خواتین کا قتل
ایک طرف خواتین وزارت و صدارت اور سفارتکار کے عہدوں پر فائز ہیں تو دوسری طرف خواتین سے ان کے جینے کا حق چھین لیا گیاہے۔
ایک طرف خواتین وزارت و صدارت اور سفارتکار کے عہدوں پر فائز ہیں تو دوسری طرف خواتین سے ان کے جینے کا حق چھین لیا گیا ہے۔ ملکی و غیر ملکی سطح پر نظر دوڑائیں تو ہر جگہ عورت کا استحصال ہورہا ہے۔ ہندوستان، چین، امریکا، برطانیہ میں بھی اکثر مواقعوں پر دیکھا گیا ہے کہ صنف نازک پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے گئے ہیں۔
ہندوستان میں حال ہی میں ایک اداکارہ جیا خان نے خودکشی کرلی۔ ایک خودکشی کے واقعے پر ہی کیا موقوف، بلکہ سماجی و معاشرتی طور پر اور گھریلو لڑائیوں میں بھی عورت کی تذلیل کی جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی حالات مختلف نہیں ہیں۔ یہاں بھی آئے دن دردناک واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ چند روز قبل کی خبر کے مطابق کلفٹن میں ایک نوجوان فیصل نبی کو قتل کردیاگیا۔ وجہ قتل بڑھتی ہوئی آزادی اور عورت کا غیر مردوں سے میل جول، وقوعے کی جگہ پر ڈانس پارٹی کی محفل جمی ہوئی تھی اور اس دوران ملزم نے فیصل نبی کی دوست معصومہ کو چھیڑنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں فیصل نبی کے اعتراض کرنے پر ملزم منصور مجاہد نے اسے جان سے ہی ماردیا اور بعد میں لاش کو جلانے کی کوشش کی تاکہ حقیقت سامنے نہ آسکے۔ لیکن سچ تو سچ ہے اسے تو عیاں ہونا ہی ہوتا ہے۔ دوسرا واقعہ وہ بھی انھی دنوں پیش آیا یہ سانحہ نوشہرہ کا ہے جو خیبرپختونخوا کا شہر ہے۔ 18 سالہ بشریٰ جو کہ ٹی وی، فلم اور تھیٹر کی اداکارہ ہے اس پر پروڈیوسر نے تیزاب اس وقت ڈالا جب وہ سورہی تھی۔
اگر ہم ان دونوں واقعات کو مدنظر رکھیں تو ہمیں اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے کہ عورت کو اپنے محدود دائرے میں رہ کر ہی زندگی کے امور انجام دینے چاہئیں۔ چونکہ جو بھی شخص یا افراد اپنی اس حدود کو پھلانگتے ہیں جسے مذہب اسلام نے مقرر کیا ہے یا جس کے کرنے کے لیے انسانیت اجازت نہیں دیتی ہے، وہیں خرابی پیدا ہوتی ہے۔ ڈانس پارٹیوں میں شرکت کرنا، ناچنا، گانا، وہ بھی جب تماشائی مرد ہوں تو یقیناً اس قسم کے حالات جنم ضرور لیں گے۔
فی زمانہ خواتین پر بھاری ذمے داری عائد ہوگئی ہے۔ کچھ خواتین تو مجبوریوں کے تحت معاشی مسئلے کے حل کے لیے باہر قدم نکالتی ہیں۔ چونکہ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہوتیں، گھریلو تعلیم وتربیت کو بھی فراموش کردیتی ہیں۔ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ والدین اپنی اولاد پر زیادہ پابندیاں لگاتے ہیں، قدم قدم پر روک ٹوک، اس قسم کا ماحول بھی اولاد کو بغاوت کرنے پر مجبور کردیتا ہے اور گھر کے بیٹے بیٹیاں اپنی مرضی کرنے لگتے ہیں۔ یہ صورت حال بے حد نازک اور تباہ کن ہوتی ہے۔ چونکہ ناتجربہ کاری اور دور اندیشی کے بغیر کیے گئے فیصلے عموماً مستقبل برباد کردیتے ہیں۔ مذکورہ لڑکیاں عمر کے اعتبار سے زیادہ بڑی نہیں ہیں۔ عقل اور سوجھ بوجھ سے بے گانہ ہیں۔ لہٰذا جو دل نے چاہا انجام سوچے بغیر کر ڈالا۔
اس واقعے سے پہلے بھی ایک نہیں بلکہ بے شمار فلم و ٹی وی کی اداکارائیں قتل کی گئی ہیں اور زیادہ تر قتل پروڈیوسروں کے ہاتھ ہوئے۔ آفرین بیگ کے دردناک قتل کو شاید کوئی بھولا ہو۔ وہاں بھی پروڈیوسر کا ہی ہاتھ تھا، زیادہ تر پروڈیوسر غریب لڑکیوں کی بے بسی سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ لڑکیوں کے انکار پر یا زیادہ دوستی بڑھنے اور شادی کے تقاضے پر وہ انھیں جان سے مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہی لڑکیاں تھیٹر، ٹی وی یا فلموں میں کام کرتی ہیں جنھیں گھر والوں کا مکمل تعاون حاصل ہوتا ہے۔ گویا وہ اسی قسم کے آزادانہ ماحول میں پرورش پاتی ہیں۔
اسی وجہ سے انھیں غیر مردوں سے دوستی اور حد سے آگے بڑھنے میں عار محسوس نہیں ہوتا ہے۔ سراسر غلطی والدین کی ہوتی ہے کہ وہ اچھے برے میں تمیز کرنا نہیں سکھاتے ہیں۔ لیکن ایک مسئلہ اور درپیش ہے کہ وہ خود نیکی و بدی میں تفریق محسوس نہیں کرپاتے ہیں لیکن ایسے ہی آزاد روش اختیار کرنے والے گھرانوں میں کچھ لوگ بے حد گھاگ قسم کے ہوتے ہیں۔ وہ دوسروں کا مال بھی لوٹ لیتے ہیں اور اپنے مال واسباب کی حفاظت کرنا انھیں اچھی طرح آتی ہے۔
لیکن سب سے زیادہ شرم اور افسوس کی بات یہ ہے کہ باعزت اور شریف لوگوں میں بھی اس قسم کی کوتاہیاں سرزد ہوجاتی ہیں کہ وہ اپنی اولاد کی مناسب دیکھ بھال نہیں کرپاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کم علمی کے نتیجے میں یہ لوگ ماڈرن بننے کے لیے نہ لباس خراش کا خیال رکھتے ہیں اور نہ ہی انھیں اس بات کا احساس ہوتاہے کہ ان کی اولاد ڈانس پارٹی، کنسرٹ اور اسی قسم کی مغربی طرز پر ہونے والی پارٹیوں میں شرکت کرکے کہیں خود بھی بے جا آزادی کی دوڑ میں کہیں اس جگہ نہ پہنچ جائیں جہاں سے واپسی ناممکن ہوتی ہے اور تباہی و بربادی کے راستے ان سے بغلگیر ہونے کے لیے بے چین ہوتے ہیں۔
آج ایک نہیں ہزاروں لڑکیوں کے اغوا کی رپورٹیں تھانے میں درج ہیں۔ کچھ والدین کے ظلم سے خائف ہوکر فرار ہوتی ہیں اور کچھ پسند کی شادی کرنے کے چکر میں، اگر والدین اپنے بچوں کا خصوصی خیال رکھیں اور دوستوں کی طرح رہیں۔ ان کے جذبات واحساسات میں شامل رہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ لڑکیاں نامحرم کے ساتھ اپنے اس گھر کو چھوڑ کر، جہاں اس نے بچپن بتایا تھا دوڑ لگالیں۔ اپنے پیارے گھر کو چھوڑنا ہرگز آسان نہیں ہے لیکن جہنم جیسے گھر کو باغی فطرت کی لڑکیاں اور لڑکے بڑی آسانی سے خیر باد کہہ دیتے ہیں۔
اگر ماحول اور معاشرے کا قصور ہے تو والدین کا بھی پورا پورا قصور ہے۔ انھوں نے اس کی ایسی تربیت کیوں نہیں کہ اسلامی تعلیمات سے واقف کیوں نہ کرایا کہ وہ نفع ونقصان کی شناخت رکھ سکتیں۔ تو پھر کوئی اس کے پھول سے چہرے پر تیزاب کیوں ڈالتا...؟ کسی غیر مرد میں اتنی ہمت وجرأت اس وقت تک نہ آسکتی جب تک کہ لڑکی کا مکمل فیور حاصل نہ ہو۔ رہی حکومت تو اس نے روشن خیالی کا پروانہ جاری کرکے میڈیا کو بھرپور قسم کی آزادی دے دی اور اس بڑھتی ہوئی آزادی نے بے شمار گھرانوں کو برباد کردیا ہے۔ مجرم کو ہمارے ملک میں اس قدر اختیارات حاصل ہیں کہ وہ کچھ بھی کرلے اس کا بال بیکا نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اسی لیے ہر دوسرا شخص اس قسم کے جرائم میں ببانگ دہل ملوث نظر آتا ہے۔