جہاں گشت

جو سامنے نظر آرہا ہے دھوکا ہے، فریبِ نظر ہے اور کچھ نہیںمیں تو کچھ بھی نہیں کرسکتا، تیرا کیا جائے گا! ٹھیک کردے اسے


جو سامنے نظر آرہا ہے دھوکا ہے، فریبِ نظر ہے اور کچھ نہیںمیں تو کچھ بھی نہیں کرسکتا، تیرا کیا جائے گا! ٹھیک کردے اسے۔ فوٹو: فائل

قسط نمبر 25

نماز فجر ادا کرنے کے بعد بابا نے مجھے حکم دیا کہ میں رات کو ہونے والے کسی بھی واقعے کا تذکرہ کسی سے نہیں کروں گا۔ اگر گھر میں کسی نے مجھ سے کچھ معلوم کیا تو پھر میں کیا کہوں! میں نے بابا سے پوچھا۔ اوّل تو تم سے کوئی کچھ دریافت نہیں کرے گا، اور اگر کوئی پوچھ ہی لے جس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے تو تم کہہ دینا کہ مجھے بابا نے کچھ بھی بتانے سے منع کردیا ہے۔

بابا یہ کہتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ گھر پہنچتے ہی دروازہ ماں جی نے کھولا، ایسا لگ رہا تھا کہ وہ رات بھر واقعی نہیں سوئیں اور ہمارا انتظار کرتی رہیں۔ میں نے سلام کیا اور انہوں نے مجھے اپنی شفیق بانہوں میں بھر لیا۔ میرا بیٹا ٹھیک ہے ناں! انہوں نے پوچھا۔ جی ماں جی میں بالکل ٹھیک ہوں۔

میرے بیٹے نے آپ کو پریشان تو نہیں کیا جی۔ انہوں نے بابا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ پہلے تو یہ بتاؤ اس کے بغیر تمہیں نیند آگئی تھی؟ تمہارا بیٹا ہے تم جانتی ہو سوال کیے بنا یہ رہ نہیں سکتا، کرید اس کا شغل ہے، لیکن تمہارے بیٹے نے بہت سعادت مندی کا ثبوت دیا، بالکل بھی پریشان نہیں کیا، سوال تو کیے لیکن اتنے نہیں کہ پریشانی ہو، اور خوش خبری یہ ہے کہ واپسی میں تو بالکل خاموش رہا، اتنا کہ مجھے بار بار اسے کہنا پڑا کہ جی کچھ تو بولو، بابا نے مسکراتے ہوئے تفصیل بتائی۔

آخر میرا بیٹا ہے میں نے بھی تو آپ کو کبھی پریشان نہیں کیا، کبھی کوئی سوال نہیں کیا، آپ نے جو کہا اس پر یقین رکھا جی، ماں جی نے جواب دیا۔ اب تم ہمیں ناشتہ بھی دو گی یا اپنے بیٹے کو لیے بیٹھی رہوگی، تمہاری امانت سلامتی کے ساتھ تمہیں واپس لوٹا دی ہے، اس لیے کہ آئندہ بھی تو اس نے میرے ساتھ جانا ہے ناں۔ اچھا جی آپ کو مجھ سے اجازت کی ضرورت نہیں ہے، آپ کو اختیار ہے کہ جب چاہیں میرے بیٹے کو ساتھ لے جائیں ، میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ آپ اسے ہمیشہ فرماں بردار پائیں گے۔

ماں جی یہ کہہ کر ہمیں ناشتہ دینے لگیں ، وہی اشتہا انگیز خوش بُو اور ماں جی کے پیار بھرے ہاتھوں کے لمس کی تقدیس میں بسا ہوا، ہم سب ناشتہ کرنے لگے۔ اچانک میمونہ نے مسکراتے ہوئے مجھ سے پوچھا، واقعی تم نے بابا سے کوئی سوال نہیں کیا ؟ ہاں بیٹا بہت باسعادت ہے یہ، بس کبھی کبھی اسے دورہ پڑ جاتا ہے اسے، میرے بجائے بابا نے اسے مطمئن کرنے کی سعی کی۔ ناشتے کے بعد ماں جی پڑوس میں چلی گئیں اور یہ ان کا معمول بن گیا تھا، لیکن اُس دن میں بہت رویا جب مجھے میمونہ نے یہ کہتے ہوئے آئینہ دکھایا کہ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ماں جی روزانہ اپنے کسی کام سے چلی جاتی ہیں تو اس مغالطے سے باہر آجاؤ، وہ اس وقت اس لیے پڑوس میں چلی جاتی ہیں کہ تم آرام سے چائے پی سکو، سنا تم نے! یہ ہوتی ہیں مائیں! ہم نہیں سمجھ سکیں گے کبھی نہیں۔

بابا مطب جاچکے تھے اور مجھے انہوں نے جلد آنے کا کہا تھا تو میں مطب پہنچا۔ وہاں صرف چار مریض ہی تھے جنہیں بابا نے دوا دے کر فارغ کیا اور پھر مطب بند کرنے لگے تو میں نے کہا، اتنی جلدی کیوں بابا ؟ بیٹا دھیرج رکھو میں نے تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔ ہم دونوں کھیتوں سے گزرتے ہوئے ایک سرسبز جگہ پہنچ کر بیٹھ گئے اور پھر بابا گویا ہوئے۔

بیٹا مجھے اچھا لگا کہ تم نے خاموش رہنے کی ابتدا کی، دیکھو یہی ایک طریقہ ہے سمجھ بوجھ کا کہ بس خاموشی کو اپنے اندر اتارو اگر تم نے خود پر قابو پالیا تو سمجھو نصف زندگی پالی۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا لیکن میں خاموشی سے سنتا رہا بابا بولے۔ دیکھو خاموشی کے ساتھ مشاہدہ کرنا ہی اصل ہے کہ کائنات میں غور کرنے سے پہلے خود پر غور کرو، جو خامیاں ہیں انہیں دور کرنے کی سعی کرو۔ جو لوگ ایسا نہیں کرتے وہ خسارے میں رہتے ہیں، ان میں پختگی نہیں ہوتی۔ دیکھو بیٹا کسی کو دھوکا دو اور نہ ہی کسی دھوکے میں آؤ۔ بیٹا جو سامنے نظر آرہا ہے ، کیا وہ اصل ہے؟ شاید ہوگا لیکن یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔ یہ جو تمہیں اپنے سامنے نظر آرہا ہے دھوکا ہے، فریبِ نظر ہے اور کچھ نہیں۔ یہ ایسا نہیں ہے جیسا نظر آرہا ہے۔ اندر کی آنکھ کھولو تب نظر آئے گا۔ وہ جو تمہارے سامنے بیٹھا ہے، جو کہہ رہا ہے، وہ ایسا ہے بھی، ہوسکتا ایسا ہی ہو لیکن ایسا بھی تو ممکن ہے ایسا نہ ہو۔ جو کہہ رہا ہے بس سن لو اور اگر اندر کی آنکھ کھل جائے، نظر آنے لگے تو شُکر کرنا کہ یہ توفیق ہے، رب کی عنایت ہے۔

اندر کی آنکھ کھل جائے تو مداری مت بن جانا کہ ہر ایک کو کہتا پھرے جُھوٹ بولتا ہے تُو۔ اندر سے تو تُو یہ ہے۔ پردہ پوشی کرنا کہ اس کا حکم ہے، کسی کے عیوب معلوم بھی ہوں تو ان کی تشہیر قطعاً نہیں کرنا کہ یہ رب تعالی کو بے حد ناپسند ہے۔ مرض سے لڑنا ہے مریض سے نہیں۔ اور پھر جب اندر کی آنکھ بینا ہوجائے تو اسے ندامت اور شکر کے اشکوں سے دھوتے رہنا، کہ یہی ہے اسے مُطہّر رکھنے کا جَل۔ آنکھ کو خفا مت کرنا کہ اگر یہی روٹھ گئی تو سب کچھ برباد ہوجائے گا۔ آنکھ خفا ہوجائے تو بُرے مناظر دکھاتی ہے۔ بُرے مناظر تو ہوتے ہی بُرے ہیں۔ وہ تو اچھے منظر کو، اچھے چہرے کو بھی میلا کردیتی ہے۔ تیرے اندر کی آنکھ کھلے تب تُو پہچان پائے گا ناں! کھلے گی کب؟ جب رب راضی ہوجائے۔ رب کرم کردے تو اندر کی آنکھ کو بینا کردیتا ہے۔ نہیں، نہیں۔۔۔۔ جو نظر آرہا ہے دھوکا ہے، فریب نظر۔

بابا اشک بار تھے اور کہے جارہے تھے، ایسا لگتا تھا جیسے وہ معدوم ہوگئے ہوں، مجھے تو ایسا لگا رہا تھا جیسے میں وہاں موجود ہوں لیکن اصل میں غائب کہ بابا خود کلامی کیے جارہے تھے۔ بس رب سے جڑے رہنا ہر حال میں۔۔۔۔ عسرت میں بھی اور تونگری میں بھی۔ صحت مند ہو جب بھی اور بیمار ہو تب بھی۔ ہر حال میں سراپا تسلیم رہنا۔ راضی بہ رضائے الٰہی رہنا، کہ یہی ہے بندگی اور کچھ نہیں۔ اپنا دامن بچانا کمال نہیں، دوسروں کو بچانا اصل ہے۔ دوسروں کی مدد کر تو وہ تیری مدد کو آئے گا۔ اوروں کا دکھ بانٹ تو سُکھی رہے گا۔ اندر کا سکون چاہیے تو دوسروں کے آنسو پونچھ۔ احسان کرکے کبھی مت جتلانا۔ لیکن خبردار رہنا، بہت نازک ہے یہ کام۔ اپنے ذاتی مقصد کے لیے یہ سب مت کرنا، اس لیے کرنا کہ رب کی مخلوق ہے اور مخلوق رب کو بہت پیاری ہے۔

تصویر کی تعریف مصور کی ثناء ہے۔ تخلیق کو سراہنا خالق کو خوش کرنا ہے۔ مخلوق میں رہ اور رب تک پہنچ۔ جنگل، بیاباں میں کچھ نہیں رکھا۔ مرنا تو بہت آسان ہے، زندہ رہنا ہے کمال ، لیکن ایسی زندگی کہ تو خود کو فراموش کردے، بس خود کو زندہ مت سمجھنا کبھی نہیں۔ اپنے لیے نہیں، پابرہنہ مخلوق کے لیے، خاک بہ سر بندگانِ خدا کے لیے جی، ٹوٹے دلوں سے پیار کر، بے آسرا کے لیے سایہ بن، شجرِ سایہ دار۔ پھول بن، خوش بو بن، خلوص بن، وفا بن۔ جب رب خوش ہو تو مخلوق کے دلوں میں اُتارتا ہے محبت۔ دیکھ رب خفا ہوجائے تو سب کچھ برباد ہو جاتا ہے، ہاں انسان کے اپنے اعضاء بھی خفا ہوجاتے ہیں۔

کان خفا ہوجائیں تو بُری باتیں سنتے ہیں، ٹوہ میں لگ جاتے ہیں، زبان خفا ہوجائے تو غیبت کرنے لگتی ہے، مخلوق کی برائیاں بیان کرتی ہے، چغلی کھاتی ہے، بہتان طرازی کرتی ہے، لوگوں کو آپس میں لڑاتی ہے، حق کو چھپاتی ہے، خوبیاں چھوڑ کر خامیاں اور کوتاہیاں بیان کرتی ہے، دلوں کو اجاڑتی ہے، فساد برپا کرتی ہے۔ یہ زبان بہت کڑوی بھی ہے اور میٹھی بھی۔ یہ دلوں کو جوڑتی بھی ہے اور توڑتی بھی۔ خفا ہوجائے تو اس کے شر سے کوئی نہیں بچ سکتا، کوئی بھی نہیں۔ جھوٹے وعدے کرتی ہے۔ بس رب ہی اس کے فساد سے بچا سکتا ہے۔ پاؤں خفا ہوجائیں تو دوسروں کو آزار پہنچانے کے لیے اٹھتے ہیں، برائی کی جگہ جاتے ہیں۔

ہاتھ خفا ہوجائیں تو لوٹ مار کرتے ہیں، قتل و غارت گری کرتے ہیں، چھینا جھپٹی کرتے ہیں، مار پیٹ کرتے ہیں، خلق خدا کے حق میں تو نہیں اٹھتے بس مخلوق کو تباہ کرنے والوں کا ساتھ دیتے ہیں، مظلوم کے بہ جائے ظالموں کے ہاتھ اور بازو بن جاتے ہیں۔ ذہن خفا ہوجائے تو بُری باتیں سوچتا ہے، شیطانی خیالات کی آماج گاہ بن جاتا ہے، سازشیں کرتا ہے، منصوبہ بندی کرتا ہے فساد کی۔ اور دیکھ، اگر دل خفا ہوجائے تو مُردہ ہوجاتا ہے، اور تجھے معلوم ہے مُردہ شے سڑنے لگتی ہے، اس کی بدبو سے رب بچائے، بے حس ہو جاتا ہے، نیکی قبول ہی نہیں کرتا، برائی کی طرف بڑھتا ہے، تفرقہ پھیلاتا ہے، جوڑتا نہیں توڑنے لگتا ہے، بس رب بچائے ان امراض سے اور رب ہی تو بچا سکتا ہے۔ کچھ ہی لمحے تو جینا ہے، ابھی آتے ہوئے اذان ہوئی تھی اور پھر جاتے ہوئے نماز۔ وہ بھی اگر نصیب ہوجائے تب۔ دو پل کے جینے کے لیے اتنے منصوبے، اتنی جان ماری، اتنی ذلّت، در در کی بھیک، خوشامد اور چاپلوسی۔ کس خسارے میں پڑ گیا انسان۔ رب توفیق دے، کرم کردے، تب ہی تو میں پہچان پاؤں گا چیزوں کی اصل کو۔ انسان کے اندر دیکھنا عنایت ربی ہے۔ پھل پھول تو سب کو نظر آتے ہیں، جڑ کون دیکھے گا؟ وہ نظر کہاں سے لاؤں! بس یہ توفیق پر ہے، رب سے جڑنے میں ہے۔

بس بیٹا مجھے آج اتنا ہی کہنا تھا، چلو گھر چلیں۔ بابا نے میرا ہاتھ تھاما اور ہم گھر کے لیے روانہ ہوئے۔ زندگی بھر وہ میرے سنگ رہیں گے اور ان کی باتیں میرا سرمایۂ حیات۔ ہم ان کا ذکر خیر جاری رکھیں گے لیکن دیکھیے اس وقت کون یاد آگیا ہے مجھے۔

وہ بالکل اجڈ اور گنوار ہے۔ جو اسکول کالج اور یونیورسٹی کا سند یافتہ نہ ہو ہم اسے یہی سمجھتے ہیں ناں، چلیے ضرور سمجھتے رہیے۔ بلوچ اور اپنے قبیلے کا بڑا، لیکن ایسا سردار نہیں جیسا آپ سمجھ رہے ہیں۔ بہت خیال رکھنے والا، سب کے سر پر ہاتھ رکھنے والا، ان کی دیکھ بھال کرنے والا۔ دیکھنے میں وہی فوں فاں، پگڑیاں، بڑی بڑی بل دار مونچھوں والے اسلحہ بردار جاں نثاروں کے ساتھ گھومنے پھرنے والا، اچھے کھانوں کا شوقین اور شکار کے لیے نت نئی بندوقیں جمع کرنے والا۔ بہت سال پہلے وہ حج کرنے گیا تو مجھ سے ملنے آیا تھا۔ اس نے کہا تھا: ''آخر آ ہی گیا بلاوا، میں جا رہا ہوں، دعا کرنا۔''

پھر وہ چلا بھی گیا اور آ بھی گیا۔ میں جانتا ہوں وہ نماز میں بس ایک ہی سورت تلاوت کرتا ہے، سورہ کوثر۔ اور تو اسے کچھ بھی نہیں آتا۔ کوئی تربیت نہیں لی، بس چلا گیا، اور جب واپس آیا تو مجھے اپنی رُوداد سنائی۔ زندگی میں پہلی مرتبہ میں نے اسے ڈھاریں مار کر روتے دیکھا، اس نے اپنی واردات سنانے کے لیے جگہ بھی ایسی منتخب کی تھی۔ خاصی رات ہوگئی تب وہ مجھے اپنی بڑی سی جیپ میں بٹھا کر بہت دُور لے گیا۔ اندھیرا گھپ، ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔ اور پھر وہ بولنے لگا، فجر تک بولتا رہا۔۔۔۔ بولتا کیا رہا، بس روتا رہا۔ بہت مشکل سے سنبھلا، اور اب وہ کبھی نہیں سنبھلے گا۔

''میں حج کرنے گیا تو بس میں بیٹھا ہوا تھا اور ہم اللہ سائیں کے گھر جا رہے تھے سب مسافر۔ کیا مرد کیا عورتیں۔ کچھ نے کتابیں لی ہوئی تھیں اور پڑھ رہے تھے اور باقی آنکھیں بند کیے کچھ زبانی پڑھ رہے تھے۔ میں اکیلا ہی اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ میرے برابر والے آدمی نے مجھے کہا: تم بھی کچھ پڑھو، یہ لو کتاب۔ تو میں نے کہا: میں تو پڑھنا نہیں جانتا۔ پھر اس نے مجھے کہا: معلم کو بتا دینا وہ تمہیں سب کچھ بتا دے گا۔ دیکھو جب رب کے گھر پر پہلی نظر پڑے تو یہ پڑھنا۔ میں نے کہا: اچھا۔ اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا، اور پھر اللہ سائیں کا گھر آگیا۔''

اچھا تو پھر کیا ہوا، بولو جلدی بولو، رونا بند کرو اب، بولو۔ میں نے اسے جھاڑتے ہوئے کہا، تب وہ بتانے لگا: ''ہم جنگلی لوگ، ہمیں آتا ہی کیا ہے! جو منہ میں آیا بولتا چلا گیا: واہ مالک، یہ ہے تیرا کمرا، اتنا سا، چلو ٹھیک ہے، کمرا چھوٹا سا ہے، صحن تو بہت بڑا ہے، اور پھر تجھے ضرورت بھی کیا ہے، ضرورت تو ہم جیسوں کو ہے، تُو تو بے نیاز بادشاہ ہے، بس دیتا رہتا ہے اور لیتا کچھ نہیں، دیکھ ابھی میں تیرے دَر پر آگیا ہوں، دیکھ رہا ہے ناں مجھے تُو! مجھے دوسرے حاجیوں نے بہت سمجھایا یہ دعا پڑھو وہ پڑھو، لیکن میں پڑھ ہی نہیں سکتا۔ میں تو بات کرنے آیا ہوں۔ بہت سی باتیں، دل کی باتیں، تُو سن رہا ہے ناں! دیکھ تیرے پیارےؐ نے بتایا ہے کہ کوئی بھی دَر پر آجائے تو اسے خالی ہاتھ نہ بھیجو، اور میں تیرا چھوٹا سا بندہ اس پر عمل کرتا رہا ہوں۔ میرے باپ دادا بھی یہی کرتے تھے۔ جو دَر پر آگیا خالی ہاتھ نہیں گیا۔ اب میں تیرے دَر پر آگیا ہوں۔ میں تو یہ بھی نہیں جانتا کہ مجھے کیا چاہیے۔ پتا ہی نہیں ہے مجھے کچھ، سب کچھ تو تُونے مجھے دیا ہے، اب اور کیا ضروری ہے مجھے نہیں پتا، بس میں تو آگیا ہوں، آگے تیری مرضی، اور تیری مرضی میں ہے میری خوشی۔''

پھر کیا ہوا، باقی دن کیا کرتا رہا ؟ میں نے دریافت کیا۔

''بس وہی جو سب کرتے ہیں۔ دوسروں کو دیکھ دیکھ کر کرتا رہا، لیکن باتیں بہت کی اللہ سائیں سے۔ اور پھر جیسے دوسرے آئے میں بھی آگیا۔''

''پھر؟'' ۔۔۔۔ ''پھر کیا، واپس گاؤں آیا، مبارک سلامت ملیں اور میں حاجی صاحب بن گیا۔ لیکن میں پھنس گیا یار ایک چکر میں۔''

کیسا چکر؟ تمہارا کوئی کام سیدھا ہوا کب ہے، جو اب پھنس گیا تُو، میری بات سن کر وہ کہنے لگا۔

''نہیں نہیں، بہت بُری طرح پھنس گیا، میں جب واپس آیا تو لوگ مبارکی دینے آئے، ہمارے گاؤں کی عورتیں بھی، پھر ایک عورت آئی اور کہنے لگی: سائیں حاجی! آپ تو معصوم ہوگئے، اللہ سائیں کا گھر دیکھ کر پاک ہوگئے سائیں آپ تو، اللہ سائیں اب آپ کی سنے گا۔ میری بیٹی بہت بیمار ہے، ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے، آپ سائیں اس کو دم کردو وہ ٹھیک ہوجائے گی، اللہ سائیں خوش رہے گا آپ سے، میرا تو کوئی ہے بھی نہیں اور پیسے بھی نہیں ہیں میرے پاس۔''

''پھر کیا ہوا آگے بتاؤ؟''

جب وہ رو رو کر نڈھال ہوگیا، تب اس کی آواز آئی: ''سائیں پھنس گیا میں، اس سے اچھا تھا حج کرنے نہ جاتا۔ میں نے اس عورت کو انتظار کرنے کا کہا، اور اپنی بیوی سے کہا مجھے کہیں جانا ہے میرے کپڑے نکالو اور ملازم کو دو کہ وہ جیپ میں رکھے، اور خود ایک کمرے میں بند ہوکر بہت رویا، اللہ سائیں دیکھ میری بے عزتی ہوجائے گی، وہ عورت بہت دکھی ہے اور مجھے وہ حاجی سمجھ بیٹھی ہے۔ اس کی بیٹی بیمار ہے، مجھے جانا ہی ہوگا۔ لیکن میرے جانے سے کیا ہوتا ہے۔ اسے صحت دینا تو تیرے اختیار میں ہے، تُو اسے ٹھیک کردے۔ میری بہت بے عزتی ہوجائے گی، اگر تُو نے اسے ٹھیک نہیں کیا تو میں گاؤں والوں کو کیا شکل دکھاؤں گا۔ اور سُن لے، اگر وہ آج ٹھیک نہیں ہوئی تو میں گاؤں چھوڑ دوں گا۔

اور جاؤں گا کہاں! یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم۔ پھر میں اس عورت کے ساتھ گیا، اس کی بیٹی بے سدھ پڑی ہوئی تھی، بالکل بے سدھ۔ میں نے اسے بہت آوازیں دیں، لیکن اس نے آنکھیں نہیں کھولیں۔ پھر میں نے جھوٹ موٹ پھونکیں ماریں اور پانی منگا کر اس کے منہ میں تھوڑے قطرے ڈالے، بس دل میں یہی کہے جا رہا تھا: میں تو کچھ بھی نہیں کرسکتا، تیرا کیا جائے گا! ٹھیک کردے اسے۔ اور پھر میں واپس آگیا۔ میں سب کے سامنے رو بھی نہیں سکتا، سردار ہوں ناں میں تو۔

بس پھر میں انتظار کرنے لگا، ابھی دو گھنٹے گزرے تھے کہ وہ عورت دُور سے آتی ہوئی دکھائی دی، تو میں نے جیپ کی چابی سنبھال لی کہ اگر کوئی بُری خبر ہوئی تو گاؤں چھوڑ دوں گا۔ جیسے جیسے وہ قریب آرہی تھی، ویسے ویسے میرا دم نکل رہا تھا کہ وہ قریب پہنچ گئی، اس کے پاس ایک تھیلا تھا، اس نے تھیلا کھولا اور گڑ نکال کر مجھے دیا اور پھر کہا: حاجی صاحب! یہ گڑ لائی ہوں، میری بیٹی نے آنکھیں کھول دیں اور تھوڑا سا کھانا بھی کھایا، آپ دو چار پھونکیں اور ماریں گے تو وہ ٹھیک ہوجائے گی۔''

میں جانتا ہوں وہ پھونکیں ہی مارتا رہا اور اللہ جی کرم کرتا رہا۔ مقدار نہیں اخلاص شرط ہے، خالص ہونا شرط ہے، تعلق شرط ہے، بس اور کچھ نہیں۔مجھے جو کہنا تھا آپ سے کہہ دیا، میرا رب آپ کو سلامت رکھے، خاک بسر، بے آسرا مخلوقِ خدا کو کبھی مت بھولیے گا۔ دیکھیے جناب علیؓ یاد آگئے:''انسان دنیا میں اس قدر مگن ہوچکا ہے کہ اسے پتا ہی نہیں چلتا کہ جس کپڑے سے اس کا کفن بننا ہے، وہ بازار میں آچکا ہے۔''

جس کی جانب وہ نظر اپنی اٹھا دیتے ہیں

اُس کی سوئی ہوئی تقدیر جگا دیتے ہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں