بنگلہ دیش کیونکر بنا
پاکستان بننے کے بعد یہاں کی قومی زبان ’’اردو‘‘ کو قرار دیا گیا جب کہ اکثریت بنگلہ بولتی تھی۔
بنگلہ دیش بن گیا اورآج وہاں بجلی کے نرخ پاکستان سے ایک تہائی،گیس ایک تہائی، دوا ایک چوتھائی،کتابیں ایک چوتھائی، ٹرانسپورٹ کا کرایہ پچاس فیصد، ہوٹل کا کھانا پاکستان کے مقابلے میں چالیس فیصدکم میں دستیاب ہے، جب بنگلہ دیش خود مختار ملک کے طور پر وجود میں آیا تھا تو اس کے پاس تین پانی کے جہاز تھے اور اب تہتر ہیں۔ (سابقہ مغربی پاکستان)1971ء میں پاکستان کے پاس تہتر پانی کے جہاز تھے اور اب بارہ رہ گئے ہیں۔
تقسیم کے وقت مشرقی پاکستان کی آ بادی سات کروڑ اور مغربی پاکستان کی چھ کروڑ تھی اور اب پاکستان کی بائیس کروڑ اور بنگلہ دیش کی انیس کروڑ ہے۔ شرح تعلیم پاکستان میں سرکاری اعداد و شمارکے مطابق 46 فیصد ہے جب کہ بنگلہ دیش کی 57 فیصد ہے۔ پاکستان کی شرح پیدائش تین فیصد اور بنگلہ دیش کی دو فیصد ہے۔ پاکستان میں براہ راست ٹیکس کی وصولیابی 11 فیصد جب کہ بنگلہ دیش میں 46 فیصد ہے۔
ہمارا ڈالر 141 رو پے کا ہے جب کہ بنگلہ دیش میں ڈالر 83 ٹکہ کا ہے، جب پاکستان 1947ء میں بنا تو اس وقت ایک ڈالرایک روپے کے برابر تھا۔ یہ ساری کارستانی بیرونی قرضوں، سامراجی غلامی اور آئی ایم ایف کے سود کے نتائج ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بنگلہ دیش سامراجی غلامی سے نجات حاصل کر چکا ہے، چونکہ پاکستان نے اپنی سرزمین کو افغان ڈالر جہاد کے لیے استعمال ہونے دیا، جب متحدہ پا کستان تھا تو ایوبی فوجی آمریت میں بڈبیر میں امریکی فوجی اڈہ قائم کرنے دیا گیا تھا، جس پر روس نے سرخ دائرہ بناکر پاکستان کو خبردارکیا تھا۔
پاکستان بننے کے بعد یہاں کی قومی زبان ''اردو'' کو قرار دیا گیا جب کہ اکثریت بنگلہ بولتی تھی۔ دنیا کا یہ وا حد ملک ہے جہاں اقلیت سے اکثریت نے علیحدگی اختیار کی۔ بنگلہ دیش کا قومی ترانہ رابندر ناتھ ٹیگورکا لکھا ہوا ہے، جب کہ ایوبی آمریت میں رابندر سنگیت کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔ ادیبوں، شاعروں، طلبہ، نوجوانوں، لکھاریوں، مزدوروں اورکسانوں کی جا نب سے شدید احتجاج کے بعد یہ فیصلہ واپس لیا گیا تھا۔اکثریتی آبادی بنگالیوں کی تھی، اس لیے ان کا مطالبہ تھا کہ دارالحکومت ڈھاکہ میں قائم کیا جائے۔
چائے،کاغذ اور ناریل وغیرہ مشرقی پاکستان میں پیدا ہوتا تھا، مگر وہاں مہنگا اور مغربی پاکستان میں سستا بکتا تھا۔ مغربی پاکستان میں جب انگور تین روپے کلو تھا تو مشرقی پا کستان میں تین روپے چھٹانک فروخت ہوتا تھا۔ ناریل اگر مشرقی پا کستان میں پچاس پیسے کا تھا تو مغربی پا کستان میں بھی پچاس پیسے کا بکتا تھا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ مشرقی پاکستان کو حق خود اختیاری ( بشمول حق علیحدگی ) دی جائے۔ جس کا مطالبہ آج کشمیری اور فلسطینی بھی کر رہے ہیں۔ ہم نے انھیں حق علیحدگی نہیں دیا مگر ایک الگ ملک کے طور پر تسلیم کرلیا۔
21 فروری 1952ء میں بنگلہ زبان کو قومی زبان کے طور پر تسلیم کروانے کے لیے تحریک چلی جس میں برکت، سلام اور موتیا سمیت متعدد طلبہ جاں بحق ہوئے۔ اس وقت تو بنگلہ زبان کو قومی زبان کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا لیکن 1954ء میں تسلیم کر لیا گیا، اگر 1948ء میں ہی بنگلہ زبان کو بھی قومی زبان کے طور پر تسلیم کر لیا جاتا تو یہ تلخی اور دوری پیدا نہ ہوتی۔ 1952ء کی بنگلہ زبان کی تحریک نے اتنا زور پکڑا اور معروف ہوئی کہ آج اقوام متحدہ نے بھی 21 فروری کو مادری زبان کے یوم کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے جس پر پاکستان کی حکومت بھی عمل کرتی ہے۔
جہاں تک خارجہ تعلقات کی بات ہے تو بنگلہ دیش کے پڑوسی ملکوں ہندوستان، برما، بھوٹان، نیپال اور سری لنکا کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، جب کہ پاکستان کے ہندوستان،افغانستان اور ایران کے ساتھ بہت اچھے تعلقات نہیں ہیں۔
اب تو ڈالر 141 روپے ہونے کے بعد پاکستان میں مہنگائی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہے، جب کہ بنگلہ دیش میں ڈالر 83 ٹکہ کا ہونے کی وجہ سے یہاں کے مقابلے میں ہر چیزکی قیمت کم ہے (سوائے مکان کا کرایہ) اس لیے بھی کہ بنگلہ دیش کا زمینی رقبہ صوبہ سندھ کے برابر ہے۔
بحیثیت مجموعی ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش الگ الگ ممالک کے طور پر وجود میں آنے سے 60 لاکھ انسانوں کا ان عوامل میں قتل تو ہوا لیکن تینوں ملکوں میں بھوک، افلاس،غربت ، جہالت اور بیروزگاری عروج پہ ہے۔ دنیا کے پسماندہ ترین اور افلاس زدہ ملکوں میں ان تینوں ملکوں کا شمارہوتا ہے۔
ان ممالک نے انگریز استعمار سے سیاسی آزادی تو حاصل کر لی، لیکن معاشی آزادی حاصل نہیں کر پائے۔ یہاں طبقاتی نابرابری اورطبقاتی استحصال شدید ہونے کی وجہ سے طبقاتی خلیج میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا کی چالیس فیصد غربت برصغیر میں پلتی ہے۔ تقریبا پچاس کروڑ عوام بیروزگار ہیں۔ بنگلہ دیش کے محنت کشوں کی تنخواہیں چھ ہزار ٹکا سے زیادہ نہیں۔ خودکشیاں،عصمت فروشی اور فاقہ کشی عروج پہ ہیں۔ صرف دس لاکھ مزدور ڈھاکہ شہر میں سائیکل رکشہ چلاتے ہیں، جن میں اسی فیصد رکشہ والے ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہیں۔ ننگے پاؤں، پھٹی دھوتی پہنے زندہ انسانی نما ڈھانچہ رکشہ کھینچتا رہتا ہے۔ان کی محنت سے صرف ڈھاکہ شہرکے پچاس لاکھ لوگ پلتے ہیں۔ گارمنٹ کے مزدورجدید غلامی میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اپنے مطالبات پر ہڑتال کرنے والے مزدورگولیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔
اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ترقی یافتہ ملکوں کے محنت کش خوشحال ہیں۔ امریکا میں تین کروڑ بیروزگار ہیں، سعودی عرب میں 12.5 فیصد لوگ بیروزگار ہیں ۔ جرمنی میں ساٹھ لاکھ ، جاپان میں پینسٹھ لاکھ، فرانس اور برطانیہ میں پچیس پچیس لاکھ لوگ بیروزگار ہیں۔ حال ہی میں فرانس کے محنت کشوں، امریکا کے اساتذہ، برطانیہ کے کان کن اور چین میں لاکھوں مزدوروں کی ہڑتالیں اور احتجاجی مظاہرے اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ دنیا بھر میں طبقاتی خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ یو این اوکے مطابق اس دنیا میں ایک لاکھ افراد ہر روز بھوک سے مر رہے ہیں جب کہ دنیا کی آدھی دولت کے مالک صرف آٹھ افراد ہیں۔ دوسری جانب دنیا کی پانچ سیکیورٹی کونسل کے ارا کین اسلحے کی سترفیصد پیداوارکرتے ہیں۔
اسٹاک ہوم پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق روس کے مقابلے میں امریکا 58 فیصد زیادہ اسلحے کی پیداوار کرتا ہے۔ ہندوستان نے اپنے دفاع میں 2012-16ء کے مقابلے میں 43 فیصد اضافہ کیا ہے جب کہ پاکستان نے 2017ء کے مقابلے میں 2018ء میں 19فیصد کا اضافہ کیا ہے۔ امریکا سے سب سے زیادہ اسلحہ متحدہ عرب امارات کی ریاستیں خریدتی ہیں۔ امریکا ہر سال 85 ارب ڈالرکا چھوٹا اسلحہ دنیا کو بیچتا ہے۔ 2013- 17ء کے عرصے میں چین نے دفاعی اخراجات میں 38 فیصد کا اضافہ کیا ہے۔ ستمبر 2013ء سے فروری 2018ء تک چین کے محنت کشوں نے 900 سے زیادہ دھرنے،کام کی جگہ کی ناکہ بندی اور مظاہرے کیے۔ 2015ء سے 2017ء کے دوران چین میں 6694 ہڑتالیں رپورٹ ہوئی ہیں۔
اس طبقاتی استحصال کے خاتمے کا واحد راستہ ایک محنت کشوں کے انقلاب کے ذریعے امداد باہمی کا آزاد معاشرہ یا پنچایتی سماج یا کمیونسٹ نظام کا قیام ہے۔ جہاں ساری دولت کے مالک عوام ہوں۔