جمہوریت کے ثمرات
پہلا ہماری معیشت کی سنگین حالت، دوسرا افغانستان کا معاملہ۔ مسئلہ افغانستان پاکستان کے لیے ’’ٹرمپ کارڈ‘‘ ہے
www.facebook.com/shah Naqvi
ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ بھارتی آرمی چیف پہلے اپنے ملک کو تو سیکولر بنالیں، ہمیں نا بتائیں کہ ہم نے کیسے رہنا ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف مظالم کا بازار گرم ہے جب کہ پاکستان نے دوسرے مذہب کی بنیاد پر کرتار پور راہداری کھولنے کا فیصلہ کیا۔ آج ملک فیصلہ کن موڑ پر ہے۔ فوج کا تعلق کسی پارٹی یا صوبے سے نہیں۔ فوجی ترجمان نے کہا 70 سال گزر گئے ہم اب بھی عوام کو بتارہے ہیں کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔
یہ نازک دور کیوں آئے اور اس کا ذمے دار کون ہے؟ ہم ماضی میں بیٹھے رہے تو آگے نہیں جاسکتے۔ داخلی طور پر ہماری بہت سی فالٹ لائنز ہیں۔ مذہب اور فرقے کے نام پر اشتعال انگیزی ہے جسے ہمارے دشمنوں نے استعمال کیا۔ فالٹ لائنز میں انھوں نے معیشت، گورننس، جوڈیشل سسٹم، جمہوریت اور جمہوریت میں باریوں کو بھی شامل کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خراب معیشت اور بری گورننس ہمارے اہم مسائل ہیں۔ جمہوریت اور جمہوریت میں باریوں کے ذریعے انھوں نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی طرف اشارہ کیا ہے جس کی وجہ سے جمہوریت دوخاندانوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پارٹیوں میں انتخابات نہ کرانا اور نامزدگیوں سے کام چلانے نے حقیقی جمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچنے نہیں دیے اور اقتدار چند خاندانوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔
انتخابی نظام اتنا مہنگا کردیا گیا ہے کہ عوام کے حقیقی نمایندے ڈاکٹر، انجینئر، صحافی، دانشور، مزدور، کسان ان انتخابات میں حصہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ وراثتی نظام نیچے سے اوپر تک چھایا ہوا ہے۔ زیادہ دور نہ جائیں ابھی حال ہی میں نواز شریف صاحب نے قومی اسمبلی میں اپنے بھائی شہباز شریف کو لیڈر آف دی اپوزیشن نامزد کیا اور شہباز شریف سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے پنجاب اسمبلی میں اپنے بیٹے حمزہ شہباز کو لیڈر آف دی اپوزیشن نامزد کیا باوجود اس کے مسلم لیگ (ن) میں اور بھی بہت سے اہل لوگ ہیں اور اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں کسی نے بھی اس بات پر احتجاج نہ کیا حالانکہ یہ لوگ دن رات جمہوریت کی تسبیح پڑھتے رہتے ہیں۔ پچھلے تیس سال سے پاکستانی عوام مسلسل یہی دیکھ رہے تھے کہ بڑا بھائی وزیراعظم، چھوٹا بھائی وزیراعلیٰ پنجاب، بھتیجا، سمدھی، بیٹی اور دوسرے قریبی رشتہ داروں میں ہی حقیقی اقتدار محدود رہا۔ سابقہ پنجاب کابینہ میں چند وزراء ہی تھے جن کے نام عوام کو معلوم تھے۔
ایک خاتون صوبائی وزیر تھیں جن کا کام سال میں ایک مرتبہ بجٹ تقریر پڑھنا تھا۔ اس کے بعد وہ پورا سال منظر عام پر نہیں آتی تھیں۔ دوسرے وزراء بھی صرف تنخواہ لیتے تھے۔ میڈیا ان کے لیے شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ سابق صدر پاکستان کی رونمائی زیادہ تر سال میں دو مرتبہ مارچ، اگست میں ہی ہوتی تھی۔ اس کے بعد ان کا کوئی اتا پتہ نہیں ہوتا تھا۔ اس کا تقابل موجودہ صدر سے کریں جو ملک کی سیاست اور عوامی معاملات میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب کیا نکلتا ہے کہ سابق حکمران اپنے خاندان کے علاوہ کسی پر اعتماد نہیں کرتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ عوام میں پہچان صرف ان کی ہو کسی اور کی نہ ہو۔ اسے ہی سویلین ڈکٹیٹر شپ کہتے ہیں۔ موجودہ وفاقی حکومت ہو یا پنجاب کی صوبائی حکومت، تمام وزراء بھرپور طور پر میڈیا کے ذریعے اپنا سیاسی کردار ادا کررہے ہیں۔
تو بات فوجی ترجمان کے حوالے سے ہورہی تھی۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہم نازک وقت سے اس مقام پر آگئے ہیں جسے وائرشیڈ کہتے ہیں۔ آج ہم اس وائرشیڈ پر کھڑے ہیں جہاں سے آگے نازک وقت نہیں، یا بہت اچھا وقت ہے یا پھر نازک وقت سے بھی خراب وقت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں دو انتہائی نازک معاملات کا سامنا اگلے سال اگست ستمبر تک کرنا ہے۔
پہلا ہماری معیشت کی سنگین حالت، دوسرا افغانستان کا معاملہ۔ مسئلہ افغانستان پاکستان کے لیے ''ٹرمپ کارڈ'' ہے۔ مسئلہ افغانستان اس وقت ہی حل ہوسکتا ہے جب امریکا پاکستان کی مدد کرے جس میں مسئلہ کشمیر اور پاک بھارت تعلقات سرفہرست ہیں۔ اگر پاکستان نے افغانستان کارڈ صحیح طریقے سے کھیلا تو یہ برصغیر سے افغانستان تک ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ بروس ریڈل جو چار سابقہ امریکی صدور کے ایڈوائزر رہے ہیں چند ہفتے پہلے واشنگٹن میں ایک کانفرنس میں ایسے ہی نہیں کہا تھا کہ مسئلہ افغانستان کے حل کی کنجی پاکستان کے پاس ہے اور امریکا جلد اس مسئلہ کے حل کے لیے وزیراعظم عمران خان کے دروازے پر دستک دے رہا ہوگا۔ باخبر بروس ریڈل کے یہ فقرے جس دن میرے کالم میں چھپے اسی دن امریکی صدر ٹرمپ نے خط لکھ کر عمران خان سے مدد مانگ لی۔
فوجی ترجمان نے اور بھی باتیں کیں۔ انھوں نے میڈیا کے حوالے سے کہا یہ ریاست کا چوتھا ستون ہے۔ اگر ریاست کے تین ستون مضبوط ہوجائیں اور چوتھا ستون میڈیا دھچکے لگاتا رہا تو عمارت کو نقصان ہوگا۔ میڈیا ہی پانچویں جنریشن کی جنگ میں پہلی دفاعی لکیر ہے۔ ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ جب سے عمران خان کی حکومت آئی ہے وہ میڈیا کے شدید دباؤ کا شکار ہے۔ بدترین معاشی حالات کے باوجود عمران خان کی خوشی قسمتی ہے کہ آج بھی انھیں عوام کی حمایت حاصل ہے۔ عوام انھیں معقول وقت دینا چاہتے ہیں۔
سو روزہ کارکردگی کا بہت ڈھول پیٹا گیا۔ سمجھدار باشعور عوام جانتے ہیں کہ عام حالات میں بھی سو دنوں میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی چہ جائیکہ ان بدترین معاشی حالات میں کوئی معجزہ رونما ہونا ناممکنات میں سے ہے۔ کچھ حلقے عوام کو عمران خان سے بدظن کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں۔ اس کوشش کا کس کو فائدہ ہوگا اس کا سب کو پتہ ہے۔ میڈیا اپنی ساکھ کو ملحوظ رکھے۔ جس پر پہلے ہی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ عمران خان کے ووٹر آج بھی عمران کے خلاف پروپیگنڈا سننے سے اس حد تک انکاری ہیں کہ وہ فوری طور پر چینل ہی بدل دیتے ہیں جہاں موجودہ حکومت کے خلاف باتیں ہورہی ہوں۔ اب آپ اسے صحیح سمجھیں یا غلط، حقیقت یہی ہے۔ ان کی کوششیں رائیگاں ہی جا رہی ہیں۔