تنازعات کے سائے میں نیشنل گیمز کا انعقاد

کھیل قومی یک جہتی کی علامت، عہدیداروں میں محاذ آرائی، انجام کیا ہوگا؟


Zulfiqar Baig July 06, 2013
فوٹو : فائل

پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کی عبوری کمیٹی کے زیر اہتمام ملک کی تاریخ میں سب سے خطیر رقم سے منعقد کی جانے والی نیشنل گیمز وفاقی دارالحکومت میں رنگارنگ تقریب کیساتھ اختتام پذیر ہو گئیں۔

عارف حسن کی سربراہی میں کام کرنے والی پی او اے اور اس کے ساتھ وابستہ مختلف فیڈریشنز کے عہدیداروں کی مخالفت نے کھیلوں کو آغاز سے قبل ہی متنازعہ بنادیا تھا،قومی سپورٹس پالیسی کے نفاذ کی حمایت اور اختلاف کرنے والوں کی بیان بازی نے ماحول خوب گرمایا، انٹر نیشنل اولمپک کمیٹی کی طرف سے پاکستان میں پی او اے کی متوازی باڈی کے تحت مقابلوں کے انعقاد پر تحٖفظات کا اظہار بھی کیا گیا،عدالت نے منتظمین کو 32 ویں نیشنل گیمز کا ٹائٹل استعمال کرنے سے بھی روکا لیکن آرگنائزنگ کمیٹی نے وفاقی حکومت کی طرف سے ملنے والے 11کروڑ روپے کی مدد سے لگائی جانے والی رونقیں برقرار رکھیں۔ یاد رہے کہ جنرل عارف حسن گروپ کے زیر اہتمام لاہور میں منعقد ہونے والی نیشنل گیمز میں صرف ایک کروڑ50 لاکھ روپے خرچ کئے گئے تھے۔



اسلام آباد میں قومی کھیلوں کا افتتاح وزیراعظم نواز شریف کے ہاتھوں کئے جانے کی اطلاعات تھیں لیکن ان کی مصروفیات آڑے آگئیں، یہ ذمہ داری سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے پوری کی، مردوں کے 29 اور خواتین کے 11کھیلوں کے مقابلوں میں ملک بھر سے 2ہزار کے قریب کھلاڑیوں نے حصہ لیا، 18مختلف ایونٹس کا انعقاد جناح سٹیڈیم، حمیدی ہال، نصیر بندہ ہاکی سٹیڈیم، گن کلب اور سپورٹس کمپلیکس میں مخصوص کئے گئے وینیوز پر کیاگیا۔ ٹینس، تائیکوانڈو، ٹیبل ٹینس، باسکٹ بال اور کبڈی کے مقابلے نیول سپورٹس کمپلیکس، آ رمی جمنازیم راولپنڈی، اے آر آئی ڈی یونیورسٹی اور شہباز شریف سپورٹس ہال شمس آباد میں ہوئے۔ روئنگ اور کینوئنگ کے مقابلوں کے لیے راول جھیل کا انتخاب کیاگیا تھا۔گالف ایونٹ اسلام آباد کلب میں ہوا، سیلنگ ایونٹ کراچی میں منعقد کئے گئے۔

قومی سطح کے مقابلوں میں ایک اہم قوت سمجھی جانے والے واپڈا کے اسلام آباد گیمز میں شرکت سے انکار کے بعد آرمی کے سکواڈ کی راہ ہموار نظر آرہی تھی، توقعات کے عین مطابق پاک فوج کے اتھلیٹس نے پہلے روز سے گیمز کے اختتام تک اپنی برتری برقرار رکھی، آرمی نے 6464پوائنٹس کیساتھ قائد اعظم ٹرافی اپنے نام کی، سوئمر کرن خان نے 16میڈلز کے ساتھ اپنا ہی ریکارڈ توڑا، پاکستان نیوی نے 2675پوائنٹس کے ہمراہ دوسری اور پنجاب نے 2312کیساتھ تیسری پوزیشن پر قبضہ جمایا۔

گیمز موقع پر پاکستان سپورٹس بورڈ کے سیکورٹی انتظامات انتہائی سخت تھے اسلام آباد پولیس کی نفری بھی پی ایس بی اہلکاروں کے ساتھ سپورٹس کمپلیکس کے داخلی دروازوں اور اطراف میں تعینات رہی، افسوس کی بات یہ ہے کہ کھلاڑیوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرکے برتری حاصل کرنے کے لیے میدانوں میں جان لڑانے کے ساتھ ساتھ جھگڑوں اور ہاتھا پائی سے بھی گریز نہیں کیا، بلوچستان اور سندھ کے کھلاڑیوں کی مار پیٹ کھیلوں کی سپرٹ کا خون کرتی نظر آئی، سندھ کی خواتین کھلاڑیوں نے ٹی اے ڈی اے نہ ملنے پر دھرنا دیا، کئی پلیئرز کو ہوٹل وینیوز سے خاصے دور اور ٹرانسپورٹ کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے مقابلوں کے لیے بروقت وینیوز تک پہنچنے میں دشواری کا سامنا بھی کرنا پڑا، بد نظمی کے چند ایک اور واقعات نے بھی آرگنائزرز کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگایا،کھیلوں کو کا حقیقی سپرٹ کے مطابق انعقاد اور کھلاڑیوں کی شرکت انتہائی ضروری ہے مگر منتظمین بے پناہ مالی وسائل موجود ہونے کے باوجود کئی معاملات میں اس پہلو کو نظر انداز کرگئے۔

میگا ایونٹ کی اختتامی تقریب خاصی یادگار رہی، مہمان خصوصی وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ ریاض حسین پیرزادہ نے سپورٹس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل سید امیر حمزہ گیلانی، پی او اے کی عبوری کمیٹی کے چیئرمین آصف باجوہ ، نیشنل گیمز کی آرگنائزنگ کمیٹی اور سی ڈی اے کے چیئرمین ندیم حسن، سیکرٹری آرگنائزنگ کمیٹی اولمپئن رانا مجاہد، پاکستان اتھلیٹکس فیڈریشن کے صدر میجر جنرل (ر) اکرم ساہی ، آرمی سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کے ڈائریکٹر بریگیڈیئر اقتدار نصیر، اسلام آباد اولمپک ایسو سی ایشن کے صدر بریگیڈیئر (ر) عارف محمود صدیقی اور دیگر اہم شخصیات سمیت شرکت کرتے ہوئے مقابلوں کے کامیاب انعقاد کو ایک بہت بڑی کامیابی قرار دیا۔

اپنے خطاب میں ریاض حسین پیرزادہ نے بجا طور پر کہاکہ کھلاڑی دنیا بھر میں ملک کے سفیر ہیں،ان کی اچھی کارکردگی سے وطن کا پرچم دوسرے ملکوں میں بلند ہوتا، قوم کے وقار میں اضافہ کرنے والے پلیئر قابل فخر ہیں۔نیشنل گیمز میں تمام صوبوں بالخصوص گلگت بلتستان، آزاد جموں وکشمیر اور فاٹاکی ٹیموں نے شامل ہوکر قومی یکجہتی کا ثبوت پیش کیا جو آج پاکستان کی اہم ترین ضرورت ہے، یہی وہ جذبہ ہے جو مشکلات سے نکال کر کامیابیوں اور روشن مستقبل کی ضمانت بنے گا۔



انہوں نے کہاکہ بحیثیت وفاقی وزیر میری اہم ترین ذمہ داری صوبوں کے درمیان محبت،اخوت اور ہم آہنگی کے جذبات کو فروغ دینا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے کھیل بہترین ذریعہ ہیں، حکومت اس بات کا مکمل ادراک رکھتی ہے کہ کھیل کسی بھی ملک کے نوجوانوں کی نشوونما اور تربیت کے لیے انتہائی ضروری ہیں،کوشش ہے آنے والے برسوں میں بھی نوجوانوں کو اپنا ٹیلنٹ دنیا کے سامنے لانے کے ایسے کئی مواقع ملتے رہیںاور وہ آگے چل کر بین الاقوامی مقابلوں میں بھی پاکستان کے لئے گولڈ میڈلز حاصل کریں۔کھیلوں کے ذریعے پیار، محبت اور بھائی چارہ بانٹنے کا پیغام دیا جا سکتا ہے، امید ہے کہ یہاں آنے والے تمام کھلاڑی اور آفیشلز اسلام آباد کے شہریوں کا خلوص اور مہمان نوازی ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

کھیل کسی بھی معاشرے کی رگوں میں دوڑتے لہو کی مانند ہوتے ہیں، سپورٹس کے ہر ایونٹ کی حوصلہ افزائی دراصل نوجوان نسل کے لیے روشن مستقبل کی آبیاری کے مترادف ہے لیکن عہدیداروں میں اختیارات کے لیے کھینچا تانی کسی بھی سطح پر ہو نئی نسل کے لیے اچھی مثال نہیں چھوڑتی، وفاقی وزیر کی طرف سے کھیلوں کے ذریعے قومی یکجہتی کو فروغ دینے کی باتیں خوش آئند ہیں لیکن انہیں پی او اے کی متوازی باڈیز کے تنازع کا بھی کوئی حل نکالنے پر توجہ دینا ہوگی۔ عبوری کمیٹی کے تحت انتخابات میں نیا سیٹ اپ بنایا جاچکا جبکہ عارف حسن گروپ کا اب بھی اصرار ہے کہ آئی او سی چارٹر کے مطابق کوئی اور تنظیم ملکی کھیلوں کی باگ ڈور سنبھالنے کا حق نہیں رکھتی، حکومت نے جلد اس تنازع کا کوئی حل نہ نکالا تو پاکستانی کھیلوں کی دنیا میں جگ ہنسائی ہوتی رہے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں