نومنتخب حکومت اور چیلینجوں کا سیلاب

عوام منتظر ہیں کہ انتخابی دعوے اور وعدے کب حقیقت کا روپ دھاریں گے؟


آصف زیدی July 07, 2013
عوام منتظر ہیں کہ انتخابی دعوے اور وعدے کب حقیقت کا روپ دھاریں گے؟۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: ؎ ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر ؔ مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

یہ شعر اپنے مکمل معنی اور تشریح کے ساتھ ہماری نومنتخب حکومت کے حال پر پورا اترتا نظر آتا ہے۔ الیکشن سے قبل انتخابی مہم کی رونقوں میں موجودہ حکم راں طبقے نے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ عوام کو بہتر سے بہتر حالات زندگی کی نوید سنائی تھی۔ اب جیسے جیسے الیکشن اور حکومت سازی کا بخار اترتا جارہا ہے تو سارے ''دعوے'' اور ''وعدے'' جن کے نعروں کی گونج ہر وقت کانوں میں گونجتی رہتی تھی، مدھم نہیں ہورہے بلکہ ختم ہوتے جارہے ہیں۔

مسندِحکومت پر براجمان لوگوں کو دعویٰ تھا کہ اگر اُنھیں اقتدار ملا تو عوام کے سب دکھ درد بہت جلد دور ہوجائیں گے، لیکن وفاقی حکومت کے پہلے ہی بجٹ نے عوام کی تمام خوش فہمیاں دور کردی ہیں۔ دوسری طرف حکم رانوں کو بھی اندازہ ہورہا ہے کہ اُنھیں صرف ''ایک اور دریا '' کا سامنا نہیں بلکہ مسائل اور چیلینجوں کا سیلاب اُن کی مسند ِ زریں کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اب امتحان سیاسی سوجھ بوجھ، معاملہ فہمی، دُور اندیشی اور فیصلہ سازی کی قوت کا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ نومنتخب حکومت کس طرح قومی اور بین الاقوامی معاملات کا سامنا کرتی ہے۔

تجزیہ نگاروں کے ساتھ اب تو عوام کی بھی سمجھ میں یہ بات آرہی ہے کہ موجودہ حکومت کی 5 سالہ مدت انتہائی کٹھن اور مشکل فیصلوں کی متقاضی ہے۔ اندرون ملک پیچیدہ مسائل کو سلجھانا، ، عالمی برادری کے سامنے عزت و وقار کے ساتھ چلنا اور پاکستان کا سافٹ امیج دنیا کے سامنے لانا ایسے کام ہیں جن کی بجاآوری کے لیے بہت کچھ کرنا ہوگا۔

وزیراعظم میاں نوازشریف چند دنوں میں دوست ملک چین کے دورے پر جارہے ہیں۔ دوسری طرف امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی بھی پاکستان آنے کی اطلاعات ہیں۔ رواں سال صدر مملکت آصف علی زرداری، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت تکمیل کو پہنچ رہی ہے تو دوسری طرف آئندہ سال 2014 میں امریکی افواج افغانستان سے جارہی ہیں۔

ان سب حالات و واقعات کے تناظر میں ضروری ہے کہ ان معاملات اور ترجیحات کا تعین کرنے کی کوشش کی جائے جو نئی حکومت کے لیے ضروری ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ نومنتخب حکومت کو آئندہ دنوں میں کن چیلینجوں کا سامنا رہے گا اور انھیں کون سے مشکل فیصلے کرنا ہوں گے، جن کے ذریعے ملک و قوم کی سلامتی و تحفظ اور خودمختاری پر بھی کوئی حرف نہ آئے اور پاکستان عالمی برادری کی صف میں باوقار انداز میں موجود ہو۔ ہوسکتا ہے کہ زیرنظر نکات حکومت کو امور مملکت چلانے میں رہنمائی فراہم کرسکیں۔

٭ غیرملکی امداد

''خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر'' اور ''اے طائر لاہوتی! اُس رزق سے موت اچھی، جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی'' جیسے بڑے انقلابی نعرے لگانے والوں کے لیے اُن پر عمل کرنے کا وقت آگیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انتخابی دعوے اور وعدے حقیقت کا روپ دھارسکیں گے؟

غیر ملکی امداد اور بیرونی قرضوں کی لعنت سے پیچھا چھڑانا اور ''کشکولِ گدائی'' کو چکنا چور کرنا موجودہ حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلینج ہے۔ کچھ ''عوامی نمائندے'' کہتے ہیں کہ قرضے لینا ضروری ہے مگر عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ قرضے لینا کیوں ضروری ہے؟ اگر حکم راں اور ارباب اختیار اپنا ''وی آئی پی کلچر'' ختم کردیں تو قومی معیشت کے بہت سے مسائل تو ایسے ہی حل ہوجائیں گے۔

ایک رائے ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک امریکی سامراج کے ''عطیات'' اور ''خیرات'' کے بغیر نہیں چل سکتے، حکمرانوں کو یہ تاثر بھی دور کرنا ہوگا۔ ہمارے سیاسی رہنمائوں نے ''دال روٹی کھائیں گے لیکن ملک و قوم پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے'' کے نعرے بہت لگائے ہیں، لیکن عوام منتظر ہیں کہ ایسا کب ہوگا؟ آئی ایم ایف، امریکا اور دیگر ملک بخوشی قرض دینے پر تیار رہتے ہیں کیوںکہ اس کے بدلے وہ حکومتوں سے بہت سے کام لیتے ہیں، اس سارے عمل میں فریقین کا تو فائدہ ہوجاتا ہے، لیکن بے چارے عوام بے چارے ہی رہ جاتے ہیں۔

٭تحریک طالبان و دیگر گروپوں سے مذاکرات

مختلف حلقوں کی طرف سے بار بار زور دیا جارہا ہے کہ ملک میں قیام امن کے طالبان یا کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کیے جائیں۔ واضح رہے کہ یہ وہی طالبان ہیں جنھوں نے ملک کے مختلف شہروں میں ہونے والی کم و بیش تمام ہولناک وارداتوں کو اپنا ''کارنامہ'' قرار دیا ہے۔ ایک جانب کراچی، پشاور، کوئٹہ سمیت مختلف شہروں میں دہشت گردوں کی کارروائیاں تسلسل سے جاری ہیں تو دوسری جانب انہی عناصر کو مذاکرات کی میز پر لانے کی بات کی جارہی ہے۔ ن لیگ کی قیادت کا یہ بڑا امتحان ہے کہ وہ تحریک طالبان پاکستان سے کس سطح پر کس نوعیت کے مذاکرات کرتی ہے؟ اور پاکستانی عوام کو ان مذاکرات کی مد میں کیا قیمت دینا پڑے گی؟ حکم رانوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ عوام ملک میں سب سے زیادہ امن کے خواہاں ہیں، انھیں سروکار نہیں کہ کون ملک چلارہا ہے اور کون نہیں، اگر مذاکرات کے ذریعے ملک میں بم دھماکے، خودکش حملے اور دیگر مجرمانہ کارروائیوں کا سلسلہ ختم ہوجائے گا تو پھر ہرکسی کو ان مذاکرات کی حمایت کرنی چاہیے۔

اس کے علاوہ بلوچستان کے ناراض گروپوں سے بھی گفت و شنید کی جانی چاہیے، تاکہ معدنی وسائل سے مالا مال صوبے کے عوام احساس عدم تحفظ سے نکالا جاسکے، وہاں بھی ترقی کاغذوں میں نہیں بلکہ ہر کسی کو نظر آئے۔



٭ پرویز مشرف

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سابق صدر اور سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی جزا و سزا کا معاملہ نوازشریف حکومت کے لیے ایک ایسی ہڈی بن گیا ہے جسے نگلنا بھی آسان نہیں اور اُگلنا بھی دشوار ترین ہے۔ پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی کارروائی کا آغاز تو ہوگیا ہے، لیکن قومی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اگر پرویز مشرف کے خلاف مقدمے کی کارروائی حتمی انجام تک پہنچی تو سیاسی منظرنامے میں بہت کچھ تبدیلی آسکتی ہے۔

اب دیکھنا ہوگا کہ پرویز مشرف قانونی طریقے سے جزا و سزا کے مرحلے سے گزرتے ہیں یا نہیں۔ وزیراعظم میاں نوازشریف کی حکومت کو بھرپور کوشش کرنی چاہیے کہ تمام معاملات اس انداز میں آگے بڑھیں کہ کسی کو ذاتی رنجش، بغض و عناد کا تاثر نہ ملے۔ آزاد عدلیہ تو بارہا کہہ چکی ہے کہ تمام فیصلے قانون و آئین کے مطابق ہوں گے۔

٭ امریکا سے تعلقات

آئندہ سال افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل انخلا کے بعد کی صورت حال میں واشنگٹن اور کابل دونوں کے لیے پاکستان بہت اہمیت رکھتا ہے۔ موجودہ صورت حال اور مستقبل کے منظرنامے کو دیکھتے ہوئے پاکستان اور امریکا کے بہتر تعلقات ازحد ضروری ہیں، لیکن یہ تعلقات برابری کی بنیاد اور باہمی احترام کے رشتے سے پروان چڑھ سکتے ہیں۔ پڑوسی ملک بھارت امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے، اسلام آباد کو بھی کوشش کرنی چاہیے کہ واشنگٹن سے معاملات شکوک و شبہات سے بالاتر ہوکر آگے بڑھیں اور تمام معاملات باہمی اعتماد اور دوستی کے ماحول میں طے کیے جائیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ عالمی سطح پر تنہائی سے بچنے کے لیے عالمی برادری کے ساتھ چلنا ضروری ہے، لیکن اس ''مشن '' کی تکمیل کے لیے قومی سلامتی، خودمختاری اور اپنی قوم کے جذبات و احساسات کا احترام ملحوظ خاطر رکھنا حکم رانوں کی بنیادی ذمے داری بنتی ہے۔

٭ امریکی ڈرونز کا عفریت

پاک سرزمین پر امریکی ڈرون حملوں نے نہ صرف قومی سلامتی اور خودمختاری پر سوالیہ نشان پیدا کیے ہیں بلکہ ایوان اقتدار میں عوامی نمائندہ ہونے کے دعوے داروں سے بھی پوچھا ہے کہ وہ اس بارے میں کیا صرف مذمت ہی کرتے رہیں گے؟ امریکا کی ان کارروائیوں نے یقینی طور پر کچھ دہشت گردوں کو ہلاک کیا، لیکن ڈرون حملوں میں مرنے والوں کی اکثریت بے گناہ شہریوں ہی کی رہی ہے۔ ان حملوں سے ملک میں امریکا مخالف جذبات میں تیزی آئی، انتہاپسندی میں شدت کا سب کو سامنا ہے اور دہشت گردی کی آگ کے بڑھتے ہوئے ہوئے شعلوں نے بھی پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ن لیگ کے حکم راں اگر ڈرون حملے روکنے میں کام یاب ہوگئے تو یہ ان کی سب سے بڑی کام یابی تصور کی جائے گی، مگر امریکا کو ڈرون حملے کرنے سے روکنا شاید ہمارے جیسے ممالک کے حکم رانوں کے لیے جُوئے شِیر

لانے کے مترادف ہے۔ امن کے لیے اگر تحریک طالبان سے مذاکرات کا راستہ کھولا جاسکتا ہے تو ڈرون حملے روکنے کے لیے بھی امریکا سے بے دھڑک بات کرنا حکم رانوں ہی کا کام ہے۔

٭ دنیا میں پاکستانیوں کا امیج

نائن الیون کے واقعات کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں کو بالعموم اور پاکستانیوں کو بالخصوص مغرب اور امریکا میں بے پناہ مسائل کا سامنا رہا، سیکیوریٹی کی بنیاد پر پاکستانیوں اور مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک گوروں کے دیس میں کیا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ گوکہ اچھے اور برے لوگ ہر معاشرے میں ہوتے ہیں۔ امریکا اور دیگر مغربی ملکوں میں رہنے والوں کی ایک بڑی تعداد مسلمانوں اور پاکستانیوں کے خلاف اپنی حکومتوں کے ناجائز اقدامات کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتی، لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری حکومت کچھ ایسے ٹھوس، مؤثر اور جامع اقدامات کرے جن کے ذریعے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور امریکا و یورپ جانے والے پاکستانیوں کی عزت و توقیر میں اضافہ ہو۔

٭ دہشت گردی

دہشت گردی کے واقعات مختلف صورتوں میں مسلسل جاری ہیں، فائرنگ، ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکے، خودکش حملے، چوری، ڈکیتی، بھتاخوری غرض یہ کہ ملک دشمنوں نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی طریقہ نہیں چھوڑا ۔ ہر افسوس ناک واقعے کے مذمتی بیانات اور اظہار افسوس کے ''معمول'' سے نکلنے کا وقت آگیا ہے۔ سیانے کہہ گئے ہیں کہ ''زمانۂ امن ہی میں جنگ کی تیاری کرنی چاہیے۔''

بیروزگاری کا خاتمہ، مکمل میرٹ پر نوجوانوں کو ان کا حق دینا، ملک بھر کے باسیوں سے یکساں سلوک، امتیازی کارروائیوں کا خاتمہ، ایسے اقدامات ہیں جن کے ذریعے موجودہ حالات کو کافی حد تک سدھارا جاسکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والی کارروائیوں کے تدارک کے لیے مذکورہ نکات پر سچے دل سے پسند و ناپسند کی بیماری سے نکل کر توجہ دی جائے۔

اس کے علاوہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث اور اپنے ''جرائم '' کا اعتراف کرنے والے دہشت گرد عناصر کو سزائیں دینا بہت ضروری ہے ۔ چند روز قبل ہی چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے بھی اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ عدالتیں مجرموں کو سزائیں دیتی ہیں لیکن سزائوں پر عمل نہیں ہوتا۔ اگر دہشت گردوں کو قرار واقعی سزائیں دینے کا سلسلہ شروع ہوجائے تو بہت جلد دہشت گردی اور دیگر جرائم میں کمی نظر آئے گی۔

٭ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

کسی بھی ملک کی ترقی میں توانائی کے وسائل اہم کردار ادا کرتے ہیں، سابقہ دور حکومت میں ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اگر یہ منصوبہ مکمل ہوجاتا ہے تو ہمارے شہروں اور دیہات کو سستی گیس کی فراہمی یقینی ہوجائے گی۔ نومنتخب حکومت کے لیے اس بڑے پروجیکٹ کو اس کی اصل روح کے مطابق مکمل کرنا بھی اہم چیلینج ہے، کیوںکہ امریکا، ایران سے کشیدہ تعلقات کی وجہ سے اس پروجیکٹ کے خلاف ہے اور وہ اسلام آباد پر دبائو ڈال بھی رہا ہے اور مزید ڈالے گا کہ اس منصوبے کو چھیڑا نہ جائے۔ اب ہمارے حکم راں کیا فیصلہ کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب آئندہ مہینوں میں سب کو مل جائے گا۔

٭ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ

عوام کا مطالبہ ہے کہ موجودہ حکم راں بے شک لوڈشیڈنگ ختم ہونے کی کوئی تاریخ نہ دیں، لیکن لوڈشیڈنگ کے عذاب سے انھیں جلدازجلد نجات دلادیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ملک بھر کے عوام بجلی کی اعلانیہ اور غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کو گھنٹوں بھگت رہے ہیں، لیکن کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ معمولات زندگی شدید متاثر ہونے کے ساتھ ملک بھر میں روزانہ کی بنیاد پر کئی ہلاکتیں لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ہورہی ہیں۔ اس پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کوشش کی جائے کہ توانائی کے بحران کو سیاسی مسئلہ بنانے کے بجائے عوامی مسئلہ سمجھ کر حل کیا جائے۔

امید کی جاسکتی ہے کہ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے موجودہ حکم راں اور اسمبلی میں بیٹھے دیگر ارکان ملک و قوم کے لیے کچھ ایسے فیصلے کریں گے جن سے ملک و قوم کو ترقی ملے، عوام سکھ کا سانس لے سکیں، صرف ارباب اختیار کے اختیار اور دولت مند کی دولت ہی میں اضافہ نہ ہو۔ دیکھتے ہیں کہ جمہوریت کی رواں دواں گاڑی عوام کے لیے کیا سوغات لے کر آتی ہے؟ ملک بھر کے عوام منتظر ہیں کہ کہیں سے کوئی اچھی خبر ملے اور وہ اپنی جان و مال اور روزگار کے تحفظ کے ساتھ زندگی گزارسکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں