اسکول کالج اور کلب کرکٹ کی تباہی قومی کرکٹ کے زوال کا بنیادی سبب ہے
معروف کرکٹ آرگنائزراور تاریخی لاہور جمخانہ کرکٹ کلب کے سیکرٹری جاوید زمان سے مکالمہ
زمان پارک کو کرکٹ کی تاریخ میں منفرد مقام حاصل ہے۔فوٹو : فائل
زمان پارک کو کرکٹ کی تاریخ میں منفرد مقام حاصل ہے۔
دنیا میں شاید ہی کسی اور علاقے میںتین ایسے کرکٹرز پروان چڑھے ہوں جنھوں نے آگے چل کراپنے ملک کی قیادت کا فریضہ انجام دیا۔جاوید برکی، ماجد خان اور عمران خان کا زمان پارک سے تعلق تو رہا ہی، آپس میں بھی ان کی قریبی عزیز داری ہے۔ تینوں خالہ زاد بھائی ہیں۔ممتازبھارتی تاریخ دان رام چندر گوہانے اپنے ایک مضمون میں ان تین پٹھان بہنوں کو خراج تحسین پیش کیا، جن کے بیٹے ٹیسٹ کرکٹر اور قومی ٹیم کے کپتان بنے۔
ان قابل فخر بہنوں کے والد احمد حسن خان جو بڑے سرکاری افسر تھے،انھیں کرکٹ کا بہت شوق تھا۔گورنمنٹ کالج کرکٹ ٹیم کے وہ کپتان بھی رہے۔ ان کے اس شوق کی آبیاری صحیح معنوں میں ان کے نواسوں نے کی۔عمران خان نے لکھا ہے کہ ان کی والدہ انھیں بچپن میں اپنے خاندان کی کرکٹ سے جڑی کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔کیا عجب ،جاوید برکی اورماجد خان بھی اپنی ماؤں سے یہ کرکٹ کہانیاںسنتے رہے ہوں۔اصل میں جالندھرکی مٹی میں کچھ خاص بات ہے، اس شہر سے کھیلوں، خاص طور پر کرکٹ سے متعلق بڑی نمایاں شخصیات کا تعلق رہا۔
تقسیم سے قبل پانچ جالندھری کرکٹرز وزیر علی، نذیر علی، محمد نثار، ڈاکٹر جہانگیر خان اور بقا جیلانی ہندوستانی ٹیم کا حصہ رہے۔تقسیم کے بعدکرکٹ سے فطری مناسبت رکھنے والے جالندھر کے پٹھانوں نے لاہور کا رخ کیا اور جس علاقے کو اپنے رہنے کے لیے پسند کیا، وہ اب زمان پارک کے نام سے جانا جاتا ہے۔ زمان پارک، محمد زمان خان کے نام سے منسوب ہے،جو مذکورہ بالا تینوں بہنوں کے ماموں تھے۔زمان پارک کو کرکٹ کا گڑھ بنانے میں جس شخص کی شبانہ روز محنت کو دخل ہے، وہ محمد زمان خان کے بیٹے جاوید زمان ہیں، کرکٹ جن کے رگ وپے میں سمائی ہے۔ 7جنوری 1938ء کو جالندھر میں آنکھ کھولنے والے جاوید زمان، فرسٹ کلاس کرکٹر رہے۔ایچی سن اور گورنمنٹ کالج کی کرکٹ ٹیموں کی نمائندگی کی۔1880ء میں قائم ہونے والے تاریخی لاہور جم خانہ کرکٹ کلب سے پچاس برس سے زائد عرصہ سے وابستہ ہیں۔سولہ برس کلب کے کپتان رہے۔ اس وقت وہ اس تاریخی کرکٹ کلب کے سیکرٹری ہیں۔ماضی میں وہ چیئرمین ڈومیسٹک کرکٹ رہے۔
لاہورسٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کے لیے سلیکٹر، الیکشن کمشنر، ڈسپلنری کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے کام کیا۔1996ء میں ہونے والے انڈر15ورلڈ کپ میں پاکستان اسکواڈ کے انتخاب کے لیے وہ سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین بنے۔انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر جو ٹیم منتخب کی وہ فائنل میں پہنچی اور اس میں شامل سات کھلاڑی ٹیسٹ کرکٹر بنے۔ شہریارخان کے زمانے میں کرکٹ بورڈ کے لیے اعزازی حیثیت میں گراس روٹ لیول کرکٹ کے ایڈوائزر کے طور پر کام کیا اور اسکول کرکٹ کی بحالی میں اپناکردار ادا کرنے کی کوشش کی۔ان کا یقین ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی میں خرابی کی بنیادی وجہ اسکول، کالج اور کلب کرکٹ کا تباہی سے دوچار ہونا ہے۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ وہ پاکستان کرکٹ کی بہتری کے لیے کیا تجویز کرتے ہیں تو ان کا سیدھا جواب تھا '' اسکول، کالج اور کلب کرکٹ ٹھیک کرلیں ، ڈومیسٹک اور قومی کرکٹ خود بخود ٹھیک ہوجائے گی۔کرکٹ کی نرسری کو مضبوط بنیادوں پر استوار کئے بغیر بہتری نہیں آسکتی۔''
لاہور جم خانہ کے سیکرٹری کی حیثیت سے وہ ان دنوں جم خانہ گراؤنڈ میںبچوں کے اینول سمر کرکٹ کیمپ کی نگرانی کررہے ہیں۔ یہ کیمپ پہلے بھی لگتا رہا لیکن اس میں صرف کلب ممبران کے بچے ہی شریک ہوسکتے تھے لیکن جاوید زمان نے اس کا دائرہ وسیع کیا اور اب اس کے دروازے ہر ایک کے لیے یکساں طور پر کھلے ہیں۔ جاوید زمان نے کرکٹ کے لیے عمربھی جس قدر بھی کام کیا ہے، اس کے لیے کبھی کوئی پیسا نہیں لیا۔اور ہمیشہ اعزازی طور پر کام کیا۔ 2010ء میں مقامی سطح پر کرکٹ کے لیے بے لوث کام کرنے والے صاحبان کے لیے آئی سی سی نے ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا تواس کے لیے جن ناموں کو تجویز کیا گیا، ان میں جاوید زمان کا نام سرفہرست تھالیکن جاوید زمان کے بقول ، کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اعجازبٹ ، جو گورنمنٹ کالج میں ان کے کپتان بھی رہے ، انھوں نے ان کا نام نکلوادیا۔ان کا کہنا تھا کہ 1984-85ء میں لاہور سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کی صدارت کے لیے اعجازبٹ کو انھوں نے ووٹ نہیں دیا تھا، اس وجہ سے ان کی دل میں گرہ پڑ گئی۔
کرکٹ بورڈ کے ایک چیئرمین نے اگران کی خدمات کا اعتراف نہیں تو ایک دوسرے چیئرمین نے ان کے کام کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا ہے۔یہ چیئرمین شہربار خان ہیں، جنھوں نے اپنی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب"Cricket Cauldron: the turbulent politics of sport in Pakistan" میں جاوید زمان کوان لوگوں میں شمار کیا ہے ، جنھوں نے اپنی زندگی کوجونیئر کرکٹ کی ترقی کے لیے وقف کررکھا ہے۔شہریار خان نے اپنے دور میں اسکول کرکٹ کے احیاء کا بیڑا اٹھایا تو پی سی بی کے ڈائریکٹر آپریشنزعباس زیدی نے ان سے رابطہ کیا اور بتایا کہ چیئرمین بورڈ آپ کو ذمہ داری سونپنا چاہتے ہیں، ''آپ کتنا معاوضہ ڈیمانڈ کرتے ہیں؟'' ان کا جواب تھا ''میں نے کرکٹ کے لیے زندگی بھر جو بھی کام کیا ہے بغیر پیسے کے کیا ہے، اس لیے پیسا تو میں نہیں لوں گا۔
میں نے کہا کہ لوگ پریس میں جاتے ہیں کہ ہمیں پیسا نہیں ملا اور کیا میں پریس سے یہ کہوں کہ دیکھو! یہ مجھے پیسا دے رہے ہیں۔ شہر یارخان ملے توانھوں نے کہا کہ تنخواہ کے بغیر پرفارمنس نہیں آتی،تو میں نے کہا کہ اگر آپ میرے کام سے مطمئن نہ ہوں تو مجھے نکال دیجیے گا۔ اس پر مجھے بورڈ نے گراس روٹ لیول کرکٹ کا ایڈوائزر مقرر کیا۔پہلے سال ٹورنامنٹ کرایا تو ملک بھر سے ساڑھے سات سو جبکہ دوسرے برس ساڑھے آٹھ سو اسکول شریک ہوئے۔شہریار خان کارکردگی سے بہت خوش ہوئے اورمجھے بورڈ کے نمائندے نے کہا چیئرمین چاہتے ہیں کہ انعام میں کچھ تو لیں خاصی پس وپیش کے بعد میں بورڈ سے گاڑی کی سہولت لینے پر راضی ہوا۔''
جاوید زمان ڈسپلن کے معاملے میں خاصے سخت گیر ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ کتنا ہی پائے کا کھلاڑی کیوں نہ ہو ، ڈسپلن کے معاملے میںکسی سے رورعایت نہیں ہونی چاہیے۔وہ جس زمانے میں چیئرمین ڈومیسٹک کرکٹ تھے، انھیں اطلاع ملی کہ ایل سی سی اے میں کسی کھلاڑی نے امپائر کو برا بھلا کہا ہے تو وہ فوراً گراؤنڈ پہنچے اور اس کرکٹر کی خوب خبرلی۔اس پر دس ہزارجرمانہ اور ایک میچ کی پابندی عائد کی۔یہ کھلاڑی وہی ہیں، جنھوں نے حال ہی میں پاکستان کرکٹ کی تباہی کا ذمہ دارعمران خان کو قرار دیا ہے وگرنہ سادہ لوح کرکٹ فین تو عمران خان کوپاکستان کرکٹ کی سربلندی کا ذمہ دار ہی سمجھتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں اب تو ڈسپلن کی صورت حال اس قدر خراب ہے کہ قومی ٹیم میں شامل دو بھائیوں میں سے ایک کو نہیں کھلایا گیا تو دوسرے نے ان فٹ ہونے کا بہانہ بناکرکھیلنے سے انکارکیا۔جاوید زمان کے بقول، ان کے بس میں ہوتا تو وہ ان دونوں بھائیوں پرقومی ٹیم کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کردیتے۔
جاوید زمان کا اشارہ کن دو بھائیوں کی طرف ہے، قارئین سمجھ تو گئے ہوں گے لیکن ان کی سہولت کے لیے ہم بتا دیتے ہیں کہ دونوں میں ایک بھائی کے بارے میں شعیب اختر نے گذشتہ دنوں یہ کہا ہے کہ وہ ان سے اچھی وکٹ کیپنگ کرسکتے ہیں۔ برلب نہر آباد زمان پارک کاجس کے عقب میں ٹھنڈی سڑک ہے، ذکر شروع ہوا تو وہ بتانے لگے کہ کہ زمان پارک کے جس بھی گھر میں چلے جائیں، اس میں فرسٹ کلاس کرکٹر مل جائے گا۔تین ٹیسٹ کپتانوں کا اس چھوٹے سے علاقے سے نکلنا ان کے خیال میں بہت بڑی بات ہے۔جاوید زمان کے والد محمد زمان خان تقسیم سے قبل پنجاب کے پوسٹ ماسٹر جنرل تھے، اور یہ وہ زمانہ تھاجب دلی سے فرنٹیئرتک کا علاقہ پنجاب کہلاتا تھا۔ محمد زمان خان نے 1940ء میں اس علاقے میں گھر بنایا۔اس سے قبل مسلمانوں کا یہاں ایک ہی گھرتھا جس کو معروف سیاست دان اعتزاز احسن کے والد نے 1937ء میں تعمیر کیا تھا۔ جاوید زمان بتاتے ہیں کہ ان دو گھروں کے علاوہ سب ہندوؤں کے گھر تھے اور باقی سب کھیت تھے۔تقسیم کے بعد جالندھر سے ان کے جو رشتے دار آئے ، وہ پہلے پہل انہی کے ہاں ٹھہرے۔
وزیراعظم نواز شریف بھی لاہورجم خانہ میںکھیلتے رہے ہیں۔جاوید زمان سے ان کا بہت اچھا تعلق ہے۔ نواز شریف کو ایک بار ٹیم سے ڈراپ کرنے کا دلچسپ قصہ انھوں نے ہمیں یوں بتایا '' نوازشریف سے پہلی ملاقات 75ء میں ہوئی۔ 1982ء میں انھوں نے جم خانہ میں کرکٹ کھیلنا شروع کی۔ جس زمانے میں وہ وزیرخزانہ تھے تو ہم نے جمخانہ ٹورنامنٹ کروایا۔ اس میں ہم نے سلیکشن کمیٹی بنائی۔ جس نے طے کیاکہ میچ ہر صورت مقررہ وقت پر شروع کردینا ہے۔ ایک میچ میں نواز شریف کو آنے میں دیر ہوگئی تو ہم نے ان کا انتظار نہیں کیا اور ٹیم اناؤنس کردی۔اتنے میں نوازشریف صاحب آگئے تو میں نے کہا کہ نواز! آپ تو ٹیم میں نہیں،تو اس پر کہنے لگے اچھا! میں ٹیم میں نہیں ہوں۔ تھوڑی دیر بعدگراؤنڈ مین شفیع سے کہا: شفیع صاحب دیکھیں مجھے جاوید زمان نے ٹیم سے باہر نکال دیا ہے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے بھی وہ ہمارے ہاں کھیلنے آتے رہے۔ جم خانہ کرکٹ کلب کی تزئین وآرائش کے سلسلے میں انھوں نے ہمیشہ بھرپورتعاون کیا۔''
ان کے بڑے بھائی ہمایوں زمان بڑے اچھے کرکٹر تھے۔ ایچی سن کالج، گورنمنٹ کالج اورکمبائنڈ یونیورسٹی ٹیم کے کپتان رہے۔ چھوٹے بھائی احمد فواد لاہور جمخانہ کے کپتان رہے۔بیٹا بابر زمان بھی بہترین فرسٹ کلاس کرکٹر رہالیکن بوجوہ قومی ٹیم میں جگہ نہ بنا سکا، جس کا انھیں افسوس ہے۔ان کے ماموں محمد نیاز خان ہیلسنکی اولمپکس میں ہاکی ٹیم کے کپتان تھے۔ان کے ایک عزیز ایچ کے برکی لندن اولمپکس میں ہاکی ٹیم کے کپتان رہے۔
پاکستان کرکٹ کی بہتری کے لیے ان سے ہونے والی گفتگو کا لباب لب کچھ یوں ہے: ''وہ کہتے ہیں کرکٹ کی بہتری کے لیے پالیسیوں میں تسلسل ضروری ہے، جو چیئرمین آتا ہے وہ اپنی کرکٹ شروع کردیتاہے۔بورڈ میں ضرورت سے بہت زیادہ سٹاف ہے۔ایک سابق کرکٹر سنا ہے دس بارہ لاکھ روپے لے رہا ہے، کوئی چار پانچ لاکھ لے رہا ہے، دو ڈھائی لاکھ سے کم کوئی لیتا ہی نہیں۔ یہ کرکٹرز بورڈ میں نہ ہوں تو تنقید کرتے ہیں اور جب کام مل جائے تو پھر ہاں میں ہاں ملانے لگتے ہیں۔انٹرنیشنل کرکٹ نہ ہونے سے بھی کرکٹ کا نقصان ہورہا ہے۔اچھی ٹیم اس وقت بنتی ہے، جب آپ کے پاس کھلاڑیوں کا متبادل ہو۔عمران خان ڈومیسٹک کرکٹ کا جو نظام تجویز کرتے ہیں، وہ یہاں اس لیے نہیں چل سکتا کہ سپانسرز نہیں ہیں۔کرکٹ اس لیے تباہ ہوئی ہے کہ اسکول کرکٹ ختم ہوگئی ، کالج کرکٹ ختم ہو گئی، کلب کرکٹ نے دم توڑ دیا۔معاملات میں بہتری لانے کے بجائے پہلے سے موجود چیزوں کو تباہ کردیا گیا۔
منٹو پارک جو کرکٹ کی بہت بڑی نرسری تھی وہ برباد ہو گئی۔ گراؤنڈ اور تو کیا بنتے پہلے سے موجود کئی گراؤنڈ ختم ہوگئے ہیں۔کسی زمانے میں وزیر علی سینئر لیگ اور جونیئر لیگ ہوتی تھی، جس سے ٹیلنٹ سامنے آتا تھا۔کالج کرکٹ میں بڑا مقابلہ ہوتا تھا۔ گورنمنٹ کالج اور اسلامیہ کالج کا میچ لوگ بڑے اشتیاق سے دیکھنے آتے تھے۔ سفارش اور اقربا پروری نے سب کچھ تباہ کردیا۔ووٹنگ کلب کا کمزور لڑکابھی کھیل جاتا ہے اور نان ووٹنگ کلب کا با صلاحیت بھی موقع ملنے سے محروم رہتا ہے۔ میں ٹرائل کے حق میں نہیں، اس سے کھلاڑی کی صلاحیت کو پرکھا نہیں جاسکتا۔میچ میں کھلاڑی کے جوہر کا اندازہ ہوتا ہے۔'' لاہور کی کرکٹ میں میں زوال کی بنیادی وجہ ان کے نزدیک مقامی سطح پر ایسے آرگنائزرز کا ختم ہونا ہے،جو بغیر کسی روپے پیسے کی لالچ کے نوجوانوں کی دامے درمے سخنے قدمے مدد کرتے تھے۔
ماجد خان کا کھیل دیکھنا انھیں ہمیشہ پسند رہا۔ ویوین رچرڈ کی بیٹنگ بھی بڑے شوق سے دیکھتے۔انضمام اور محمد یوسف کی صلاحیتوں کے بھی معترف ہیں۔اسپنر میں عبدالقادر کی جی کھول کر تعریف کرتے ہیں۔فاسٹ بولروں میں ڈینس للی کا اندازپسند رہا۔ نوجوان لڑکوں میں سمیع اسلم نے انھیں بہت زیادہ متاثر کیا ہے اور ان کے خیال میں اس بیٹسمین میں پاکستان ٹیم میں جگہ بنانے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔
عمران خان کے بقول:
''میری والدہ کے خاندان میں کرکٹ سے سبھی کا ایک خاص جذباتی لگاؤ تھااور گفتگو میں بھی یہ خاص طور پر زیر بحث آتا۔
جب میں چھوٹا تھاتو میری والدہ نے مجھے ان کرکٹ میچوں کی کہانیاںسنایا کرتیں جو خاندان کے مرد جالندھرمیں کھیلا کرتے تھے۔جب ان کا خاندان آزادی کے بعد لاہور آکرزمان پارک آباد ہوا تو یہ ایک قدرتی امرتھاکہ کرکٹ یہاں کی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔میری والدہ کے ماموں زاد بھائی جاوید زمان نے زمان پارک میں کھیلوں کی سرگرمیوں کو فروغ دینے کابیڑہ اٹھالیا۔انھوں نے لاہورجم خانہ کی کپتانی بھی کی اور آج تک کررہے ہیں۔وہ تیس برس سے کرکٹ کھیل رہے ہیں،اور آج بھی آنکھیں بند کرکے گیند کو صحیح لائن اورلینتھ کے ساتھ پھینک سکتے ہیں۔
انھوں نے نوجوان کھلاڑیوں کی دو نسلوں کو عمدہ کھلاڑی بنانے میںایک نمایاں کرداراداکیا ہے۔ان میں سے ایک تو میرے ہم عصروں کی نسل ہے اور دوسری موجودہ زمانے کی۔جاوید زمان کو ہم گاڈفادر کہتے ہیں اور یہ خطاب انھیں جچتا بھی ہے کیوں کہ انھی کے والد خاندان کے پہلے فرد تھے، جو زمان پارک میں آباد ہوئے ۔ ''
(عمران خان کی آپ بیتی کے اردو ترجمے سے اقتباس)
جاوید زمان کی عمران خان کے بارے میں کچھ باتیں:
عمران اپنا پہلا فرسٹ کلاس میچ لاہور کی طرف سے سرگودھا کے خلاف کھیلا۔1969ء میں سرگودھا میں ہونے والے اس میچ کی کپتانی میرے بھائی ہمایوں زمان کررہے تھے۔پہلے مخالف ٹیم نے بیٹنگ کی، ہمارے باری شروع ہونے سے قبل بارش آگئی اور میچ رک گیا۔عمران گراؤنڈ میں رک کر بارش ختم ہونے کا انتظار کرنے کے بجائے اپنے کزن اور سرگودھا کے ڈپٹی کمشنر جمشید برکی کے ہاں جا کر سوگیا۔عمران ٹیم کے لیے بولنگ میں اٹیک کرتا تھا اور ساتھ میں اوپنر بھی تھا۔بارش رک گئی تو امپائرنے کہا کہ کھیل اب شروع کیا جائے۔
اب دیکھا تو عمران غائب۔ اب دوسرے بیٹسمینوں نے پیڈ پہننا شروع کردیے۔اتنے میں دیکھا کہ عمران بھاگتا ہوا آرہا ہے،اس کی آمد پر ہمایوں زمان نے اس کی خوب خبر لی ، بہرحال وہ بیٹنگ کرنے گیا تو بدقسمتی سے رن آؤٹ ہوگیا۔اس میچ میں عمران کو کوئی وکٹ بھی نہیں ملی تھی۔ عمران بہت پیارا سا لڑکا تھا۔میرے ساتھ بچپن میں بہت زیادہ اٹیچ تھا۔اس کی کوٹھی بھی ہمارے گھر کے بالکل سامنے ہے۔مجھے گاڈفادراس نے اس لیے لکھا ہے کہ میں زمان پارک میں میچ کا انتظام کرتا، لڑکوں کو بتاتا،انھیں اکٹھا کرتا،موٹی ویٹ کرتا،جس طرح ادھر لاہور جم خانہ میں آرگنائزنگ سیکرٹری ہوں تو زمان پارک میں بھی ایسی ذمہ داری انجام دیتا تھا۔زمان پارک کی اب بھی بہت اچھی ٹیم ہے ۔عمران نے مقام حاصل کرنے کے لیے بڑی محنت کی۔
ایکشن بدلااور پھرایسی کامیابی اسے ملی کہ کوئی اس کے قریب نہیں آیا۔بڑا جارحانہ کپتان تھا۔ میں تو اسے تھری ان ون کہتا تھا۔بورڈ بھی وہ خود تھا۔سلیکٹربھی۔اور کپتان تو وہ تھا ہی۔بورڈ کی پالیسی تھی کہ جو پاکستان میںفرسٹ کلاس نہیں کھیلے گا ، اسے ٹیسٹ ٹیم میں جگہ نہیں ملے گی ، عمران تو یہاں نہیں کھیلتا تھالیکن اسے کھلانا پڑتا تھا۔لیگ اسپنر ون ڈے میں کوئی نہیں کھلاتا تھا، اس نے مگر ایسا کیا اور کامیاب رہا۔ نیوٹرل امپائرنگ کی بات اس نے بہت پہلے کرنا شروع کی اور بعد میں اس پر عمل بھی ہوگیا۔اس کی وِل پاور بہت زیادہ ہے۔
اب بھی زخمی ہونے کے بعد وہ جس طرح سے متحرک ہوگیا ہے تو یہ سب اس کی ول پاور کا کرشمہ ہے۔ ماجد خان کو جس طریقے سے عمران خان نے ڈراپ کیا وہ ٹھیک نہیں تھا۔پلیئر کو باہر بٹھانے کا طریقہ ہوتا ہے۔آپ اس کو پہلے سے بتاسکتے ہیں کہ میں نئی ٹیم بنارہا ہوں، آپ ذرا آرام کرلیں۔عین میچ کے دن بتانا جب وہ ذہنی طور پر کھیلنے کے لیے تیارتھا، اسے ڈراپ کرنا غیرمناسب تھا۔ماجد جتنا بڑا کھلاڑی تھا اس کو کوئی نکال نہیں سکتا تھا، یہ تو عمران خان نے ایسا کردیا۔اب جب اس نے انعام اللہ نیازی کو الیکشن میں میانوالی سے ٹکٹ نہیں دیا تو حفیظ اللہ نیازی نے لکھا کہ جس طرح سے عمران نے ماجد سے کیا ، وہی سلوک اب اپنے دوسرے کزن کے ساتھ کررہا ہے۔عمران خان نے تو پرفارمنس خراب ہونے کی وجہ سے ماجدکوڈراپ کیالیکن بورڈ میں اس کے خلاف عناصر بھی سرگرم ہوگئے۔
1982ء میں بھارت کے خلاف وہ اپنا آخری میچ کھیلاتو اس میں اسے سازش کے تحت آوٹ دیا گیا۔ہمارے ہاں تو پلیئر کو ناکام بنانے کے لیے امپائرتک کو ساتھ ملا لیتے ہیں۔امپائر نے ماجد خان کو کاٹ بی ہائنڈ قرار دیا تو وہ دو سیکنڈ کھڑا رہا حالانکہ پورے کیرئیر میں اس کی شہرت تو یہ رہی تھی کہ وہ امپائر کی طرف دیکھے بغیرہی چلا جاتا تھا۔اسے جان بوجھ کر آؤٹ دیا گیا۔میں اس وقت گراؤنڈ میں موجود تھاادھر میں نے دیکھا کہ ماجد کے آؤٹ ہونے پر بورڈ کے ایک آفیشل نے، نام تو میں ان کا نہیں لیتا بڑے جوش سے کہا، وہ گیا تمھارا ہیرو۔نورخان اس زمانے میں بورڈ کے چیئرمین تھے۔عمران کا اس معاملے میں کوئی تعلق نہیں تھا یہ سب شرارت بورڈ کی تھی۔
آپ کا کوئی عزیزکرکٹ سے وابستہ رہا ہو تو اس کا فائدہ بھی ہوتا ہے لیکن اس بات کا پریشر بھی بہت ہوتا ہے، اور وہ لوگ جو اس کھلاڑی کے باپ سے کسی وجہ سے ناراض ہوتے ہیں، وہ اس کا بدلہ اس کے بیٹے سے بھی لیتے ہیں۔جہانگیر خان سے جو لوگ خوش نہیں تھے، وہ ماجد کے بھی خلاف تھے۔مجھے بھی جہانگیر خان کا رشتہ دار ہونے کی سزا ملی،مجھے خود خان محمد نے بتایا کہ وہ تو بطور سلیکٹرپاکستان ٹیم میں میری شمولیت چاہتے تھے لیکن کرنل شجاع الدین میرے مخالف تھے کیونکہ ان کی ڈاکٹر صاحب سے لگتی تھی۔ ایسا ہی معاملہ ماجد کے بیٹے بازید خان کے ساتھ پیش آیا۔
بازید خان جب انڈر15ء ورلڈ کپ میں پرفارم نہ کرسکا تو میرے چھوٹے بیٹے کے گلے لگ کر رویا کہ اب سب میرے باپ پر تہمت لگائیں گے کہ ان کی وجہ سے میں سلیکٹ تو ہوگیالیکن پرفارم نہ کرسکا۔ ماجد کے والد ڈاکٹر جہانگیراس قدر دیانت دار آدمی تھے کہ بیٹے کے قومی ٹیم میں آنے پر انھوں نے سلیکٹر کی حیثیت سے استعفا دے دیا تھا۔