تنہائی بچپن سے ساتھ ہے

آنے والی نسل ہمارے عہد کی تفہیم کے لیے نثری نظموں سے رجوع کرے گی یہ کُلّیوں کی شکست و ریخت کا زمانہ ہے،تنویر انجم


فوٹو : فائل

نثر میں سانس لیتی، سبک روی سے بہتی نظمیں۔ دھیما لہجہ۔ سادہ زبان۔ عصری مسائل کا احاطہ کرتی بُنت۔ مصرعوں میں بسی کہانیاں، اِس پر مستزاد تنوع!

یہ ذکر ہے تنویر انجم کی تخلیقات کا، جن کا شمار نثری نظم کی ابتدائی شاعرات میں کیا جاتا ہے۔ جب شعری سفر کا آغاز کیا، ادب میں کلیہ شکنی کی رسم پڑ چکی تھی، نثری نظموں کا چرچا ہونے لگا تھا۔ قمر جمیل کے گرد جمگھٹا سا لگا رہتا تھا اُن دنوں۔ اُس گروہ میں وہ بھی - اپنی خاموش طبیعت اور دل میں جاگزیں تنہائی کے ساتھ - شامل رہیں۔ کسی کو اُنھوں نے استاد نہیں کیا۔ اصلاح بھی نہیں لی۔ اپنا راستہ خود بنایا۔ ان کے چھے شعری مجموعے منظرعام پر آچکے ہیں۔ نثری نظم اُن کی شناخت ہے، مگر دیگر اصناف ادب بھی اپنی جانب کھینچتی ہیں۔ تراجم کا میدان پکارتا ہے۔ مستقبل میں ناول اور ڈراما لکھنے کا ارادہ ہے۔ پیشہ ورانہ سفر میں وہ تدریس سے وابستہ رہیں۔ انگریزی اُن کا مضمون ہے۔ اِس وقت اقرا یونیورسٹی سے منسلک ہیں۔

بین الاقوامی ادب پر بھی گہری نظر رہی۔ اُن کے مطابق ہماری شاعری دنیا بھر میں ہونے والی شاعری کے بے حد قریب ہے۔ ''دراصل اب دنیائے ادب میں ایک نئے طرز کی آفاقیت جنم لے رہی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ دنیا میں کوئی آفاقیت نہیں، آفاقیت کو توڑ دو۔''

نثری نظم کے موضوعات پر بے لاگ گفت گو کرتی ہیں، مگر اِس صنف ادب کے بانی کی بابت رائے دینے سے اجتناب برتتی ہیں کہ اُن کے نزدیک یہ بات غیراہم ہے۔ گو نئے قارئین کے لیے '' فلیپ'' اور کتاب کے اندرونی صفحات پر، مصنف اور شاعر کی بابت، موجود آرا خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، مگر وہ ''فلیپ'' لکھوانے کی قائل نہیں۔ یہ اُن کی پالیسی ہے۔ البتہ اِس کی اہمیت سے انکار نہیں کرتیں۔

نثری نظم کے معروف شاعر، افضال احمد سید کی وہ زوجہ ہیں۔ اِس ضمن میں کہتی ہیں،''وہ اور میں، دونوں نثری نظم کے شاعر ہیں، مگر مسابقت کی فضا نہیں۔ دونوں کا اسلوب، آہنگ اور لہجہ الگ ہے۔ گو ہم ایک جیسا ادب پڑھتے ہیں، ایک ساتھ ادبی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں، ایک دوسرے کا کلام پڑھتے بھی ہیں، مگر دونوں کا نظمیں تخلیق کرنے کا انداز الگ ہے۔''

بدایوں تنویر انجم کے اجداد کا ٹھکانا تھا۔ تقسیم کے بعد ننھیال وہیں ٹھہر گیا کہ نانا کا جھکاؤ کانگریس کی جانب تھا، البتہ ددھیال نے 1948 میں نئی زمینوں کی سمت رخ کیا۔ کراچی میں ڈیرا ڈالا۔ ناظم آباد میں آشیانہ بنایا، جہاں 56ء میں تنویر انجم نے آنکھ کھولی۔ گھر کے ماحول پر علمی و ادبی رنگ غالب تھا۔ کتابوں کی فراوانی تھی۔ ہر شام بیت بازی کی محفل جمتی، جس میں گھر کے بڑے بھی حصہ لیتے۔ کہتی ہیں،''نانا اور دادا، دونوں علمی و ادبی شخصیت تھے۔ میرے دادا، اخلاق حسین زبیری نے فارسی میں ایم اے کیا تھا۔ آخری عمر تک وہ تدریس سے وابستہ رہے۔ والدہ بھی گریجویٹ تھیں۔'' اُن کے والد، مصطفیٰ حسن زبیری ملازمت پیشہ آدمی تھے۔ خاصے مذہبی، مگر لڑکیوں کی تعلیم کے پُرزور حامی۔ بیٹیوں کو انھوں نے اعلیٰ تعلیم دلائی۔ چار بہن، دو بھائیوں میں دوسری، تنویر انجم کے بچپن کا ایک ٹکڑا لاہور میں بھی گزرا، جو یادوں کا حصہ ہے۔

تنہائی بچپن سے ساتھ ہے، جو ایک احساس کی صورت آج بھی موجود ہے۔ خاموش طبع اور اندروں بین ہوا کرتی تھیں اُس زمانے میں۔ گھلنا ملنا پسند نہیں تھا۔ کھیلوں کے میدان میں زیادہ متحرک نہیں رہیں۔ ذوق مطالعہ ہر شوق پر غالب رہا۔ کتابیں وقت کا بہترین مصرف تھیں۔ شمار اچھی طالبات میں ہوا کرتا۔ پوزیشن ہولڈر تھیں۔ یہ یقین دل میں جاگزیں تھا کہ تعلیم ہی اُنھیں زندگی میں آگے لے کر جائے گی۔ انگریزی میں ماسٹرز کرنے کی خواہش نے آرٹس کے چناؤ کی تحریک دی۔ 71ء میں اسلامیہ اسکول، ناظم آباد سے میٹرک کیا۔ سقوط ڈھاکا کا سانحہ بھی اُسی برس پیش آیا۔ گہرے کرب سے گزریں اُس روز۔ مگر آج سوچتی ہیں، مغربی پاکستان کے باسی اُس سمے جو زاویۂ نگاہ رکھتے تھے، وہ اِس گمبھیر مسئلے کو سمجھنے یا سلجھانے کے لیے ناکافی تھا۔

گورنمنٹ کالج فور ویمن، فریئر روڈ سے انٹر کرنے کے بعد وہ جامعہ کراچی کے شعبۂ انگریزی کا حصہ بن گئیں۔ 78ء میں ماسٹرز کی سند ملی۔ اُس زمانے میں جامعہ کراچی دائیں اور بائیں بازو میں منقسم تھی، یونین کے انتخابات ایک بڑی سرگرمی ہوا کرتی، جس کی یادیں ذہن میں محفوظ ہیں۔ اُن کا رجحان بائیں بازو کی جانب رہا، مگر سیاست سے زیادہ مطالعہ توجہ کا محور تھا۔ پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے وہ تدریس کے پیشے سے منسلک ہوگئیں۔ اُس وقت تک رشتۂ ازدواج میں بندھ چکی تھیں۔ پہلی پوسٹنگ گورنمنٹ کالج فور ویمن، سانگھڑ میں ہوئی۔ چھے ماہ وہاں بیتے۔ ہوسٹل میں ٹھہریں۔ وہاں کتابیں پڑھنے کے علاوہ بیڈمنٹن اور ٹبیل ٹینس کھیلنے کا تجربہ کیا۔ کراچی پلٹنے کے بعد سعودآباد کے ایک کالج میں ذمے داریاں سنبھالیں۔

پھر گورنمنٹ کالج فور ویمن، نیو کراچی کا حصہ بن گئیں۔ 85ء میں اُنھیں حکومت پاکستان کی جانب سے اسکالر شپ ملی۔ امریکا کا رخ کیا۔ چناؤ جنوب کے علاقے کا کیا کہ وہ نسبتاً سستا تھا، اور بچے ساتھ تھے۔ امریکا کے ماحول سے ہم آہنگ ہونے میں زیادہ دقت پیش نہیں آئی۔ اوکلاہوما اسٹیٹ یونیورسٹی، اسٹل واٹر سے ماسٹرز کرنے کے بعد یونیورسٹی آف ٹیکساس ایٹ آسٹن سے پی ایچ ڈی کا مرحلہ طے کیا۔ پاکستان لوٹنے کے بعد پھر تدریسی ذمے داریاں سنبھالیں۔ کچھ برس سرسید گرلز کالج میں رہیں۔ 2000 میں سینٹ جوزف کالج کی پرنسپل ہوگئیں۔ پانچ برس یہ ذمے داری نبھائی۔ پھر خاتون پاکستان کالج کی پرنسپل ہوگئیں۔ 2012 میں قبل ازوقت ریٹائرمینٹ لے لی۔ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی گذشتہ کئی برس سے مصروف ہیں۔ کالج آف بزنس مینجمینٹ میں پڑھایا، سٹی اسکول میں کچھ وقت گزرا۔ 2006 میں اقرا یونیورسٹی کا حصہ بن گئیں۔

پیشہ ورانہ سفر کے بعد ادبی سفر زیربحث آیا۔ مطالعاتی سفر کا آغاز بچوں کے رسائل سے ہوا۔ سنجیدہ ادب کی جانب آنے کے بعد منٹو، عصمت اور قرۃ العین حیدر کو پڑھا۔ شاعری میں اقبال اور غالب سے پالا پڑا۔ غالب کو سمجھنے میں تھوڑی دقت پیش آئی اس وقت۔ اس عرصے میں انگریزی ادب سے بھی جڑی رہیں۔ یونیورسٹی میں قدم رکھنے کے بعد فیض، راشد، منیر، میرا جی کا مطالعہ کیا۔ اُسی زمانے میں شعر کہنے کا سودا سمایا۔ ابتدا میں تو پابند نظمیں کہیں، مگر جلد ہی نثری نظم کی جانب آگئیں کہ یہ صنف میلانات کے قریب تھی، مزاج سے لگا کھاتی تھی۔ حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہہ سکتیں، مگر امکان یہی ظاہر کرتی ہیں کہ اِس صنف کی جانب متوجہ ہونے کا سبب قمر جمیل کے حلقے میں شامل وہ نوجوان تھے، جو ان دنوں جامعہ سے اکتساب علم کر رہے تھے۔ جدید خیالات کے حامل افراد کی صحبت نے جدید ادب کی جانب متوجہ کیا، جس تک رسائی، ایک معنوں میں خود میں موجود شاعرہ تک رسائی تھی۔ ریڈیو بھی آنے جانے لگیں۔ ''بزم طلبا'' میں شرکت کی، ''یونیورسٹی میگزین'' کی میزبانی کی۔

تخلیقی سفر چپکے چپکے جاری رہا۔ ایک طویل عرصے تک وہ سر نہوڑے نظمیں کہتی رہیں۔ پیشہ ورانہ اور گھریلو ذمے داریاں بھی ساتھ ساتھ چلتی تھیں۔ چھپنے چھپانے پر توجہ نہیں دی، البتہ ''سیپ'' میں تھوڑی بہت نظمیں شایع ہوئیں۔ ایک روز اُن کی تخلیقات احمد ہمیش کی نظروں سے گزریں۔ اُنھوں نے سراہتے ہوئے نظموں کو کتابی شکل دینے کا ارادہ ظاہر کیا۔ تنویر صاحبہ کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ یوں 82ء میں پہلا شعری مجموعہ ''اَن دیکھی لہریں'' منظر عام پر آیا۔ مجموعے میں نثری نظموں کے علاوہ پابند اور آزاد نظمیں اور غزلیں بھی شامل تھیں۔ ردعمل بہت مثبت رہا۔ تقریب رونمائی بھی یادگار رہی۔

پہلے مجموعے کی اشاعت نے محرک کا کام کیا۔ باقاعدگی سے نظمیں کہیں۔ اگلے تین برس لکھنے کی میز سے دوستی رہی۔ البتہ امریکا جانے کے بعد اِس سلسلے میں کمی واقع ہوئی۔ وہاں سے لوٹنے کا سبب بھی اندر کی شاعرہ تھی۔ 92ء میں اُن کا دوسرا، کُلی طور پر نثری نظموں پر مشتمل مجموعہ ''سفر اور قید میں نظمیں'' شایع ہوا، جو 82ء سے 85ء کے عرصے میں لکھی جانے والی نظموں پر مشتمل تھا۔ 97 کا سن تخلیقی نقطۂ نگاہ سے انتہائی زرخیز تھا۔ بہ قول اُن کے، نظموں کی برسات ہوئی اُس برس، جو دو کتابوں کی صورت منصۂ شہود پر آئیں۔ پہلے پہل اُنھیں ''طوفانی بارش میں رقصاں ستارے'' میں سمویا گیا۔ باقی ماندہ نظمیں 2010 میں ''زندگی میرے پیروں سے لپٹ جائے گی'' کی صورت سامنے آئیں۔ غزلوں کا اکلوتا مجموعہ ''سروبرگ آرزو'' 2001 میں چھپا۔ اُس مجموعے کا حصہ بننے والی بیش تر تخلیقات ادبی جراید کا حصہ بن چکی تھیں۔ چھٹا مجموعہ ''نئے نام کی محبت'' 2013 میں منظرعام پر آیا، جو تین برس قبل کہی ہوئی نظموں پر مشتمل ہے۔

نثری نظم کی پیدایش کے اسباب زیر بحث آئے، تو تنویر انجم کہنے لگیں،''دراصل یہ Myths کی، کُلیوں کی شکست و ریخت کا زمانہ ہے۔ دنیا بھر میں جو شاعری ہورہی ہے، اُس میں Myths کو توڑجارہا ہے۔ بحر اور قافیہ نثر کو نظم سے الگ کرتے تھے، نثری نظم میں اِس کلیے کو توڑ کر ایک نئی صنف تخلیق کی گئی، جس میں خیال کو ہیئت پر فوقیت حاصل ہے، مگر یہ ماورائے ہیئت نہیں۔ ادب ماورائے ہیئت ہو ہی نہیں سکتا۔ نثر کے برعکس نظم میں ایک طرح کا شعری خلا ہوتا ہے۔ نثری نظم کے خیالات اور اس میں موجود شعری خلا اُسے شاعری بناتے ہیں۔'' اِس صنف کے آغاز کا ایک سبب اُن کے نزدیک یہ بھی تھا کہ شاعری کی کلاسیکی ہیئت عصری تقاضوں اور جدید فکر کا وزن سہنے سے قاصر تھی۔ اِس خیال سے ایک حد تک متفق ہیں کہ نثری نظم مشاعروں کی چیز نہیں کہ یہ سامعین سے بہت زیادہ توجہ کا تقاضا کرتی ہے، مگر مستقبل کی بابت پُرامید ضرور ہیں۔

خود کو نظریات میں نہیں باندھا، مگر ان کی تخلیقات اور خیالات مابعدجدیدیت کی فکر کے قریب ہیں۔ جب مابعد جدیدیت کی تعریف موضوع بنی، تو کہنے لگیں،''یہ ایک طویل موضوع ہے، مگر مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مابعدجدیدیت کے نزدیک کائنات میں کوئی آفاقی اور حتمی حقیقت موجود نہیں۔ حقیقت اور اقدار صورت حال سے نتھی ہیں۔''

جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے فرق پر بات ہوئی، تو اُنھوں نے کہا،''جدیدیت میں کچھ حقیقتیں آفاقی ہیں، مگر مابعدجدیدیت میں کوئی حقیقت آفاقی نہیں۔ اِس فکر کے تحت روایتی نظریات شکست و ریخت کا شکار ہوتے ہیں، کلیے ٹوٹتے ہیں۔ دراصل مابعدجدیدیت کے نزدیک حقیقت 'لوکل' ہے 'یونیورسل' نہیں۔ اقدار بدلتی رہتی ہیں۔''

کیا خیر اور شر بھی آفاقی حقیقت نہیں، سچ اور جھوٹ کی حیثیت کا تعین حتمی نہیں؟ اِس سوال کے جواب میں کہتی ہیں،''اس کا تعلق صورت حال سے ہے۔ سچ بولنا اچھی بات ہے، مگر ایک خاص صورت حال میں سچ بولنا غیرضروری یا نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح کسی صورت حال میں جھوٹ بولنا ضروری ہوجاتا ہے۔ ''

گذشتہ چار عشروں سے نثری نظم کہی جارہی ہے، کیا یہ صنف کوئی بڑا شاعر پیدا کرسکی؟ اِس سوال کا جواب وہ اثبات میں دیتے ہوئے افضال احمد سید کا نام لیتی ہیں۔ دیگر مستند شعرا میں ذی شان ساحل، سارا شگفتہ، عذرا عباس، سعید الدین اور نسرین انجم بھٹی کی نشان دہی کرتی ہیں۔

کیا نثری نظم کے شعرا مستقبل میں اُس مقام تک پہنچ سکیں گے، جو آج فیض اور راشد کو حاصل ہے؟ اِس ضمن میں کہنا ہے،''بالکل۔ میں سمجھتی ہوں کہ تھوڑی دیر لگے گی، مگر وہ یہ مقام حاصل کر لیں گے۔ سوال یہ ہے کہ آنے والی نسلیں موجودہ عہد کو سمجھنے کے لیے کس صنف ادب سے رجوع کریں گی۔ میرے نزدیک آنے والی نسل ہمارے عہد کی تفہیم کے لیے نثری نظم سے رجوع کرے گی۔ مستقبل نثری نظم ہی کا ہے۔''

نظموں کے ساتھ اُن کے تراجم بھی وقتاً فوقتاً ادبی جراید کا حصہ بنتے رہے۔ بیرونی شعرا کا کلام اردو قارئین کے سامنے پیش کیا۔ لبنان سے تعلق رکھنے والی مصنفہ Etel Adnan کے ناول Sitt Marie Rose کا انھوں نے اردو میں ''دس لاکھ پرندے'' کے زیرعنوان ترجمہ کیا، جو کتابی شکل میں شایع ہوا۔ Stanley A. Wolpert کی کتاب Jinnah Of Pakistan کو بھی اردو کے قالب میں ڈھالا، جو ''جناح : بانی پاکستان'' کے عنوان سے چُھپی۔ کچھ غیر ادبی کتب کو بھی اردو میں منتقل کرچکی ہیں۔

پہلی کتاب کی تقریب رونمائی سے اُن کی خوش گوار یادیں نتھی ہیں۔ دُکھ تو کئی آئے۔ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں،''پوری زندگی ہی دکھ سے بھری ہوئی ہے!'' وہ نوجوان شعرا کو زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرنے کا مشورہ دیتی ہیں۔ شلوار قمیص میں خود کو آرام دہ تصور کرنے والی تنویر انجم کو ہر رنگ پسند ہے۔ مصروفیت کے باعث باورچی خانے سے زیادہ تعلق نہیں رہا، مگر کوشش کریں، تو اچھا کھانا پکا لیتی ہیں۔ معتدل موسم بھاتا ہے۔ ''آخری شب کے ہم سفر'' من پسند ناول ہے۔ نئے ناول نگاروں میں مرزا اطہر بیگ کا نام لیتی ہیں۔ اُن کے ناول ''صفر سے ایک تک'' کو سراہتی ہیں۔ محمد خالد اختر، نیر مسعود، اور حسن منظر کے فکشن نے بھی متاثر کیا۔ کلاسیکی شعرا میں غالب اور موجودہ عہد کے شعرا میں افضال احمد سید کا نام لیتی ہیں۔ 77ء میں پہلی شادی ہوئی۔ شوہر کے انتقال کے بعد 97ء میں دوسری شادی کی۔ دو بیٹے ہیں، جو اِن دنوں امریکا میں ہیں۔ شفیق والدہ ہیں۔ بچوں کو بھرپور آزادی دی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔