تارکین وطن کو ان کے حقوق کب ملیں گے

دیارِغیر میں پرمشقت زندگی گزارنے والوں کے عالمی دن کے حوالے سے خصوصی تحریر۔


دیارِغیر میں پرمشقت زندگی گزارنے والوں کے عالمی دن کے حوالے سے خصوصی تحریر۔ فوٹو: فائل

برصغیر کی پرانی تاریخ میں جب ہندوستان میں مسلمان نہیں آئے تھے تو اس معاشرے میں ذات پات کی تقسیم پہلے پیشوں کی بنیاد پر ہوئی مگر بعد میںان پیشوںکے اعتبار سے سماج میں عزت اور مراتب بننے سے اور حکمرانی کی طاقت کے لحاظ سے یہ تقسیم سماجی مساوات،عدل کے خلاف ہوتی گئی۔

برہمن معتبر ہوا کہ علم اور مذہب پر اس کی اجارہ داری قائم ہوگئی،کشتری حکمران اور فوجی بنتے مگر مذہبی لحاظ سے یہ برہمن سے مرتبے میں کم تھے، پھر ویش تھے جو تجارت اور کاروبار کرتے تھے مگر دونوں یعنی برہمن اور کشتری سے درجے میں کم تھے اور آخر میں شودر تھے جو آبادی کے تناسب کے لحاظ سے تو تینوں کے مقا بلے زیادہ تھے مگر ان کو بہت کمتر سمجھاجاتا تھا، یہ سب کی خدمت کرتے تھے۔

اس معاشرے میں ویسے تو بہت سی سماجی ناانصافیاں تھیں جن کی وجہ سے سماجی ترقی کا عمل صدیوں تک منجمد رہا لیکن ایک سماجی قانون ایسا بھی تھا جو تمام طبقات کے لئے یکساں تھا اور مجموعی طور پر معاشرتی، تہذیبی ترقی کے لیے غالباً سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوا وہ یہ تھا کہ ہندو مت میں ہندوستان سے باہر جانے یا سمندر کا سفر کرنے سے دھرم نشٹ ہوجاتا تھا یہ قانون شائد اس لیے بنایا گیا ہوگا کہ کوئی اس ملک سے اگر باہر جائے گا تو دنیا کے دیگر معاشروں سے متعلق معلومات اور علم لے کر جب واپس ہوگا اور ان خیالات سے معاشرے کو آگاہ کرے گا تواس طرح برہمنوں کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی۔

ایک طویل عرصے تک تو اس قانون کی وجہ سے ہندوستان ہر طرح کے بیرونی افکار اور خیالات سے محفوظ رہا مگر پھر یہ ہوا کہ یہاں سے ہندو تو باہر نہیں گئے مگر بیرونی حملہ آور ہندو ستان آنے لگے اور ان لوگوں میں سے ہر آنے والے حملہ آور اور خصوصاً فاتحین اور حکمرانوں نے نہ صرف ہندوستان کے علاقے فتح کئے بلکہ یہاں کے فرسودہ معاشرے کے قدیم اور فرسودہ معاشرتی اور تہذیبی قوانین کو بھی تسخیر کرکے یا تو ان کو ختم کرکے نئے معاشرتی افکار کو متعا رف کروایا، یا پھر ان میں وقت کے تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں کر دیں اس سلسلے میں آخری اور اہم تبدیلیاں انگریزوں نے کیں یہ تبدیلیاں سائنس اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے بھی تھیں اس لیے پورا سماجی ڈھانچہ ہی تبدیل ہوگیا۔

برطانیہ کے دور اقتدار میں علاقائی، سماجی، سیاسی شعور کی بیداری کے لحاظ سے اہم ترین موڑ پہلی جنگ عظیم تھی جو 1914 سے1918 تک جاری رہی، یہ وہ دور ہے جب ایک جانب بھارت کے عظیم لیڈر کرم چند موہن داس گاندھی ایک نوجوان ایڈوکیٹ کی حیثیت سے ایک برطانوی نوآبادیاتی ملک جنوبی افریقہ میں وکالت کرنے ملک سے باہر گئے تو جب پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو لاکھوں ہندوستانی برطانوی فوج میں شامل ہوکر دنیا کے مختلف محاذوں پر لڑنے گئے ان میں ہندو، مسلمان، سکھ سبھی شامل تھے یوں ایک بڑی تعداد میں ہندوستان سے باہر جا کر روزی ، رزق کمانے کا اس خطے کے لوگوں کا یہ پہلا اور بڑ ا تجربہ تھا۔ انگریزوں نے پہلی جنگ عظیم سے قبل ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بھی یہاں سے مقامی افراد کو بھر تی کر کے اس فوج کے ذریعے جنگیں لڑیں اور افغانستان کے خلاف بھی تین جنگیں لڑیں۔

پہلی جنگ عظیم میں ہندوستانی سپاہی یورپ، افریقہ اور ایشیا کے بہت سے محاذوں پر گئے اور لاکھوں کی تعداد میں ہلاک بھی ہوئے اور بعد میں لاکھوں کی تعداد میں واپس ہندوستان آئے۔ پہلی جنگ عظیم تک انگریزوں نے ہندوستان میں فوجی بھرتی کے لیے جسمانی صحت کا معیار بھی بلند رکھا تھا اور اس فوج میں ہندوستان کے مخصوص علاقوں سے لوگوں کو بھرتی کیا جاتا تھا کہ ان مخصوص علاقوں کے رہنے والے جسمانی اعتبار سے بھی مضبو ط تھے اور روایتی لحاظ سے بھی دلیر تھے۔

ان علاقوں میں پنجاب،خصوصاً جہلم ،خیبر پختو نخوا کے لوگ جن میں مسلمانوں کے علاوہ سکھ بھی شامل تھے جب کہ باقی ہندوستان میں گورکھا، مرہٹوں اور راجپوتوں کو بھرتی کیا جاتا تھا اور جہاںتک فوجی افسروں کا تعلق تھا تو اعلیٰ فوجی افسر تو مکمل طور پر انگریز ہی ہوتے تھے البتہ جونئیر افسروں میں انگریز مقامی طور پر ہندوستان کے مقامی جاگیر داروں کی اولادوں کو منتخب کر لیا کرتے تھے اور یہ تناسب آٹے میں نمک کے برابر تھا مگر پہلی جنگ عظیم میں جب لاکھوں کی تعدا میں فوجی ہلاک ہوئے تو صورتحال بدل گئی۔

اب 1919ء سے ایک جانب تو فوج کی لاکھوں کی تعداد کو فوری طور پر پورا کرنا تھا جو جنگ میں ہلاک ہوگئی تھی تو دوسری جانب ہندوستان میں اس جنگ میں جو لاکھوں فوجیوں کی ہلاکتیں ہوئی تھیں اور ان میں سے بہت سوں کی لاشیں بھی نہیں مل سکی تھیں اور اسی طرح لاکھوں فوجی ہمیشہ کے لیے معذور ہوئے تھے اس کے ردعمل میں اب بھرتی کے لیے ان مخصوص علاقوں میں بھرتی کا ر جحان کم ہوگیا تھا تو ساتھ ہی ان مخصوص علاقوں میں افراد ی قوت بھی کم تھی یعنی جوانوں کی تعداد بھی انگریزوں کی مطلوبہ بھرتی کی تعداد سے بہت کم تھی اس لیے انگریزوں نے جنگ کے فورا بعد بھرتی کے قوانین بھی نرم کردئیے اور فوج کی نوکری کو پرکشش بناتے ہوئے فوجیوں کو پرموشن کے تحت جونیئر اور سینئر افسران تک ترقی کے مواقع فراہم کرنے کی پالیسی کو متعارف کروایا اور پھر تھوڑے عرصے بعد دوسری جنگ عظیم کے بادل دنیا پر منڈلانے لگے تو فوجی بھرتیاں اور تیز ہوگئیں اور پھر 1939 سے1945تک جاری رہنے والی جنگ کا خاتمہ ہوگیا ۔

امریکہ کے تعاون اور معاونت سے مارشل پلان اور تعمیر نو کے تیزرفتار عمل کے تحت مغربی یورپ اور جاپان میںکام شروع ہوا تو یہاں پہلے آبادی پر کنٹرول کے منصوبے پر عملدر آمد شروع کیا گیا اور دو پر دو یعنی فی خاندان دو بچے کی بنیادوں پر برطانیہ سمیت تمام یورپی ممالک نے اپنی آبادیوں کو منجمد کر دیا اس کی بہتر مثال پاکستان اور برطانیہ کا موازانہ ہے کہ 1951 میں پاکستان کی پہلی مردم شماری کے وقت آج کے پاکستانی علاقے کی مجموعی آبادی تین کروڑ چالیس لاکھ تھی اور اس وقت برطانیہ کی آبادی پانچ کروڑ تیس لاکھ تھی۔ آج برطانیہ کی کل آبادی پانچ کروڑ ساٹھ لاکھ ہے اور ہماری آبادی بیس سے بائیس کروڑ کے درمیان ہے۔

پچاس کی دہائی کے آخر تک ملبے کا ڈھیر بنا یورپ اور جاپان اب دوبارہ تعمیر ہو کر تیز رفتار اقتصادی اور صنعتی ترقی کا آغاز کر رہے تھے اور ہمارے ملک میں جو انگریز ابھی تک ملازمتیں کر رہے تھے ان کی واپسی شروع ہو گئی تھی اور صرف چند مہینوں میں یہ تمام انگریز واپس ہوگئے اور پھر تھوڑے عرصے بعد برطانیہ سمیت پورے یورپ میں تیزرفتار صنعتی ترقی کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں افرادی قوت کی ضرورت پڑی توانھوں نے ان ملکوں سے افرادی قوت منگوائی جو ان کی نوآبادیاں رہ چکی تھیں مثلًا فرانس نے الجزائر سے اور برطانیہ نے بھارت اور پاکستان سے ہزاروں افراد منگوائے اور شروع میں ان ترقی پذیر ملکوں سے آنے والوں کو نہ صرف عزت اور وقارسے بلوایا بلکہ ان کو معاوضہ بھی اتنا ہی ملنے لگا جتنا ان مغربی ملکوں کے عوام کو ملتا تھا، یوں پہلی بار ہمارے پاکستانی بیرون ملک بغیر فوجی بنے گئے پھر اس کے تھوڑے عرصے بعد بھارت اور پاکستان سے قانونی طور پر کم اور غیر قانونی طور پر زیادہ لوگ جانے لگے۔

یورپی ممالک نے چشم پوشی یوں کی کہ ایسے غیر قانونی مزدوری کرنے والوں کو کم معاوضہ دیا جانے لگا لیکن یہ ضرور تھا کہ ان کے قوانین پھر بھی بہت حد تک تارکین وطن کے حق میں بہتر تھے اور ایک مقررہ مدت کے بعد یہاں کی قومیت مل جاتی تھی۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان آزادی کے فوراً بعد دریاؤں کے پانیوں کی تقسیم کے مسئلے پر تنازعات ابھر ے اور ان کو حل کروانے کے لیے عالمی بنک، برطانیہ اور اقوام متحدہ نے مصالحت کرائی اور پھر دونوں ملکوں کے درمیان سندھ طاس معاہدہ ہوا اور تین مشرقی دریا بھارت اور تین مغربی دریاؤں کے پانیوں پر پاکستان کے حق کو تسلیم کر لیا گیا اور پاکستان کو پانی کی کمی کو دور کرنے کے لیے دو ڈیمز بنانے کے لیے فنڈز دیئے گئے اور ہما رے ہاں تربیلا اور منگلا دو ڈیمز بنائے گئے۔

منگلا ڈیمز کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کا ٹھیکہ ایک برطانوی کمپنی کو دیا گیا اور جب آزاد کشمیر کا چھوٹا سا شہر میر پور ڈیم کی جھیل میں آ گیا اور یہاں سے آبادی جہلم وغیرہ منتقل ہوئی تواس وقت چونکہ برطانیہ کو افرادی قوت کی بھی ضروت تھی اس لیے یہاں سے ہزاروں افراد کو اس کمپنی کے مالک نے برطانیہ بھجوایا اور آج اس وقت برطانیہ میں سب سے بڑی تعداد میرپوریوں کی ہے لیکن 1970 تک ہمارے ہاں سے زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ دو لاکھ افراد یورپی ملکوں اور چند ہزار امریکہ اور کینیڈا بھی گئے تھے اور بھر 1970 سے 1972 تک اسکنڈیز نیوی ممالک اور جرمنی وغیرہ، غیرقا نو نی طور پر جانے کا رجحان زیادہ رہا۔ 1971 کی پاک، بھارت جنگ کے بعد 1972 تک پاکستان کو دوبارہ سنبھلنے میں لگے اور 1973 میں عرب اسرائیل جنگ میں عربوں نے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کیا اور اس کی وجہ سے تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی آمدنیوں میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ 1974 میں پاکستان کے شہر لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی اور جب تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں تیزرفتار تعمیراتی کام شروع ہوئے تو پاکستان سے اس وقت 35 لاکھ افراد خلیجی اور تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں گئے۔

یہی وہ دور ہے جب پاکستان کو زر مبادلہ کا ایک بڑا مستقل اور مستحکم ذریعہ مل گیا اور حکومت نے پہلی دفعہ بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے ایک محکمہ اور بعد میں وزارت بنائی مگر تھو ڑ ے عرصے بعد یہ وزارت اتنی متحرک اور فعال نہیں رہی جتنی یہ اپنے قیام کے وقت تھی اور اس وزارت کو اس لیے تشکیل دیا گیا تھا کہ وہ بیرون ملک پاکستانی جو گھروں سے دور پردیس میں رہ کر وطن عزیر کے لیے زرمبادلہ بھیجتے ہیں ان کا ہر طرح سے خیال رکھا جائے۔ ستر کی دہائی تک اسلام آباد ،کراچی،لاہور اور فیصل آباد وغیرہ میں سرکای شعبے میں جو بھی ہاؤسنگ اسکیمیں شروع کی گئیں ان میں بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے 20% کوٹہ اور عام شہریوں کے مقابلے میں 20% رعایتی قیمتوں اور زیادہ آسان قسطوں کی سہولتوں کے ساتھ میسر ہوا کرتا تھا۔

اسی طرح ان کے بچوں کو ملک میں اور بیرون ملک تعلیمی سہولتیں بھی فراہم کی گئی تھیں۔ خصوصاً جن ملکوں میں پاکستانیوں کی تعداد زیادہ تھی وہاں پاکستانی اسکول بنائے گئے مگر بعد میں رفتہ رفتہ ان بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے ہم نے صرف ہاتھ ہی نہیں کھینچا بلکہ نظریں بھی پھیر لیں پھر نہ تو ہماری خارجہ پالیسی ایسی رہی کہ ستر کی دہائی کی طرح ہمارے لوگ قدرے عزت اور وقار کے ساتھ بیرون ملک جاتے اور ہمارے سفارت خانے ان کو سہولتیں فراہم کرتے۔ ہم دنیا کے مختلف ملکوںکی جانب سے افرادی قوت کے اعتبار سے مطلوبہ مانگ کو مدنظر رکھ کر حکومتی اداروں کی ضما نت پر اپنے لوگوں کو باہر بھیجتے۔ ہم نے خود ہی اس پورے نظام کو کرپٹ کردیا اور نہ صرف کرپٹ کردیا بلکہ انسانی اسمگلنگ کرنے والوں کے مکمل رحم و کرم پر چھوڑدیا اور یوں 1980 کی دہائی سے جب پی ٹی وی سے اس موضوع پر مشہور ڈرامہ ''دوئبی چلو'' پیش کیا گیا تھا۔

اس وقت سے اب تک ہزاروں پاکستانی غیر قانونی طور پر ملک سے باہر جانے کی پاداش میں ہلاک ہوئے اور ہزاروں بیرون ملک پکڑے گئے اور جیلیں کاٹیں اور لاکھوں افراد نے اپنی لاکھوں کی جمع شدہ پونجی لٹا دی اور برباد ہوگئے۔ لیکن اس کے باوجود 5900000 انسٹھ لاکھ پاکستانی ملک سے باہر رہ کر سالانہ اربوں ڈالرز کا قیمتی زرمبادلے وطن عزیز بھیجتے ہیں۔ اسٹیٹ بنک کے اعداد وشمار کے مطابق مالی سال 2014-15 میں ان بیرون ملک پاکستانیوں نے 18.40 ارب ڈالر کا زرمبادلہ بھیجا۔

اس وقت پاکستان دوسرے ملکوںمیں جا کر کام کرنے والوں کے اعتبار سے دنیا کے ٹاپ ٹن ممالک میں چھٹے نمبر پر ہے جس کی تفصیل یوں ہے۔ پہلے نمبر پر بھارت ہے،1 کروڑ 56 لاکھ بھارتی بیرون ملک کام کر رہے ہیں ، دوسرے نمبر پر میکسیکو ہے جس کے1 کروڑ 23 لاکھ افراد دوسرے ممالک میں کام کر رہے ہیں، روس ایک کروڑ چھ لاکھ کے ساتھ تیسرے نمبر پر ، چین 95 لاکھ کے ساتھ چوتھے نمبر پر، بنگلہ دیش 72 لاکھ کے ساتھ پانچویں نمبر پر، پاکستان59 لاکھ کے ساتھ چھٹے نمبر پر، یوکرائن کا 58 لاکھ کے ساتھ ساتواں نمبر ہے، فلپائن کا آٹھواں نمبر جس کے 53 لاکھ افراد دوسرے ممالک میں کام کرتے ہیں، نمبر9 ، شام 50 لاکھ اور برطانیہ 49 لاکھ کے ساتھ دسویں نمبر پر ہے۔

اب جہاں تک تعلق برطانیہ، روس اور چین کا ہے اور اسی طرح امریکہ ، جرمنی ، فرانس ، نیدر لینڈ اور دوسرے کئی ممالک ہیں جو اس ٹاپ فہرست میں تو شامل نہیں ہیں مگر ان کے لاکھوں شہری دوسرے ملکوں خصوصاً ترقی پذیر ملکوں میں ہیں وہ مختلف ایسے پروجیکٹوں کے تحت ان ترقی پزیر ملکوں میں مقررہ مدت تک رہتے اور کام کرتے ہیں جب تک ان کے یہ پروجیکٹ تکمیل نہیں پاجاتے، ان کے لیے مالی امداد یا قرضے یہی ترقی یافتہ ممالک فراہم کرتے ہیں اور اس طرح امدادی قرضوں میں دی جانے والی رقوم کا ایک بڑا حصہ وہ ان ماہر اور ٹیکنیکل افراد کی تنخواہوں کی صورت واپس لے جاتے ہیں جب کہ میکسیکو، بھارت ، بنگلہ دیش، پاکستان اور فلپائن ایسے ملک ہیں جن کے شہری دوسرے ملکوں میں جا کر محنت مزدوری کرتے ہیں اور زرمبادلہ اپنے ملکوں کو بھیجتے ہیں۔

ان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی شامل ہیں مگر ان کا تناسب آٹے میں نمک کے برابر ہے جب کہ شام جیسے وہ ممالک ہیں جہاں گزشتہ چند برسوں میں انسانی المیوں کے ابھرنے عموماً خانہ جنگیوں کی وجہ سے بڑی تعداد تارکین وطن کی صورت خصوصا مغربی ملکوں میں پناہ گزینوں کی صورت پناہ لیے ہوئے ہے، یوں اب دنیا بھر میں خصوصا ہمارے جیسے ممالک سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے لیے بڑے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ مغربی ممالک نے اپنی سرحدیں پناہ گزینوں اور غیر قانونی طور پر ان ملکوں میں داخل ہونے والوں کے لئے بند کردی ہیں۔

امریکہ کے نئے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیاں اس اعتبار سے بہت سخت ہیں۔ اگر چہ اس تناظر میں امریکی صدر کی جانب سے کئے گئے ایک فیصلے کو امریکی عدالت نے رد کردیا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ اب امریکہ جانا نہایت مشکل ہوگیا ہے اور ساتھ ہی دوسرے یورپی ملکوں میں اب ہماری افرادی قوت کے لیے گنجائش نہیں رہی ہے۔ پھر ایک بڑا مسئلہ دہری شہرت رکھنے والے ان پاکستانیوں کا ہے جن کی تیسری نسل اب برطانیہ سمیت دیگر یورپی ملکوں میں جوان ہو رہی ہے اور ان میں سے بیشتر کے سماجی، ثقافتی اور تہذیبی رشتے اپنے باپ دادا کی طرح آبائی ملک سے مضبوط نہیں، یوں اس تیسر ی نسل سے اب زر مبادلہ کی امیدیں کم ہیں۔

دوسری جانب تیل پیدا کرنے والے خلیجی اور دیگر عرب ممالک میں بھی اب تیز رفتار اقتصادی ، سماجی اور سیاسی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور اندیشے ہیں کہ اب ان ملکوں سے بھی زرمبادلہ کی آمدنی میں کمی واقع ہو ۔ اس وقت دنیا میں بیرون ملک پاکستانیوں کی صورتحال تعداد کے اعتبار سے یوں ہے۔

سعودی عرب بائیس لاکھ ، عرب امارات 13 لاکھ ، برطانیہ میں 1174983، امریکہ 518769 ،کینیڈا 1555310، کویت 130000، قطر 90000 ،اٹلی85000 ، اومان85000 ، یونان82000 ،بحرین80166 ، فرانس75000 ، جرمنی75000 ، اسپین69481 ، چین 65000 ملائیشیا55851 ، ہانگ کانگ 55 ہزار اورآسٹریلیا 33049 ہے۔

تلخ حقیقت یہ ہے کہ اب جب آئندہ دو تین برسوں میں دنیا بھر میں اقتصادی، سیاسی تیز رفتار تبدیلیاں رونما ہوتی دکھائی دے رہی ہیں ہم اس نا زک ترین مسئلے پر توجہ نہیں دے رہے، نہ تو 2017 مارچ میں ہونے والی مردم شماری کے لحاظ سے اور نہ ہی 2018 میں ہونے والے عام انتخابات کے اعتبار سے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف 59 لاکھ بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے ان ملکوں میں جہاں جہاں یہ مقیم ہیں پاکستانی سفارت خانے ان کی بہبود اور ان کے قیام اور روزگار کی بہتری کے لیے کام کریں تو دوسری جانب اب جب کہ مردم شماری کے بعد ان کی تمام تفصیلات ریکارڈ پر آچکی ہیں ان پاکستانیوں کو بھی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق دیا جانا چاہیے تھا مگر یہ نہ ہو سکا۔

اب ضمنی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا ہے، بات یہاں تک ختم نہیں ہونے چاہیئے بلکہ ہونا تو یہ چاہیئے کہ صوبوں کے تناسب سے جماعتی بنیادوں پر ان کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ان کی نشستیں مختص کی جائیں اورکم سے کم بیرون ملک پاکستانیوں کی وفاقی وزارت ان کے کسی منتخب نمائندے کو دی جائے۔ 2018 کے عام انتخابات کے بعد اب تحریک انصاف نے حکومت بنائی ہے اور عمران خان یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بیرون ملک پاکستانیوں نے ہمیشہ ان کی مدد کی ہے اِن کو چاہیے کہ اب ان بیرون ملک پاکستانیوں کے مفادات کا بہتر انداز میں تحفظ کریں اور یہ حقیقی معنوں میں پاکستان کے مفادات اور خصوصاً قومی اقتصادیات کا تحفظ ہوگا ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں