عمر رسیدہ افراد انصاف کے منتظر
فوج اور عدلیہ کی طرح سیاست دانوں کو بھی چاہیے کہ وہ بالغ نظری کا مظاہرہ کریں
میں نے متعدد کالم سینئر سٹیزن کے مسائل پر لکھے ہیں اور ہمیشہ سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے مودبانہ گزارش کرتا رہا کہ خدارا ان عمر رسیدہ افراد کا خیال کیجیے مگرکبھی کسی مثبت تحریر یا تجویز پر توجہ نہیں دی گئی اور EOBI میں اسحاق ڈار نے برسوں قلیل ترین پنشن 5250 روپے دے کر غریبوں کو توہین و ذلت کے گھوڑے پر سوارکرایا۔
سابق وزیراعظم کو تو جمعے کی چھٹی ختم کرنے پر حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور تقریباً ہر جمعے کو ان کے لیے بری خبر ہوتی ہے اور اب اسحاق ڈار بے یارومددگار لندن کی گلیوں میں پیدل پھرتے نظر آتے ہیں، مانا کہ وہ معاشی طور پر سختیاں نہیں جھیل رہے مگر معاف کیجیے گا عزت نفس بھی اور اﷲ کا قانون بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔تحریک انصاف کی حکومت سے ای او بی آئی کے پنشنرز کو انصاف ملنے کی توقع تھی لیکن اس امید پر بھی پانی پھیر دیا گیا۔ اعلان توکم ازکم دس ہزار روپے پنشن کرنے کا اخباری بیان کی حد تک کیا گیا، لیکن عملا کچھ نہیں ہوا۔گزشتہ دنوں ایک خبر چھپی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ پنشن 6500 روپے کردی گئی ہے مگر تصدیق تاحال نہ ہوسکی۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب محتاج ، غریب ، نادار ، بے حال ، مفلسی وغربت کا شکار انسان ان بڑے لوگوں کے فیصلے پر خاموشی اختیارکرلے تو پھر وہ آہ رب کی طرف نہ صرف جاتی ہے بلکہ لوٹتی بھی ہے مگر جب آہ واپسی اختیارکرتی ہے تو پھر وہ میرے رب کا قانون ہوتا ہے جو مفلس اور غریب ہیں وہ رب کے فیصلے کے منتظر ہوتے ہیں۔
گزشتہ دنوںاخبارات میں ایک خبر بہت نمایاں تھی کہ وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر اطلاعات و قانون اور اینٹی کرپشن بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ سندھ حکومت سود کے خلاف جہاد کا اعلان کرتی ہے اور اس پر قانون سازی کی جائے گی۔ اس بیان پر انھیں خراج تحسین یقینا پیش کرنا چاہیے۔ گزشتہ دنوں اخبارات میں یہ خبر بھی آئی کہ قومی بچت میں سینئر سٹیزن کو جو 760 روپے ماہانہ ملتے تھے۔ انھیں اب 910 روپے کر دیا گیا ہے اور اس کے لیے عمران خان اور ان کی کابینہ مبارک باد کی مستحق ہے۔ راقم کی مودبانہ گزارش ہے چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار سے، خدارا آپ از خود نوٹس لیں کہ اﷲ تعالیٰ اس نیک کام کو آپ کے ہاتھوں کروا دے ۔ آپ سینئر سٹیزن کے لیے قومی بچت میں اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا کروا دیں اور کم ازکم انھیں اس مد میں ایک ہزار روپے ادا کیے جائیں۔
میں نے قومی بچت کے آفس کا جائزہ لیا۔ وہاں نیک اور نمازی حضرات سود لے کر اپنا گزارہ کرتے ہیں، جب کہ پرائیویٹ بینک اسلامی سرٹیفکیٹ کے نام پر 390 روپے ایک لاکھ پر دیتے ہیں تو جن عمر رسیدہ فرد کو ریٹائرڈ ہونے کے بعد کم ازکم بارہ لاکھ بھی ملتے ہیں تو وہ 4680 روپے ماہانہ میں کیسے گزارا کرے گا؟ جب کہ ان کے ساتھ غیر شادی شدہ بچیوں کا بھی ساتھ ہو، لہٰذا آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ آپ از خود نوٹس لے کر اس مسئلے کو جلد سے جلد حل کروایں اور عمر رسیدہ لوگوں کی دعائیں اپنے دامن میں سمیٹ لیں، رب ذوالجلال آپ کو اپنی عدالت میں عزت و توقیر سے ضرور نوازے گا۔ میں نے نیکی کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے پروردگار عالم! آپ کو صلہ دے اس کام کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کا میں وزیر خزانہ اسد عمر اور وفاقی مذہبی امور نورالحق قادری سے بھی گزارش کروںگا کہ وہ قومی بچت میں عمر رسیدہ افراد کے لیے اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا کروانے میں اپنا اہم کردار ادا کریں۔ صبرکی چادر تانے بیٹھے ہیں یہ بے چارے عمر رسیدہ افراد ،ان پر خصوصی توجہ دیں۔
جو پاکستانی ایمانداری سے زندگی گزارتا ہے اس کے لیے معاشی طور پر بڑھاپا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ میں ایک ایسے انکم ٹیکس کمشنر کو بھی جانتا ہوں کہ انھوں نے کبھی بے ایمانی سے کام نہیں کیا ۔ ساری عمر نیکی، حرص ، لالچ چوری، رشوت ستانی سے دور رہے میں رب کو گواہ بناکر یہ بات لکھ رہا ہوں جب مرحوم ریٹائرڈ ہوئے تو میں نے ان سے پوچھا اب آپ کیا کریںگے؟ ہنستے ہوئے جواب دیا کہ ایک نجی فرم نے ایک لاکھ روپے ماہانہ کی آفردی ہے۔ یہ 1994ء کی بات ہے تو میں نے برجستہ کہاکہ آپ جلدی سے جوائن کرلیں۔ انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا '' ایک لاکھ تنخواہ لے کر مجھے اس فرم کا 20 لاکھ انکم ٹیکس بچانا ہوگا۔
یہ کام میں نے دوران ڈیوٹی نہیں کیا اور اگرکرتا تو میرے پاس گھر میں سفیدی کرانے کے پیسے ہوتے'' اس وقت راقم الحروف نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہا تھا ، اب خیال آتا ہے تو بہت دکھ ہوتا ہے کہ جب انھیں انکم ٹیکس سے بقایاجات ملے تو انھوں نے پنشن قومی بچت میں ڈال دی ۔ اس زمانے میں سینئر سٹیزن کو شاید 1500 سو روپے ملتے تھے۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جتنا ان عمر رسیدہ افرادکوکرب میں رکھا ہے یہ یہی لوگ جانتے ہیں۔ کچھ مقامی نجی بینک سود کے نام پر عام لوگوں کو 900 روپے تک منافع دے رہے ہیں ، کتنا بڑا المیہ ہے کہ صراط مستقیم پر چلنے والوں کو تو رسوا کیا جارہاہے وہ بھی بزرگی میں اور جو سود لے رہا ہے اسے نوازا جا رہا ہے۔ خدارا ان بزرگوں کو سود کی ٹرین سے اتاریں ، میں صرف سینئر سٹیزن کے لیے اچھے معاوضے پر قومی بچت میں اسلامی سرٹیفکیٹ کے اجرا کی بات کر رہا ہوں (پورے ملک سے سود کے خاتمے کی بات نہیں کی ہے کہ یہ بہت طویل سلسلہ ہے اور اگر ملک سے بھی سود کا خاتمہ ہو تو یہ اچھی بات ہے) یہ معاملہ وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ کار میں آتا ہے۔
میری ان سے بھی گزارش ہے کہ شرعی عدالت قومی بچت میں اسلامی سرٹیفکیٹ (عمر رسیدہ لوگوں کے لیے) کے اجرا کے لیے خصوصی طور پر احکامات جاری کرے ۔ وزیر اعظم عمران خان، وزیر خزانہ اسد عمر وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری اگر عمر رسیدہ افراد کے لیے اچھا فیصلہ کرتے ہیں، انھیں سود کی ٹرین سے اتارتے ہیں اور قومی بچت میں اچھے معاوضے پر صرف عمر رسیدہ افراد کے لیے اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا کروانے میں بہت جلد کامیاب ہوجائیں تو پاکستان میں ان کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ رقم الحروف ایمانداری سے کہہ رہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو تہہ دل سے یہ لوگ ووٹ دیںگے۔ ان افراد کی نگاہ میں کسی سیاسی پارٹی کی اہمیت نہیں ہوگی اور پھر کروڑوں دعائیں عمران خان اور ان کی کابینہ کو ملیںگی۔
وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری بہت فعال ہیں وہ اس آرٹیکل پر توجہ دیں اور وزیراعظم کو باور کرائیں کہ وہ اس مسئلے کو فوری حل کروائیں۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک بھی پرائیویٹ بینکوں سے پابندی ختم کرے اور ہر ایک بینک کو اسلامی سرٹیفکیٹ کے اجرا پر اپنی مرضی سے معاوضہ دینے کی آزادی دے، مقابلے کی فضا ہوگی تو تمام بینک اس دوڑ میںشامل ہوںگے مگر قومی خزانے میں اگر حکومت چاہتی ہے کہ اضافہ ہو ملک معاشی طور پر مشکلات سے نکلنے میں کامیاب ہو تو پھر پہلی فرصت میں قومی بچت میں اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا یقینی بنائے تاکہ عمر رسیدہ لوگ اپنا پیسہ قومی بچت میں رکھیں۔ عمران خان نے قومی بچت میں رکھی گئی رقم 760 روپے کے بجائے 910 روپے کردی ہے ،یہ انھوں نے اچھا اور ایک عظیم فیصلہ کیا ہے مگر سینئر سٹیزن کے لیے کم از کم1000 روپے کریں، اسلامی سرٹیفکیٹ کے حوالے سے تو یقینا عمران خان ان عمر رسیدہ افراد کی دعاؤں کے طفیل شاید کامیابی سے اپنے 5 سال پورے کرلیں۔
راقم الحروف کی اس بات سے اتفاق کریں کہ فوج اور عدلیہ میں تعلیم یافتہ لوگ فیصلے کرتے ہیں، ان دونوں اداروں کو قوم مثبت حوالے سے دیکھتی ہے اور سیاست دانوں کو بھی چاہیے کہ وہ بالغ نظری کا مظاہرہ کریں۔