داخلہ میں رجسٹر بھی نہ کروائیں۔ اگر انھیں انسانوں اور انسانیت کی خدمت بجا لانی ہے تو متعلقہ قوانین کی پابندی بھی کرنا ہوگی ۔ یومِ انسانی حقوق کا ایک پیغام یہ بھی ہے۔