معاشرتی گھٹن
اس واقعے کے بعد وہ بستر پر پڑگیا اور آخری بڑے تجربے کا انتظار کرنے لگا وہ پراعتماد اور پرسکون تھا.
اس کا کہنا تھا کہ انسان کی بہتری میرا فریضہ ہے عقل کی نئی تہذیب کی بنیاد رکھنا میرا فرض ہے وہ محسوس کرتا تھا کہ اسے انسان کو اپنے مقدرکا خالق بننے کادرس دینا چاہیے ۔ ایک دن وہ گھوڑے کی پیٹھ پر سوار موت کے بعد انسانی جسم کی بقاء کے مسئلے پر غورکررہا تھا۔ وہ گھوڑے سے اترا ایک پرندے کو ہلا ک کیا اس کو برف میں بھرا مشاہدے کی غرض سے وہ اس مردہ پرندے کو گھر لانے ہی والا تھا کہ اچانک کپکپی نے اس کو آلیا وہ ایک قریبی گھر پر رک گیا اور پرچی لکھ کر اپنے ایک دوست کو بلوا بھیجا۔
اس واقعے کے بعد وہ بستر پر پڑگیا اور آخری بڑے تجربے کا انتظار کرنے لگا وہ پراعتماد اور پرسکون تھا وہ جانتا تھا کہ جہاز جب لنگر اٹھائے گا تو وقت کے مدوجزر سے بے نیاز ایک عظیم جزیرہ اس کا منتظر ہوگا یہ اس کا اپنا یوٹوپیا تھا جو ابدیت کی روشنی میں دمکتا تھا یہ اس کی اپنی ارض موعودہ تھی جس پر خوش باش لوگ رہتے ہیں اور جس کی باگ ڈور دانا اور روشن خیال لوگوں کے ہاتھ میں ہے وہاں نہ تو سیاست دان ہیں اور نہ ہی عہدوں کے بھوکے لوگ،اس کے بجائے سائنس دانوں کیمیا دانوں ، حیاتیات، طبعیات ،عمرانیات اور فلکیات کے ماہرین اورفلسفیوں کے ہاتھوں میں اس کا نظم و نسق ہے وہ انتخابی مہم کی شعلہ انگیز تقریریں کرتے ہیں اور نہ ہی سیاسی وعدوں کے ذریعے ہجوم اکٹھے کرنے میں رہتے ہیں اس کے بجائے وہ ستاروں پر نظریں جماتے ہیں صنعت کے لیے پن بجلی کو قابو میں کرتے ہیں علم تشریح الاعضا کا مطالعہ کرتے ہیں بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے علاج بخش مرہمیں بناتے ہیں وہ ہواؤں میں اڑنیوالے اور سمندری لہروں کے نیچے سفر کرنیوالے جہاز بناتے ہیں۔ وہ سونے ،چاندی ،ریشم کے لیے تجارت نہیں کرتے بلکہ وہ یہ کام خدا کی تخلیق اول کی خاطر کرتے ہیں یعنی روشنی کے لیے۔ یہ عظیم انسان فرانسس بیکن تھا ۔ جس کی تلقین یہ تھی کہ انسان کو جان لینا چاہیے کہ انسانی معاملات کے تھیٹر میں صرف دیوتا اور فرشتے ہی تماشائی ہوسکتے ہیں ۔
وہ دور جدید کا سب سے طاقتو ر ذہن ہے وہ کہتا ہے عقل کی صفائی پہلا قدم ہونا چاہیے ہمیں چھوٹے بچوں کی طرح بتوں اور تجریدات سے مانوس اورتعصبات سے صاف ہونا چاہیے۔ ہمیں ذہن کے بتوں کو برباد کردینا چاہیے بیکن کے بقول بت ایک تصور ہوتا ہے جس کو حقیقت سمجھ لیا جاتا ہے۔ یعنی ایک خیال کو غلطی سے ایک شے سمجھ لیاجاتا ہے انسانی غلطیاں اسی عنوان کے تحت ہوتی ہیں۔
کانڈیلیک نے کہا ہے کہ انسانی غلطی کے اسباب کو بیکن سے بہتر کسی نے نہیں جانا ۔ یہ بت وہ ہوتے ہیں جو انسانی ذہن کی راہ روکے ہوئے ہیں ان کی 3 اقسام ہیں (1) قبیلے یا گروہ کے بت، بتوں کی یہ قسم اس گروہی یا عالمگیر مغالطے کو پیش کرتی ہے کہ انسان تمام اشیاء کا معیار ہیں اس کے زیر اثر انسان کائنات کا تجزیہ اس انداز سے کرتا ہے کہ گویا کائنات کا یہ سارا کھیل اس کی سہولت کے لیے رچایا گیا ہے ۔ اس نے بتوں کی دوسری قسم کو غارکے بتوں کا نام دیا ہے بات یہ ہے کہ ہرفرد کی اپنی کوئی نہ کوئی غار یا کھوہ ہوا کرتی ہے جو فطرت کی روشنی کو مسخ کر دیتی ہے ۔ اس نے بتوں کی تیسری قسم کومنڈی کے بت کہا ہے ۔ یہ بت لین دین اور انسانوں کے ایک دوسرے کے ساتھ میل ملاپ سے وجود میں آتے ہیں اس کا دعویٰ ہے الفاظ کے خراب اور غیر موزوں تشکیل سے ذہن کی راہ میں عجیب و غریب رکاوٹیں کھڑی ہوجاتی ہیں۔
ارسطو کی طرح وہ بھی انقلابات سے بچنے کے لیے کچھ نصیحتیں کرتا ہے ۔ بغاوتوں سے بچنے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ان کے مواد کو دور کر دو کیونکہ اگر ایندھن تیار ہو تو یہ بتانا مشکل ہے کہ وہ شعلہ کہاں سے آئے گا جو ان سب کو آگ لگادے گا، بحث و مباحثے کو بہت شدت سے دبانے سے ہرگز مرض کا علاج نہیں ہو سکتا ۔ بغاوت کا مادہ دو قسم کا ہوتا ہے بہت زیادہ افلاس اور بہت زیادہ بے اطمینانی ۔ بغاوتوں کے اسباب اور محرکات یہ ہیں مذہب میں نئی باتیں نکالنا ، محصول قوانین اور دستوروں کی تبدیلی، حقوق کی پامالی ، عام ظلم ،نالائق اشخاص اور اجنبیوں کی ترقی سخت جھگڑے اور وہ سب چیزیں جو لوگوں کو برہم کرکے انھیں متحد کردیں۔
انقلاب سے بچنے کا ایک بہتر نسخہ یہ ہے کہ دولت کو انصاف کے ساتھ تقسیم کیا جائے روپیہ کھاد کی طرح سے ہے یہ اس وقت تک اچھا نہیں ہوتا جب تک کہ پھیلایا نہ جائے گا۔ بیکن کہا تھا کہ انسان سیدھے کھڑے ہونے والے حیوان نہیں ہیں بلکہ وہ لا فانی دیوتا ہیں خالق نے ہم کو ایسی روحیں عطا کی ہیں جو تمام عالم کے مساوی ہیں مگر اس کے ساتھ ہی وہ ایسی ہیں کہ ایک عالم ان کی سیری کے لیے کافی نہیں انسان کے لیے ہر شے ممکن ہے۔ آدمی کو آدمی سے نہیں لڑنا چاہیے بلکہ ان رکاوٹوں سے لڑنا چاہیے جو انسان کی کامیابی میں حائل ہوں ۔ گوئٹے نے کہا کہ ایک شخص کی کمزوریاں تو اس کے زمانے سے ماخوذ ہوتی ہیں مگر اس کی نیکیاں اور اس کی عظمت خود اس کی ذات کی ہوتی ہے ۔جب کہافلاطون کہتاہے کہ ہم آسانی سے بچے کواندھیرے سے ڈرنے پر معاف کر دیتے ہیں جب کہزندگی کا اصل المیہ یہ ہے کہ آدمی جب روشنی سے ڈر رہاہو۔
آج ہمارا معاشرہ سخت حبس اور گھٹن کا شکار ہے کیونکہ ہم نے پہلے ہی دن سے روشنی اور تازہ ہوا آنے کے تمام راستے، سخت جدوجہد کے بعد بند کر دیے تھے اندھیروں میں رہ رہ کر ہماری عقل میں نفرتوں ، تعصبات اور توہمات کے جالے بن چکے ہیں ، روشنی سے ہمیں نفرت ہوچکی ہے ، سوچنے اور فکر کر نے سے ہمیں الر جی ہے تاریخ سے سیکھنے سے ہمیں چڑ ہے ماضی میں رہنا ہمارا قومی فریضہ بن چکا ہے ۔ ہم 3 قسم کے بتوں کی دن رات پوجا میں اس قدر مصروف ہیں کہ دنیاکی طرف دیکھنے کی نہ تو ہمیں فرصت ہے اور نہ ہی ہمیں دیکھنے کی خواہش ہے ۔
بھوک کے بت : اقتدار ، اختیار، طاقت ، دولت کی ایسی بھوک کا ہمیں سامنا ہے جو کسی بھی طرح ختم نہیں ہو پا رہی ہے، دوسری قسم کے بت جس کا ہمیں سامنا ہے وہ ہے عدم برداشت کے بت : ہم چاہیں سیاست دان ہوں یا مذہبی رہنما یا عام آدمی یا تاجر ہم ایک دوسرے کو کسی بھی قیمت پر برداشت کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں ۔ تیسرا بت جس نے پوری قوم کو عذاب میں مبتلا کررکھا ہے وہ ہے مذہبی انتہا پسندی کا بت۔جس کی وجہ سے آج ہم دنیا بھر میں ذلیل و خوار ہو چکے ہیں ہر طرف سے ہمیں گالیاں سننے کو مل رہی ہیں ۔ پوری دنیا ہمیں نفرت سے دیکھ رہی ہے ۔ ہماری مکمل تباہی اور بربادی کے پیچھے ان ہی تینوں بتوں کا ہاتھ ہے ۔ ان ہی بتوں کی وجہ سے ہمارے لوگوں کو بے انتہا افلاس اور بے اطمینانی کا سامنا ہے ہمارے سماج میں بغاوت کا سارا کا سارا ایندھن تیار ہے کہیں سے بھی شعلہ آسکتا ہے جو سب کچھ جلا کر راکھ کر دے گا اس وقت کچھ بھی اچھا نہیں ہے ۔ ہمارے پاس اب بالکل وقت نہیں بچا ہے ہم سے زیادہ براوقت کسی اور قوم پر کبھی نہیں آیا ہے ۔ لیکن آج بھی ہم اپنے بتوں کی پوجا میں مصروف ہیں اور چین کی بانسری بجانے میں اس قدر مشغول ہیں کہ ہمیں دیکھنے سوچنے اور ڈرنے کی کوئی پروا نہیں ۔ اگر ہم نے اپنی مکمل تباہی اور بربادی کا تہیہ ہی کر لیا ہے تو اور بات ہے لیکن اگر ہم اپنے آپ کو بچانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ایک لمحہ ضایع کیے بغیر اپنے بتوں کو برباد کرنا ہوگا اپنی عقل کی صفائی کرنا ہوگی اور روشنی، تازہ ہوا آنے کے تمام راستے جو ہم بند کیے بیٹھے ہیں فوراً کھولنا ہونگے اور ہمیں ماضی کی بجائے حال میں رہنا ہوگا ورنہ تباہی اور بربادی اب بالکل ہی سامنے ہے۔