16 دسمبر ایک سیاہ دن اور سبق آموز سانحہ

ہمارے مشرقی پاکستان کے بھائیوں یا باسیوں کے دکھ فرضی نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی تھے۔


شاہد سردار December 16, 2018

بعض دن، بعض مہینے اور تاریخیں کسی قوم کی زندگی میں خاص اہمیت اختیارکرجاتی ہیں۔جن کا تذکرہ بارہا کیا جاتا ہے اور ان کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ یہ دن ہمیں دعوت فکرکا سامان بھی مہیا کرتے ہیں اور ہماری مجرمانہ غفلت یا کوتاہی کا طعنہ بھی دیتے ہیں۔ ہماری ملکی تاریخ میں 16 دسمبر کو حکایت خونچکاں سے بھی تعبیرکیا جاتا ہے۔

16 دسمبر ہماری تاریخ کا سیاہ دن بن کر ہر سال کیلنڈر پر نمودار ہوتا ہے کیونکہ 16 دسمبر 1971 کو ہمارے قومی وجود کے دو حصے کردیے گئے تھے اور دشمنوں نے پاکستانی قومیت کے تصور پر نہایت کاری ضرب لگائی تھی جس سے ابھی تک خون رس رہا ہے۔ اس سانحے نے جہاں قومی سوچ اور لاشعور پر گہرے اثرات مرتب کیے اور مستقل طور پر بے یقینی کے خوف میں مبتلا کردیا، وہاں ملک کے اندر بھی علیحدگی پسند عناصر کی حوصلہ افزائی کی اور ان کو ایک ''رول ماڈل''مہیا کردیا۔

باشعور قومیں اس طرح کے سانحات سے سبق سیکھتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ہماری قیادت، سیاست دانوں اور رائے عامہ کی تربیت کرنے والے اداروں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب اور نتائج پر اس طرح غور نہیں کیا کہ وہ اس کے ذمے دار عوامل کی روشنی میں مستقبل کے لیے حکمت عملی وضع کرتے اور اس پر خلوص نیت سے عمل کرتے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی اور قومی قیادت آج تک ان عوامل کا ادراک حاصل کرنے کی کوشش نہ کرسکی جس نے ہمارے قومی وجود کے دو حصے کردیے۔

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ عظیم قومیں جب اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتی ہیں تو ترقی کرتی ہیں، لیکن ہم نے تو حادثات سے بھی سبق نہیں سیکھا اور وہ بھی وطن عزیزکا سب سے بڑا حادثہ مشرقی پاکستان جو اب بنگلہ دیش ہے۔ مشرقی پاکستان کا سانحہ بطور ریاست ہماری قومی ناکامی تھی۔ نہ ہی ہم نے اکثریت کو مانا اور نہ اکثریت کے مینڈیٹ کو۔ اگر 1948، 1956، 1960، 1971 میں ہم نے اکثریتی صوبے کا احترام کیا ہوتا تو مشرقی پاکستان کا سانحہ نہ ہوتا۔

ہمارے مشرقی پاکستان کے بھائیوں یا باسیوں کے دکھ فرضی نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی تھے، لیکن ہماری بیورو کریسی کا مائنڈ سیٹ اکثریت کو ان کا ''لازمی حصہ'' دینے کو تیار نہیں تھا، نہ وسائل میں اور نہ ہی سیاست میں۔ اور سانحہ مشرقی پاکستان کے ظہور پذیر ہونے کی بنیادی وجہ صوبائی خودمختاری کا تصور اور مطالبہ تھا اور صوبائی خودمختاری پر پابندیوں نے ہی محرومی کے احساس کو جنم دیا اور یوں آبادی کے لحاظ سے بڑا صوبہ بے انصافی کے احساس میں مبتلا ہوگیا۔

اس احساس کو لسانی تحریک، معاشی بے انصافی، اکثریتی صوبہ ہونے کے باوجود سروسز میں کم کوٹہ، سیاسی و قومی ڈھانچے میں احساس شرکت کی کمی اور سب سے بڑھ کر طرز حکومت نے دو آتشہ کرکے دونوں بازوؤں کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کردی اور بعدازاں اسے کاٹ کر علیحدہ کردیا گیا۔

بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے اقتدار میں ''را'' ایجنسی قائم کی گئی تھی جس کو پہلا ٹاسک مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کا سونپا گیا جس کا نام ''آپریشن بنگلہ دیش'' تھا۔ اس وقت بھارت نے مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کے لیے شیخ مجیب الرحمن کو نور نظر بناکر ہر طرح کی مدد کی اور آج بھی بھارت پھر سے اپنے گھناؤنے عزائم کی تکمیل کے لیے بلوچستان میں سرگرم عمل ہے جس کے ناقابل تردید شواہد اور اعترافی بیانات بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیو کی شکل میں موجود ہیں۔ 16دسمبر جب بھی آتا ہے اور جب بھی آئے گا مشرقی پاکستان کی ناقابل فراموش تاریخ، یاد اور بنگلہ دیش کے قیام کی تلخ زمینی حقیقت یاد دلاتا رہے گا۔

اگرچہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان کشیدگی کے سیاسی، اقتصادی، جغرافیائی اور لسانی عوامل سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن بھارت نے شروع سے ہی ان عوامل کو ہوا دی تاکہ پاکستان کمزور ہوجائے اور دو قومی نظریے کو جھٹلایا جاسکے۔ سانحہ مشرقی پاکستان دراصل سیاست دانوں کی ناکامی تھی۔ صرف 24 ہزار فوجیوں کے ساتھ مشرقی پاکستان کا دفاع ناممکن تھا۔ پھر وہاں کے حالات پاک فوج کے جوانوں کے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھے۔ خانہ جنگی اور بغاوت کی وجہ سے قدم قدم پر مزاحمت کا سامنا تھا ،اس صورتحال نے سیکیورٹی اداروں کو عملاً بے بس کر دیا کیونکہ ان کے سامنے دشمن کا کوئی واضح تصور نہ تھا۔

بہرحال یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ گزشتہ 47 سالوں میں ریاست کے چار ستون اپنے ذمے کا کردار ادا کرنے اور غلطیوں سے سبق سیکھنے کے قابل نہیں ہوئے اور ہم اب تک اسی طرح کی غلطیاں دہرا رہے ہیں۔ حالانکہ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم بیدار ہوجائیں۔ اگر 1971 کی غلطیوں سے ہم سبق سیکھ لیتے تو ہم ایک موثر اور مستحکم قوم ہوتے لیکن 1947 سے 1971 کے درمیان ہم نے غلطیوں کو دہرایا۔ اکثریت اور اکثریت کی رائے کا احترام ہم اب تک نہ کرسکے، عوام کے مینڈیٹ کو ہمیشہ کوڑے دان میں ہی پھینکا، آئین کا احترام کرنے کی بجائے اس کی پامالی کی جاتی رہی، قانون اور انصاف میں دہرا معیار اور سقم، پارلیمنٹ کا احترام کبھی نہ کیا گیا، جمہوری اقدار کا احترام ہمیشہ طاق نسیاں پر رکھا گیا، ریاست کے تمام ستونوں کا ذمے داری سے کام نہ کرنا، پریس یا میڈیا کو مس گائیڈ کرنا اور ان کو حقائق بتانے سے باز رکھنا۔ یہ اور اسی طرح کی دیگر فاش غلطیاں ملک کو دو ٹکڑے کرگئیں لیکن افسوس صد افسوس ہم آج تک انھی غلطیوں کے امین بنے ہوئے ہیں۔

دراصل جس ملک کی تاریخ یہ ہو کہ تاریخ سے جہاں کبھی کچھ سیکھا نہ جائے، جہاں حافظے کمزور، دماغ سلب اور صرف معدے مضبوط ہوں وہاں اس قسم کے المیے یا سانحے ہی رونما ہوتے ہیں۔ جہاں سیاہ دن صرف زخموں کو کریدنے انھیں ہرا کرنے اور خون کے آنسو رلانے کے لیے آتے ہیں اور پھر آنکھیں بھیگ کر خشک بھی ہو جاتی ہیں۔ 16 دسمبر 1971 کا سانحہ مسلم دنیا کی تاریخ میں ایسا ہے جسے انتہائی شرمناک کہا جائے گا اور اس جیسی ہزیمت کی دوسری مثال کہیں نہیں ملتی۔

بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کا گھناؤنا اعتراف ریکارڈ پر موجود ہے کہ ''مشرقی پاکستان کو دولخت کرنے میں اس وقت کی بھارتی حکومت کا موثرکردار تھا'' لیکن اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ اس سانحے میں ملوث ہمارے ہاں کی کچھ طاقتور شخصیات گوکئی سال پہلے ہی فوت ہوچکی تھیں لیکن ہم سقوط ڈھاکہ مشرقی پاکستان کا انتظار کرتے رہے۔ چنانچہ انھیں اس وقت دفن کیا گیا جب بہت تلخ یادوں کے ساتھ مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوگیا۔ ہر چند انھیں 21 توپوں کی سلامی کے ساتھ قومی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا گیا لیکن انھیں درحقیقت ''حمود الرحمن کمیشن رپورٹ'' میں لپیٹ کر سپردخاک کیا جانا چاہیے تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں