صدر پاکستان اور وزیراعظم کی خدمت میں

ہماری فلسطین پالیسی عرب یا دیگر مسلم ممالک کے برعکس بانیان پاکستان کی اصولی فلسطین پالیسی کا تسلسل ہونی چاہیے


صابر ابو مریم December 14, 2018
آج علامہ اقبال اور قائداعظم کی فلسطین پالیسی کو واضح انداز میں بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

KARACHI: جناب عزت مآب صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی صاحب، اور وزیر اعظم عمران خان صاحب! میری اس تحریر کا مقصد آپ کی خدمت میں ایک سو برس سے صہیونیوں اور برطانوی استعمار سمیت امریکہ کی ناپاک سازشوں کا نشانہ بننے والی ملت فلسطین سے متعلق کچھ عرائض پیش کرنا ہے۔ تاکہ ملک و ملت کے دیگر اہم مسائل کی طرح آپ کی خدمت میں امت مسلمہ اور انسانیت کے سب سے بڑے مسئلے فلسطین کے بارے میں کچھ باتوں کو دہرا دوں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آپ اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ بھی ہیں، اور اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں کسی قسم کی سستی نہیں برت رہے۔ لیکن پھر بھی مظلوم ملت فلسطین کے بارے میں اور پاکستان کی پالیسی سے متعلق چند عرائض آپ کی خدمت میں گوش گزار کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ اور امید کرتا ہوں کہ آپ ان عرائض کو سنجیدگی سے لیں گے اور جسارت پر درگزر کریں گے۔

جناب صدر مملکت اور وزیر اعظم صاحب! جیسا کہ آپ جانتے ہیں غاصب صہیونیوں نے فلسطین پر غاصبانہ تسلط قائم کرنے کے بعد اب دنیا بھر میں مسلمانوں کو دہشت گردی کی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اور ساتھ ساتھ عرب ممالک پر دباؤ ڈال کر فلسطین کی شناخت کو ختم کر کے فلسطینیوں کو فلسطین سے مکمل طور پر بے دخل کر کے فلسطین پر اسرائیل نامی جعلی ریاست کا مکمل تسلط چاہتے ہیں۔ صہیونیوں کے ایجنڈے میں پاکستان کو غیر مستحکم کرنا کوئی نئی بات نہیں، تاہم ایسے حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ بانئ پاکستان اور بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح اور مفکر اسلام و پاکستان علامہ اقبال کی فلسطین پالیسی کو موجودہ دور میں واضح اور بھرپور انداز میں بیان کیا جائے۔

چند عناصر غیر ملکی آقاؤں کی ایماء پر پاکستان کی شناخت کو داؤ پر لگانے اور بانیان پاکستان کے نظریات کا قتل کرنے کے در پہ ہیں۔ تاہم پاکستان میں موجود قائد و اقبال کے نظریات و افکار کا قتل کرنے والے صہیونی ایجنٹوں کی بیخ کنی کی جائے اور حکومتی سطح پر ایسے افراد اور عناصر کی حوصلہ شکنی کی جائے۔

جناب صدر مملکت اور جناب وزیر اعظم صاحب! آپ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ دنیا کے وہ واحد رہنماْ تھےْ جنہوں نے فلسطین پر غاصبانہ طور پر قائم کی جانے والی جعلی ریاست اسرائیل کی اس کے قیام سے قبل ہی مذمت کی تھی۔ اور یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جب خارجہ پالیسی کے بنیادی اصول مرتب کئے گئے تو واضح طور پر اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا اصول طے کیا گیا۔ تاہم حکومت کی ذمہ داری ہے کہ بانیان پاکستان کے افکار و اصولوں کے خلاف سرگرم عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ چاہے وہ حکومتی صفوں میں موجود ہوں یا اپوزیشن کی صفوں میں یا پھر کسی اور صف میں۔ پاکستان کے عوام اپنے عظیم قائدین کے سنہرے اصولوں کے مطابق فلسطین کو فلسطینی عوام (فلسطینی عرب) کا وطن تسلیم کرتے ہیں، اور اسرائیل کو بانیان پاکستان کے اصولوں کے مطابق جعلی اور غاصب ریاست سمجھتے ہیں۔ اور اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات کو قطعاً نظریہ پاکستان کی نفی اور آئین پاکستان سے غداری تصور کرتے ہیں۔

جناب صدر مملکت اور جناب وزیر اعظم صاحب! آپ یقیناًیہ بات بھی بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسرائیل ایک نسل پرست صہیونی ریاست ہے جو کہ فلسطین پر مسلط کی گئی ہے۔ اسرائیل کو یہودیوں کی مذہبی ریاست قرار دینے اور جمہوری ریاست کہنے کا نظریہ بھی قطعاً غلط ہے۔ کیونکہ دنیا میں بسنے والے یہودی مذہب کے پیروکاروں کی بہت بڑی تعداد اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم نہیں کرتی، اور اسرائیل کے فلسطین پر قیام کو ناجائز قرار دیتی ہے۔ اس کی ایک مثال یہودی مذہب کے پیروکاروں کی عالمی تنظیم Neturei Karta موجود ہے۔ جبکہ فلسطین پر قبضہ کرنے والے صہیونیوں کی دہشت گرد تنظیمیں ھاگانا اور آئرگن ہیں کہ جنہوں نے فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز تسلط کے لئے ہزاروں فلسطینیوں کا قتل عام اور انہیں جبری طور پر وطن سے بے دخل کیا۔

پاکستانی قوم قائد اعظم اور علامہ اقبال کے بتائے گئے اصولوں پر مبنی پالیسی کے تحت فلسطین کو فلسطینیوں کا وطن قرار دیتے ہیں۔ فلسطین، فلسطینی عربوں کا ریاست ہے، تاہم باہر سے لا کر بسائے گئے صہیونیوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ فلسطین کے جغرافیہ کو تبدیل کریں اور فلسطینیوں کو ان کے وطن سے نکال دیا جائے۔

پاکستان کے عوام فلسطین کی عرب ریاست کی حمایت کرتے ہیں کہ جہاں ہمیشہ سے یہودی، عیسائی و مسلمان عرب شناخت کے ساتھ فلسطین میں بستے رہے ہیں۔ جبکہ غیر فلسطینی یہودیوں کو جن کو باہر سے لا کر آباد کیا گیا ہے ان کا فلسطین پر کوئی حق نہیں۔ یہ فلسطینیوں کا حق ہے کہ وہ اپنے وطن واپس آئیں۔ وہ تمام فلسطینی کہ جن کو صہیونیوں نے فلسطین سے بے دخل کیا ہے اور وہ مختلف سرحدی ممالک میں پناہ گزین کیمپوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں، ان کے حق واپسی کی عالمی سطح پر بھرپور حمایت کی جائے؛ تا کہ فلسطینی عرب اپنے وطن لوٹ آئیں اور آزاد ریاست کے قیام کو یقینی بنائیں۔

جناب عزت مآب صدر اور وزیر اعظم پاکستان صاحب! براہ کرم پاکستان میں فلسطین مخالف پراپیگنڈا کی اجازت ہرگز نہ دی جائے، اور اس کی روک تھام کے لئے سخت سے سخت اقدامات سے گریز نہ کیا جائے۔ اس عنوان سے سنجیدہ نوعیت کے اقدامات کیے جائیں تا کہ مستقبل میں صہیونی ایجنٹوں کے ناپاک ارادے خاک ہو جائیں۔

اسی طرح مسئلہ فلسطین اور فلسطین کاز کی حمایت کےلیے موجود قانون و آئینی اصولوں کے مطابق پاکستان تحریک انصاف بھی اپنا اسرائیل مخالف اور فلسطین حمایت میں بھرپور موقف پیش کرے۔ اسرائیل کو تسلیم نا کرنے اور اسرائیل سے خفیہ یا اعلانیہ تعلقات کی بھرپور نفی کرتے ہوئے رسمی طور پر بیانیہ جاری کیا جائے۔ پاکستان کے عوام اس بات پر مکمل یقین رکھتے ہیں کہ امریکہ میں موجود اسرائیل کی حمایت میں صہیونی لابی کبھی بھی بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے موقف کی کسی بھی فورم پر حمایت نہیں کرے گی، کیونکہ ان صہیونیوں کے بھارت کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں۔ اور اسی طرح امریکہ سمیت پورے کا پورا مغربی بلاک ان کا حمایت یافتہ ہے۔

پاکستانی عوام اچھی طرح مشاہدہ کر رہے ہیں کہ مشرق وسطی کی خلیجی عرب حکومتوں نے اسرائیل کے ساتھ مختلف اقسام کے خفیہ یا اعلانیہ تعلقات قائم کر لیے ہیں، جس کے نتیجہ میں ان کے حصہ میں صرف اور صرف امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے ذلت و رسوائی ہی آئی ہے۔ اور ہمیشہ ایسے عرب ممالک اور ان کے حکمرانوں کی تذلیل امریکی و صہیونی عہدیداروں کی زبان سے ہوتی رہی ہے۔ تاہم عرب ممالک کی ان بادشاہتوں کو اسرائیل سے دوستی کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ہم پاکستانی قوم اس بات پر ٹھوس یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کی فلسطین پالیسی عرب یا دیگر مسلم ملک کی پالیسی پر منحصر نہیں ہونی چاہئے؛ بلکہ ہم پاکستانی ہیں اور قائد اعظم اور علامہ اقبال کے پیروکار ہیں۔ ہمیں بانیان پاکستان سے حاصل ہونے والی انمول اور اصولی فلسطین پالیسی پر فخر ہے۔ امید ہے کہ آپ کی خدمت میں یہ عرائض مظلوم فلسطینی ملت کی حمایت اور پاکستان میں غاصب صہیونی جعلی ریاست اسرائیل کے ایجنٹوں کے تابوت میں ایک کیل کی مانند ثابت ہوں گی۔ خدا آپ کا حامی و ناصر ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں