نئے زمانے کا میلہ یعنی لٹریچر فیسٹیول
پھر سوکھے میں یہ بہار کیسے آئی۔ بس یہ سمجھو کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔
صاحب یہ تو بہت مشکل آ پڑی ہے۔ اب ہمارا یہ حال ہو گیا ہے کہ گھر سے قدم نکالتے ہیں تو یار پوچھتے ہیں۔ کدھر کی مار ہے۔ کیا پھر کوئی لٹریچر فیسٹیول آ گیا۔ ویسے وہ بھی سچے ہیں، پچھے ایک ڈیڑھ برس میں لٹریچر فیسٹیول اس طرح تابڑ توڑ ہوئے ہیں کہ ہم خود حیران ہیں۔ پاکستان میں ادب کے نام کوئی سیمینار' کوئی قومی بین الاقوامی کانفرنس مشکل ہی سے ہوتی تھی۔ ایسے دعوت نامے یاروں کو ہندوستان سے آیا کرتے تھے۔ اور ہم ادھر آتش رشک میں جلتے تھے کہ ہندوستان میں ادب کے نام پر اتنی گہما گہمی اور پاکستان میں اسی تناسب سے سناٹا۔
پھر سوکھے میں یہ بہار کیسے آئی۔ بس یہ سمجھو کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ یہ سب کیا دھرا برٹش کونسل اور آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کا ہے۔ ان کے لٹریچر فیسٹیول کا جب چرچا ہوا تو ادھر بعض پاکستانی اداروں کو بھی جھرجھری آئی۔ بس پھر چل سو چل۔
بارے بیاں ہو جائے کہ اس بدعت کی ابتدا کیسے ہوئی۔ ہم تو لٹریچر فیسٹیول ہی سے نا آشنا تھے۔ ہماری تہذیب تو میلوں ٹھیلوں سے مانوس چلی آتی ہے۔ مگر اب میلے ٹھیلے بھی ٹھنڈے پڑ چکے ہیں۔ لاہور میں لے دے کے ایک ہی میلہ رہ گیا ہے۔ میلہ چراغاں۔ اس کی بھی رونق ماند پڑ گئی ہے۔ بسنت میلہ نے پچھلے برسوں میں بہت زور پکڑا تھا۔ مگر اسے ملاؤں اور حکومت پنجاب نے مل کر اجاڑ دیا۔
لٹریچر فیسٹیول' یہ نئے زمانے کی سوغات ہے۔ انواع و اقسام کے فیسٹیول کا ذکر سنتے چلے آئے تھے۔ لٹریچر فیسٹیول کا نام ہم نے اس وقت سنا جب خبر آئی کہ ہندوستان میں جے پور میں کوئی دھوم کا لٹریچر فیسٹیول ہوا ہے۔ شاید یہ دساور کا مال تھا۔ سمجھ لیجیے کہ مغرب سے درآمد ہوا تھا۔ پھر ہمارے یہاں کراچی میں ایک لٹریچر فیسٹیول ہوا۔ یہ بھی بدیشی مال تھا۔ برٹش کونسل اور آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے مل کر اس کا ڈول ڈالا تھا اور صرف انگریزی لکھنے والوں تک محدود تھا۔ بعد میں دیسی مال کی ملاوٹ اس میں ہوئی اور ہوتی ہی چلی گئی۔ پھر تو اس فیسٹیول کی شکل اور نکھر گئی۔
مگر ہم سمجھتے تھے کہ لٹریچر فیسٹیول ڈھائی تین دن کا کھیل ہے۔ یہ تو اب ہم پر کھلا کہ جہاں سے یہ برآمد ہوا ہے وہاں تو اس کی میعاد ایک ایک مہینے تک مقرر ہے۔ اب جو ہم نے لندن کا پھیرا لگایا تھا تو ایک ایسا ہی فیسٹیول دیکھنے کا موقع میسر آیا۔ اس کی شان ہی اور تھی۔
لندن سے دور کوئی بھلا سا شہر ہے وہاں یہ فیسٹیول تھا اور لٹریچر فیسٹیول کے نام سے برپا ہوا تھا۔ اس شہر کا نام اس لیے ہمیں یاد نہیں آ رہا کہ اس کے اندر تو ہم نے قدم رکھا ہی نہیں۔ اس کے نواح میں فیسٹیول والوں نے اپنا الگ نگر بسا رکھا تھا۔ اسے ادب کی نگریا کہہ لیجیے۔ بس اسی بستی میں ہم گھومتے پھرتے رہے۔ جدھر سے گزرے ادیب ہی نظر آئے۔ جس طرف نظر دوڑائی ادھر لکھنے والوں یا لکھنے والیوں ہی کا چہرہ زیبا نظر آیا۔ پھر ایک دن اچانک دھوپ نکل آئی تو وہ جو اس نگریا میں وسیع و عریض لان تھے وہاں لکھنے والے' لکھنے والیاں' اور ان کے بچے کچے۔ سب دھوپ لینے کے لیے سبزہ زاروں میں آ کر پسر گئے۔ تب ہمیں احساس ہوا کہ یہاں ادب معہ اہل و عیال کے وارد ہوا ہے۔
دو دن تین دن کا لٹریچر فیسٹیول ہو جسے پہلے ہم سیمینار کہنا پسند کرتے تھے تو ادیبوں کی دلچسپی برقرار رہتی ہے کہ کونسے سیشن میں ادب کا کونسا مسئلہ زیر بحث ہے یا کونسے سیشن میں کونسے ادیب سے بات چیت ہو رہی ہے۔ دوڑ کر جانا اور دلچسپی سے سننا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ مگر جب فیسٹیول کھنچ کر پورے ایک مہینے میں پھیل جائے تو اس طرح کی دلچسپی کیسے برقرار رہ سکتی ہے۔ سو ہم نے یہی دیکھا کہ جس سیشن میں جس جس کی باری آئی وہ لپک جھپک وہاں گیا اپنی باری نبٹائی اور باہر آ کر ادیبوں کے شغل اشغال میں شامل ہو گیا۔ ادیبوں کے شغل اشغال کیا۔ ملا کی دوڑ مسجد تک۔ اور شاعر کی دوڑ میخانے تک ع
الایا ایہا لساقی ادر کاساً و نا ولہا
اور ہاں کوئی بہت فالتو ادیب ہو گا جو ایک مہینے تک یہاں پڑاؤ ڈالے پڑا رہے گا تو طور یہ نظر آیا کہ جس کا جس دن پروگرام ٹھہرا تھا اس دن وارد ہوا' اپنا پروگرام کیا۔ پھر ادیبوں کے شغل میں شریک ہوا۔ دوسرے تیسرے دن سلام رخصتی کیا اور یہ جا وہ جا۔ جیسا دیس ویسا بھیس۔ ہمیں بھی یہی کرنا تھا ہم نے کیا۔ ہمارے ساتھ بھی آصف فرخی کو گورے ادیبوں اور ادیباؤں سے ملنے کا بہت شوق تھا۔ وہ ملتے جلتے رہے۔ ہم دور سے یاران فرنگ کو دیکھتے رہے اور چائے پیتے رہے اور میز پر بکھر ے اخبار رسالے الٹ پلٹ کرتے رہے۔ کچھ پڑھا' کچھ نہ پڑھا۔ مطالعہ میں جو کمی رہ گئی وہ کمی تصویریں دیکھ کر پوری کی۔
صفحات کے الٹے پلٹتے ایک صفحہ پر ہماری نظر ٹک گئی۔ وہاں اس فیسٹیول کی افتتاحی تقریب کا احوال درج تھا۔ اس افتتاحی تقریب میں ایک دکھی ماں مہمان خصوصی تھی۔ کوئی لکھنے والی تھی نہیں۔ ادیب' ناول نگار۔ نہیں۔ پھر کس تقریب سے مہمان خصوصی تھی۔ اس تقریب سے کہ یہ ایک فوجی جوان کی ماں تھی۔ اس زمانے میں افغانستان میں جو ہنگامہ کار زار گرم ہے۔ اس میں وہ مارا گیا۔ فیسٹیول کے کرتا دھرتا اس کی دکھی ماں کو مہمان بنا کر لائے اور مہمان خصوصی کی اسے عزت بخشی۔ اچھا ہوتا کہ وہ تقریر جہاں تہاں سے ہمارے حافظہ میں ہوتی تو وہ نقل کر دیتے۔ باتیں تو وہی کیں جو کسی بھی ماں کو کرنی چاہئیں۔ اس گفتگو کے آخری فقرے ہمیں یاد رہ گئے ہیں۔ سو اس نے اس بیان پر گفتگو ختم کی کہ پتہ نہیں اس جنگ کا انجام کیا ہو گا لیکن اگر وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت بھی لیں تو ویسے تو یہ خوشی کی بات ہے۔ مگر میرا بیٹا تو گیا۔ وہ تو اب واپس نہیں آئے گا۔
ادھر ہم سوچ رہے تھے کہ وہ ایک دکھی ماں تھی جسے اس دیار کے ادیب کس اہتمام سے اپنی ادبی تقریب میں لائے اور اس کی باتیں احترام سے سنیں۔ ادھر ہمارے ملک میں تو دکھی مائیں اس وقت قطار اندر قطار ہیں۔ اور یہ قطار بڑھتی ہی چلی جا ہی ہے ع
روئیے کس کس کو اور کس کس کا ماتم کیجیے
موت کا بازار گرم ہے۔ اس گرم بازار میں انسانی جان کتنی ارزاں ہو گئی ہے۔ اس ارزانی نے ہمیں بے حس بنا دیا ہے۔ دکھی ماؤں' بیواؤں' یتیم بچیوں کی قطار لمبی ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ٹک ٹک دیدم۔ دم نہ کشیدم ع
اور آگے دیکھئے ابھی کیا کیا ہے دیکھنا