پاکستانیوں کو اپنا جائزہ لینا ہوگا
آزاد وطن میں ہر دین ومذہب کا ہر فرد ملکی ترقی واستحکام میں برابر درجہ رکھتا ہے۔
ایک خبر کی سرخی پڑھ کر محسوس ہوا، یہ سرخی تو وطن عزیز کے وقار کو مجروح کر رہی ہے کہ چلیے پہلے سرخی پر دوبارہ ایک نظر ڈال لیجیے ''مذہبی آزادی کی خلاف ورزیاں، امریکا نے پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈال دیا '' ہمیں تو اس سرخی میں اپنے ملک کی سبکی محسوس ہوئی کہ امریکا گویا ''عالمی داداگیر ہے کہ جس کو چاہے بلیک لسٹ جس کو چاہے گرے، وائٹ اور گرین لسٹ میں ڈال دے۔'' بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی۔
ہمارے خیال میں تو سرخی کچھ یوں ہونی چاہیے تھی کہ ''مذہبی آزادی کی مسلسل خلاف ورزیوں کے باعث پاکستان ازخود با رضا و رغبت بلیک لسٹ میں شامل ہوگیا ہے'' خبر کی حقیقت و صداقت پر تو کوئی فرق نہ پڑتا مگر ہماری آن بان بلکہ شان میں ضرور اضافہ ہوجاتا۔
جب پاکستان معرض وجود میں آیا تھا تو اس کے پس پشت یہ فکر تھی کہ ہندوؤں کی بالادستی سے آزاد ہوکر اپنے دین کے مطابق ہر اعتراض کے بغیر ہر روک ٹوک سے لاپرواہ ہوکر اپنے اپنے انداز سے اپنی مذہبی رسومات کو ادا کی جاسکیں گی۔ کوئی کسی کے رسم و رواج پر اعتراض کرے گا نہ اثر انداز ہوگا ۔ قائد اعظم نے بھی واضح طور پر فرما دیا تھا کہ پاکستان میں بسنے والے ہر مذہب کے افراد اپنی اپنی عبادت گاہوں میں بلاروک ٹوک نہ صرف عبادت کرنے کے حق دار ہیں بلکہ مکمل آزادی سے اپنی مذہبی رسومات پر عمل کرسکے۔
آزاد وطن میں ہر دین ومذہب کا ہر فرد ملکی ترقی واستحکام میں برابر درجہ رکھتا ہے۔ قیام پاکستان کے ابتدائی سال میں ہر پاکستانی بلاامتیاز رنگ و نسل، علاقائی و لسانی، مذہبی و فقہی جذبہ حب الوطنی سے سرشار ملکی تعمیر و ترقی میں اپنی اپنی بساط و ہمت سے زیادہ مگن تھا۔ اس دور میں اخبارات، ریڈیو، افواج، عدلیہ اور کئی بڑے بڑے منصبوں پر غیر مسلم ایک پاکستانی کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے اور معاشرے میں کسی قسم کی کوئی تفریق نہ تھی، لیکن نجانے کب اورکیسے تعصب کی جھلسا دینے والی ہوا چلنے لگی، علاقائی، لسانی، سیاسی اور پھر مذہبی ہر طرح کا تعصب اس معاشرے کو کھانے لگا رفتہ رفتہ پاکستانی، پنجابی، بلوچی، بنگالی، سندھی، پختون اور مہاجر بن گئے جو اپنے سوا ہر کسی کو برحق تسلیم نہ کرتے۔ ہر ایک کی معاشرت، زبان، رسم و رواج پر ہر وقت تنقید کی جانے لگی، سوائے ''خود کے'' باقی سب کو غیر مہذب، اجڈ سرزمین وطن کے دشمن اور بے کار قرار دیا جانے لگا۔
جب سے رواداری، بھائی چارے اور نیک نیتی کو بالائے طاق رکھ کر دین اسلام کے نام پر فرقوں کی تبلیغ شروع ہوئی معاشرہ بظاہر اسلامی شعائر پر گامزن مگر باطنی طور پر فقہی اختلافات، تنگ نظری اور منافقت کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ دین اسلام کے بجائے فقہی سیاست کو فروغ دیا جانے لگا، اس طرز جدید نے معاشرے اور قوم کو تقسیم در تقسیم کرکے افراد قوم کے درمیان خلیج حائل کردی، محبت، اخوت جذبہ وطن پرستی پر اس صورتحال نے ضرب کاری لگائی اور پاکستانی رفتہ رفتہ لسانی اور علاقائی برتری میں مبتلا ہوکر ایک دوسرے سے لاتعلق ہوتے گئے۔
ابتدائیہ دور اس لحاظ سے مثالی تھا کہ لوگ خود کو پاکستانی کہلاتے ہوئے فخر محسوس کرتے تھے۔ وطن عزیز میں بسنے والے عیسائی، ہندو، پارسی، سکھ بہت کم تعداد میں ہی سہی یہودی اپنی مذہبی شناخت کو چھپاتے نہ تھے بلکہ ایک دوسرے کے دین وعقیدے سے واقف تھے ۔اس اختلاف کے باوجود وہ سب پاکستانی تھے خوش و مطمئن تھے۔کوئی کسی کو شک اور نفرت کی نظر سے نہیں دیکھتا تھا۔ سب اسی معاشرے میں اپنی مکمل صلاحیتوں کے ساتھ خدمت وطن میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں مسرور تھے۔
خاص کر مسلمان تو لَکُم دینُکم پر کار بند تھے۔ یوم حساب اور مالک یوم حساب پر یقین کامل رکھتے تھے، خود کو ہی مالک یوم حساب نہیں سمجھ لیتے تھے۔ فرقہ کوئی ہو ایمان سب کا یہی تھا کہ سب کو اپنی اپنی قبر میں جانا ہے اور اپنے اعمال کا حساب اس ذات واجب کو جو ظاہر و باطل، نیت اور دل کے پوشیدہ اسرار، جو پلکوں کی حرکت اور نگاہوں کے اشاروں سے واقف ہے کو دینا ہے۔ مگر جانے کب لوگ اچانک ''حقیقی مسلمان'' ہوگئے کہ اپنے علاوہ ہر کسی کو خارج اسلام، بدعتی اور دشمن اسلام سمجھنے لگے۔
اب سرزمین پاک پربائیس کروڑ افراد میں سے صرف وہ مسلمان، صاحب ایمان، نیک اور دین دار ہے جو باقی سب کو جہنمی، کافر اور واجب القتل قرار دے۔ یہ بات بالکل الگ ہے کہ اسلام کے علاوہ ہر دین کا پیروکار (غیر مسلم) کا قتل کب سے عین اسلام اور شریعت محمدیؐ قرار دیا گیا اور ناموس رسالتؐ پر خون خرابہ قتل و غارت گری کرنے والے نبی اکرمؐ کے اسوہ حسنہ اور سیرت طیبہ میں جانے کب اور کیسے یہ افعال شامل کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ جو ''ہمارا ہم خیال نہیں وہ زندہ رہنے کا حق دار نہیں۔''
پاکستان کے دشمن اور دل سے پاکستان کو تسلیم نہ کرنے والے روز اول سے اس پاک وطن کو (خاکم بہ دہن) صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتے ہیں ۔ کم علمی اور دین اسلام کی روح کو نہ سمجھنے والے دانستہ و نادانستہ ان دشمنان پاکستان کے آلہ کار بن کر بظاہر خدمت اسلام کے پردے میں نہ صرف وطن عزیزکو بلکہ دین حق کو جو نقصان اپنی دانست میں پہنچا رہے ہیں ان کو ذرا اندازہ نہیں کہ دین حق قیامت تک کے لیے ہر انسان کا رہبر و رہنما ہے اور اس کی حفاظت و ذات واجب فرما رہی ہے جو ازل تا ابد ہر دور اور ہر زمانے میں اپنے پسندیدہ دین کی سربلندی کا وعدہ کرچکا ہے۔
اب اگر امریکا پاکستان کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کے باعث بلیک لسٹ کرتا ہے تو پاکستانیوں کو اپنے طرز عمل کا وسیع و قلبی اور وسعت نظر سے جائزہ لینا ہوگا۔ تاؤ کھانے کے بجائے یہ سمجھنا ہوگا کہ معاذ اللہ دین اسلام نہیں بلکہ پاکستان پر الزام عائد کیا گیا ہے جو ہمارے مذہبی رہنماؤں کے لیے سوچنے اور سمجھنے کا مقام ہے۔ نہ اسلام خطرے میں ہے اور نہ اس پر کبھی آنچ آسکتی ہے۔