لاہور:
کرکٹ، ہاکی اور اسکواش تین کھیل ایسے ہیں جن میں پاکستان نے نہ صرف غیرمعمولی پرفارمنس کا مظاہرہ کیا بلکہ اس حوالے سے اعلیٰ ترین اعزازات پانے والوں کی پہلی صف میں یا چیمپئن کے مقام پر بھی بہت دیر تک رہا بالخصوص ساٹھ اور نوے تک کی دہائی کے درمیانی تیس برسوں میں تو کئی ایسے دور بھی آئے جب کسی بین الاقوامی مقابلے کے انعقاد سے پہلے ہی یہ باور کر لیا جاتا تھا کہ پہلی پوزیشن تو پاکستان کی ہو گی ہی، اس کے بعد البتہ درجہ بندی میں تبدیلی ہو سکتی ہے
۔ ہماری نسل کی خوش قسمتی کہئے یا بدقسمتی کہ ہم نے اس تصویر کے دونوں رخ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھے ہیں۔ اسکواش میں فی الوقت دور دور تک کسی پاکستانی کھلاڑی کا نام نہیں جب کہ ہاکی میں ہمارے لیے دوسرے راؤنڈ تک پہنچنا بھی ایک پہاڑ بن جاتا ہے بلکہ ایک دو بار تو ایسا بھی ہوا کہ ہم کسی اس طرح کے مقابلے کے لیے سرے سے کوالی فائی ہی نہیں کر سکے۔
کرکٹ میں صورت حال نسبتاً کم خراب ہے کہ تین میں سے ایک فارمٹ یعنی ٹی ٹوئنٹی میں تو ہماری کارکردگی قابل ستائش ہے مگر ون ڈے اور ٹیسٹ رینکنگ میں ہم مسلسل درمیان سے نیچے کی طرف سفر میں رہتے ہیں۔ اس زوال کی بہت سی تنظیمی، تاریخی اور تکنیکی وجوہات بتائی جاتی ہیں جو اپنی جگہ پر کلی یا جزوی طور پر ٹھیک بھی ہو سکتی ہیں مگر ان سب کے باوجود موجودہ صورت حال اور مسلسل پستی کی روش کو سمجھنا اور تسلیم کرنا دونوں ہی کام بہت مشکل ہیں۔
علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ''ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں'' اور یہ کہ نشیب وفراز دونوں زندگی کا حصہ ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ پستی کا عمل جاری تھا تو اس کے ذمے دار لوگ کیا کر رہے تھے؟ اور دوسرے یہ کہ اب اس کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟
پہلے سوال کا جواب ڈھونڈنا تو حکومت وقت، احتسابی اداروں یا متعلقہ شعبوں کے ماہرین کا کام ہے کہ اگر افغانستان کی کرکٹ ٹیم اپنے ملک میں ہونے والی تمام تر خانہ جنگی، بدامنی اور شورش کے باوجود چند برسوں میں اپنے آپ کو منوا سکتی ہے اور چند لاکھ کی آبادی والے ملک ہاکی سمیت مختلف کھیلوں میں بین الاقوامی معیارات پر پورے اتر سکتے ہیں اور برٹش اوپن سمیت اسکواش کے تمام اہم مقابلوں میں پاکستانی کھلاڑی تیس برس تک پہلے نمبر پر رہ سکتے ہیں تو اب ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔
رہی وسائل کی بات تو جتنی رقم آج ان کھیلوں پر خرچ کی جاتی ہے تیس برس پہلے تک اس کا تصور بھی شائد ممکن نہیں تھا۔ اس زوال کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ گزشتہ دس برس سے سیکیورٹی وجوہات کی بناء پر غیرملکی ٹیمیں ہمارے ملک میں نہیں آ رہیں جس کی وجہ سے کھلاڑیوں کو سخت حریف سے مقابلہ کرنے اور ان سے سیکھنے کے مواقع نہیں مل رہے تو اس کے جواب میں یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ اس سے قبل کے بیس برس میں بھی تو یہی کچھ ہو رہا تھا۔ اس دور کی ناقص کارکردگی کی وضاحت کیا ہو گی؟
یا یہ کہ یہ مسئلہ تو صرف ملک کے اندر ہونے والے مقابلوں تک محدود ہے، پوری دنیا میں تو ہم اب بھی مسلسل ہر طرح کے مقابلوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس وقت جاری ہاکی کے ورلڈ کپ میں ہماری ہاکی ٹیم کی کارکردگی اس حد تک افسوسناک ہے کہ اس پر ''افسوس'' کرنا بھی مشکل ہو گیا۔ بلجیم جیسے ملک سے صفر کے مقابلے میں پانچ گول سے ہارنا ایک ایسی حقیقت ہے جسے یہ جانتے ہوئے تسلیم کرنا بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے کہ ابھی اس ملک میں سمیع اللہ اور حسن سردار سمیت درجنوں ایسے سینئر کھلاڑی زندہ ہیں جن کے گھروں میں عالمی سطح کے میڈلز ڈھیروں کی صورت میں رکھے ہیں۔
آج کل مختلف شہروں میں تجاوزات (یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ تجاوزات کے ساتھ ''ناجائز'' کا اضافہ کیوں کیا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں کہیں بھی ''جائز تجاوزات'' نہیں پائے جاتے) کو مسمار کیا جا رہا ہے اور یہ بات بار بار سامنے آ رہی ہے کہ بیشتر ناجائز تعمیرات تفریحی پارکوں اور کھیل کے میدانوں میں کی گئی ہیں جب کہ گلی گلی کھلنے والے نام نہاد انگلش میڈیم اسکولوں میں کھیل کے میدان کا سرے سے تصور ہی موجود نہیں۔
آج کا بچہ آؤٹ ڈور گیمز بھی اپنے موبائل یا کمپیوٹر پر کھیلتا ہے اور یوں اس کی صحت اور جسمانی افزائش دونوں بری طرح سے متاثر ہو رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ اسکولوں اور کالجوں سے ہر سال کھلاڑیوں کی ایک کھیپ نکلتی تھی اور ان کی تربیت کے لیے گراؤنڈ اور متعلقہ سہولیات مہیا کرنا ادارے کی ذمے داری ہوا کرتی تھی اور واضح رہے کہ یہ اسکول بہت کم فیسوں پر طالب علموں کو ایک ایسا ماحول فراہم کرتے تھے جس میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ وہ ہر طرح کی ہم نصابی کارروائیوں میں کھل کر حصہ لے سکیں اور یہ تب کی بات ہے جب کھیل کو ایک مشغلہ یا Passion سمجھا جاتا تھا۔ اب جب کہ یہ ایک باقاعدہ پیشہ Profession بن چکا ہے، تعلیمی اداروں میں لڑکپن اور نوجوانی کے ایام میں ان سہولتوں کا نہ ہونا اس ساری صورت حال کی اصل اور بہت حد تک مکمل وجہ ہے۔
گزشتہ چند برسوں سے سیکیورٹی کی وہ صورت حال بھی مسلسل بہتر ہو رہی ہے جس کے باعث لوگ بچوں کو کھیلنے کے لیے باہر نہیں بھیجتے تھے، سو اب وقت ہے کہ بچوں کو نرسری کی سطح سے کھیلوں کے لیے مواقع، تحریک اور سہولیات مہیا کی جائیں۔ جوں جوں Talent کا یہ پول بڑا ہو گا، بہت سے مسائل آپ سے آپ حل یا کم ہوتے جائیں گے اور اولمپک گیمز سمیت کھیلوں کے ہر چارٹ میں ہمیں پاکستان کا نام نہ صرف یہ کہ ڈھونڈنا نہیں پڑے گا بلکہ یہ پہلی صفوں میں جگمگاتا ہوا نظر آئے گا۔ آزمائش شرط ہے۔