لاہوریات سُچل دوسرا اور آخری حصہ
رات کو میں نے آئین تیار کیا اور دن میں کچھ اور تیاریاں کرکے شام کو ہلال خان کے یہاں میٹنگ شروع ہوئی۔
وہ کیسے ہلال خان نے پوچھا ، سب سے پہلے تو یہ سمجھ لوکہ یہاں کوئی یونین نہیں ہے، اگر کچھ پیسہ دیا ہے تو وہ واپس لیا جائے گا ۔ وہ حساب ویلفیئر ایسوسی ایشن میں پیش کیا جائے گا اور اب بنے گا آئین۔ اس ایسوسی ایشن کا۔ وہ کون بنائے گا راحت نے پوچھا۔ میں بنائوںگا، میں نے کہا ۔ آج رات بن جائے گا، کل اسی وقت میٹنگ ہوگی اور وہ آئین پاس کیا جائے گا جو لوگ آج نہیں آئے کوشش کرکے کل ان کو بھی آپ لوگ لائیں۔ سارے لوگ خوش ہوگئے اور چائے پی کر روانہ ہوگئے۔
رات کو میں نے آئین تیار کیا اور دن میں کچھ اور تیاریاں کرکے شام کو ہلال خان کے یہاں میٹنگ شروع ہوئی۔ آج بہت لوگ آئے تھے۔ میں نے نام رکھا تھا انگوری باغ ویلفیئر سوسائٹی اور پھر شق وار پورا آئین پڑھ اور سارے عہدوں صدر سے سیکریٹری اطلاعات تک کام اور طریقہ کار پڑھ کر بتائے پھر قرارداد پڑھی جو آئین کی منظوری کے بارے میں تھی جو میں لکھ کر لایا تھا۔ پھر اس پر سب سے دستخط کروائے ایڈرس کے ساتھ۔
لوگوں نے پوچھا اب کیا ہوگا۔
میں نے کہا اب یہ رجسٹرار آفس لے جانا ہے اور رجسٹریشن سرٹیفکیٹ لینا ہے۔ اس کی فوٹو اسٹیٹ تصدیق کرواکے لانا ہے۔ رجسٹرار آفس سے پھر الیکشن ہوںگے سب کے صدر سے سیکریٹری اطلاعات تک یہ کام جتنا جلد کرلو اچھا ہے ۔ پھر ہم اس کمپنی کو نکال باہر کریںگے جو زبردستی یہاں بیٹھی ہے۔ ہلال خان نے کہا یہ کام کل ہوجائے گا سر آپ کو ساتھ چلنا پڑے گا ،کل سرٹیفکیٹ میں لے کر آئوںگا۔
دوسرے دن صبح ہم رجسٹرار آفس پہنچے وہاں ایک تیار شدہ چھپا ہوا آئین موجود تھا جو خریدنا ضروری تھا، اس میں بنیادی چیزیں تھیں کچھ کالم خالی تھے پرکرکے اپنے آئین کے ساتھ جمع کروادیا۔ ہلال خان نے کہا چلو چائے پیتے ہیں۔ میں نے کہا اب چلو۔ ہلال خان نے کہا:
''سر ،آپ کام ختم ہوگیا میرا کام شروع چائے پی کر آتے ہیں۔''
ہم سب سمجھ سکتے ہیں کہ کیا ہوا ہوگا ایک گھنٹے بعد فریم کیا ہوا سرٹیفکیٹ اور اس کے ساتھ تصدیق شدہ آئین راحت نے مسکراتے ہوئے جھک کر مجھے پیش کیا۔ میں نے کہا:
'' ہلال خان تم دو نمبری ہو۔''
نہیں سر ،کہنے لگا سر دو نمبری تو نہیں ہوں۔ میں نے کہا تھا کل سرٹیفکیٹ لیںگے، لے لیا شام کو، میں نے اجلاس میں سب کو سرٹیفکیٹ دکھایا اور کہا اب آپ کورٹ تک میں لڑسکتے ہیں۔ میرا کام ختم ہوگیا۔ اس کام سے کوئی ناراض ہوا ہے تو معذرت۔ میں ناانصافی دیکھتے ہوئے اسے برداشت نہیں کرسکتا۔ اب آپ اپنے میں سے الیکشن کمشنر چن لو اور الیکشن کروالو۔
تھوڑا سا وقفہ ہوا میں نے سگریٹ سلگائی پھر ہلال خان نے کہا:
سر الیکشن کمشنر ہم نے طے کرلیا ہے۔ میں نے حیرت سے کہا آپس میں کوئی بات کیے بغیر کہنے لگا سر بات ہوگئی۔ میں نے کیسے؟ کہنے لگا آنکھوں آنکھوں میں ، مجھے ہنسی آگئی کہنے لگا سر آپ ریڈیو پر بولتے ہیں تو ہم سنتے بھی ہیں ۔میں نے کہا اچھا بتائو نام تاکہ یہ سب کاغذ اس کے حوالے کردیں۔ کہنے لگا آپ ہی رکھیں آپ ہی الیکشن کمشنر ہیں۔ میں، حیرت سے میں نے کہا، یار اب مجھے چھوڑو تم لوگ کام سنبھالو۔ راحت نے کہاکہ سر یہ اور سکھا دیں پھر ہم سنبھال لیںگے ادھر ڈیوٹیاں پروگرام ادھر سلسلہ مشکل تو تھا، ستار سید، محمد شفیع پروڈیوسر بعد میں اعلیٰ عہدوں سے ریٹائرڈ ہوئے وہ بھی ہیں، بستی میں رہتے تھے۔
محمد شفیع کے شاید دو فلیٹ تھے، خالد حیات انجینئر، میری گلی میں گرائونڈ فلور پر اپنے خاندان کے ساتھ رہتے تھے۔ ریڈیو کے ایک اور معروف صدا کار جن کا نام یاد نہیں رہا وہ بھی یہی رہتے تھے ان کے صاحبزادے اب کراچی ریڈیو پر ہیں۔ اب الیکشن کے رولز بنائے۔ کاغذات نامزدگی داخل کرنے، واپس کرنے کی تاریخیں پسندیدہ نشانات، الیکشن کی تاریخ، الیکشن مہم ختم کرنے کی تاریخ، فیس نامزدگی وغیرہ بیلٹ پیپر کی تیاری، الیکشن نمایندوں کے ایجنٹس کے لیٹر وغیرہ تمام مرحلے طے کرنے میں تقریباً ہفتہ لگ گیا۔
کالونی میں رات دن شور شرابا، الیکشن کے بینر، ہاتھ والے لائوڈ اسپیکر، انائونسمنٹ یہ سب رات نو بجے تک الائو کیا تھا اور ہوتا رہا۔ ہلال خان نے صدر کا انتخاب لڑا اور ریڈیو اپنا انتخابی نشان۔ الیکشن والا دن آیا۔انگوری باغ کے قریب بادامی باغ پولیس اسٹیشن سے پولیس وہاں الیکشن آفس میں تعینات کی گئی، میں بحیثیت الیکشن کمشنر نگرانی کررہاتھا۔ صبح نو بجے پولنگ شروع ہوئی، ہلال خان نے سب کچھ کھانے پینے کا بندوبست کر رکھا تھا۔ اس کا گوئے کا کارخانہ تھا وہ مالدار تھا۔
ووٹنگ شروع ہوئی ایک ووٹر پر ایک ایجنٹ نے اعتراض کیا یہ یہاں کا رہنے والا نہیں ہے۔ میں نے شناختی کارڈ مانگا ، نہیں تھا۔ میں نے کہا، آپ ووٹ نہیں ڈال سکتے باہر واپس جایے وہ باہر گیا۔ ہلال خان کو ساتھ لے کر آیا، ہلال خان نے کہا سر میں اسے جانتا ہوں میں نے کہا آپ کون ہیں۔ کہا سر ہلال خان، صدرکا الیکشن لڑ رہا ہوں۔ میں نے کہا:
''آپ اندر کیسے آئے اور پولیس والے سے کہا انھیں باہر نکال دیں۔''
پولیس کا انتظام بھی ہلال خان نے کیا تھا، پولیس والا پیار سے ہلال خان کو باہر لے گیا اور وہاں اس سے کہا ''سوری یار ہلال کچھ نہیں ہوسکتا اے بندہ بڑا سچل ہے یہ سب نے باہر سنا اور زندہ باد کے نعرے لگائے، الیکشن ختم ہوا۔ نتائج مرتب ہوئے اور ایک کنستر کے اوپر کھڑے ہوکر میں نے ملگجی شام میں اعلان کیا۔ ہلال خان صدر ، راحت جنرل سیکریٹری اور دوسرے لوگ بھی ،کالونی میں شور مچ گیا۔ جشن کا سماں، مٹھائیاں، چائے اور نہ جانے کیا کیا، میں نے ریڈیو پروگراموں کے ذریعے ریڈیو لاہور سے انگوری باغ کی جنگ لڑی جس کی کہانی پھر کبھی سنائوںگا۔
جب میں اس کالونی میں آیاتھا تو کوارٹر یا فلیٹ 800 روپے میں مل رہا تھا آرام سے جب میں واپس حیدر آباد آیا تو اس وقت قیمت پندرہ ہزار اور جب دو سال بعد اپنے بیٹے کے ساتھ گیا تو قیمت 45 ہزار تھی کیونکہ میں نے وہاں بہت کام کیا تھا جس کی تفصیل بشرط زندگی عرض کروںگا۔ یہ صرف میری کہانی نہیں غریب محنت کش جد وجہد کرنے والوں کی کہانی ہے۔ میں اس کا ایک کردار ہوں۔ جب وہاں مقیم تھا تو میری دوستی آفتاب ایڈووکیٹ اور ہلال خان سے بہت تھی۔
گیارہ بجے رات ٹرانسمیشن آف کرکے بارہ بجے پہنچتا تو یہ عالم سر خوشی میں کالونی کے گیٹ پر میرے منتظر ہوتے، گاڑی روکتے، ڈرائیور کو کہتے جائو، پھر مجھے باہر ہوٹل پر لاتے، مرغی بنواتے اور نشہ دو بالا مرغی میرے ساتھ کھاکر کرتے پھر رات گئے تک میرے دونوں کاندھوں پر ان کے ہاتھ یا سر ہوتے، میں ان کو ان کے گھروں پر کالونی میں آوارہ گردی کرکے پہنچاتا، اپنے فلیٹ پر تو صبح کی اذان ہورہی ہوتی اور نیچے مجھے ڈیوٹی پر لے جانے والا ڈرائیور ہارن دے رہا ہوتا۔
یہ میرے لاجواب دوست تھے آج نہ معلوم کہاں ہیں، اگر یار ہو تو آواز دو میں یاد کر رہاہوں۔ 1977 اور 2018 میں بہت فاصلہ ہے، مجھ سے کئی بار لوگوں نے کہا'' سر، ایک دو فلیٹ لے لیں جاتے وقت بیچ دیجیے گا چار پیسے مل جائیںگے۔ میں نے کہا '' میں لاہور تجارت کرنے نہیں آیا ہوں دل جیتنے آیا ہوں۔ میں نے لاہور فتح کرلیا تھا اور میں لاہور کا فاتح ہوں۔ لوگ اس لیے مجھے سُچل کہتے ہیں آج بھی ہر جگہ یہ خدا کی دی ہوئی عزت ہے جواثاثہ ہے ،ساتھ جائے گی ۔