ریاست کی ذمے داریاں
سب سے پہلے جان و مال کی حفاظت کا مسئلہ‘ روزانہ قارئین ٹی وی پر دکانوں اور راہگیروں پر ڈاکوں کی ویڈیو دیکھتے ہیں۔
KARACHI:
پاکستان ایک ریاست ہے اور بعض افراد کے نزدیک یہ اللہ کی طرف سے مسلمانان ہند کے لیے ایک تحفہ تھا اور اس لیے اس کو ''مملکت خداداد'' بھی کہا جاتا ہے۔ ریاست کے وجود میں آنے کی بہت سے نظریات ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ قابل قبول نظریہ ''عمرانی معاہدہ'' کا ہے' اس نظریے کے مطابق جب انسانوں نے شعور حاصل کیا اور اجتماعی زندگی کی تشکیل کے لیے سماجی زندگی شروع کی تو نظم و ضبط کے لیے ایک نظام کی ضرورت محسوس کی'اس وقت ایک معاہدہ ہوا'جس کے مطابق حکمرانوں کے حقوق و فرائض اور رعایا کے حقوق و فرائض کا تعین کیا گیا۔ اس معاہدے کو معاہدہ عمرانی یا سوشل کنٹریکٹ کہتے ہیں۔
اس معاہدے کے مطابق رعایا کا فرض ہے کہ وہ حکومت کی وفادار ہو اور قانون کے مطابق زندگی گزارے 'حکومت کے فرائض میں عوام کو چار بنیادی حقوق کی فراہمی' جن میں جان ومال کی حفاظت' تعلیم 'صحت اور روزگار کی گارنٹی لازمی ہے' اب دیکھیں گے کہ ریاست پاکستان ان حقوق کو دینے میں کامیاب ہے یا نہیں؟ جہاں تک رعایا کا تعلق ہے تو تقریباً سو فی صد لوگ آئین پاکستان کو مانتے ہیں اور اس کے تحت یا بزور کسی بھی قائم حکومت کی تابعداری کرتے ہیں' قانون کی پابند ہوتی ہے اگر کوئی قانون کی خلاف ورزی کرے تو اس کو سزا دینے کے لیے عدالتیں اور پولیس وغیرہ کے محکمے موجود ہیں۔ اب اس مسئلے کا جائزہ لیں گے کہ آیا ریاست پاکستان اپنے فرائض کی ادائیگی کر رہی ہے یا نہیں؟۔
سب سے پہلے جان و مال کی حفاظت کا مسئلہ' روزانہ قارئین ٹی وی پر دکانوں اور راہگیروں پر ڈاکوں کی ویڈیو دیکھتے ہیں'اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب شہروں میں جان و مال کی حفاظت کا یہ حال ہے' جہاں حکمرانوں کے علاوہ قدم قدم پر تھانے اور چوکیاں ہوتی ہیں' تو پسماندہ اور دور دراز کے علاقوںاور دیہات میں کیا حال ہوگا' جہاں پر تھانے میلوں دور ہوتے ہیں۔ہندوستانی فلموں کی یہ روایت بطور مثل مشہور ہے کہ واردات ہونے کے بعد بہت دیر سے پولیس موقعہ واردات پر آتی ہے'جب تمام گواہ اور شہادتیں ضایع ہوچکی ہوتی ہیں'اگر کسی کے پاس اپنی حفاظت کے لیے اسلحہ اور لوگ موجود ہوں تو اس کی جان و مال محفوظ ہوتے ہیں ورنہ کسی کی بھی جان ومال کی حفاظت کا ذمے ریاست نہیں لیتی ۔واردات کے بعد اگر مظلوم تھانے میں شکایت کرے تو اس کی شامت آجاتی ہے۔
تفتیش کے نام پر پولیس کے کھانے پینے کے اخراجات کے علاوہ نقد رقم بھی دینی ہوتی ہے' گاڑی کا پٹرول بھی مظلوم کے ذمے ہوتا ہے' اس کے بعد عدالتوں کے چکر' وکلاء کی فیسیں'عدالتی عملے کی خوشامد اور نقددینے کے بعد بھی تاریخ پر تاریخ' ہر تاریخ پر نذرانہ۔ ظالم اگر مضبوط ہو تو اچھے سے اچھا وکیل اور پولیس اس کی جیب میں۔ پشاور سے تو بہت اچھے اچھے خاندان اسلام آباد اور دوسرے شہروں میں منتقل ہوگئے ہیں کیونکہ دہشت گردی کے علاوہ اغواء برائے تاوان اور بھتہ خوری کے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔پولیس ان وی آئی پی حضرات کی حفاظت کرتی ہے جو اپنی حفاظت کاانتظام کرسکتے ہیں اور غریب عوام کو خدا کے آسرے پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
ریاست تعلیم کی ذمے داری سے بھی انکاری ہے 'اگر دولت ہو تو اچھے سے اچھے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے اور اگر عام رعایا ہو تو ٹاٹ اسکول اور دینی مدرسے حاضر ہیں اس پر گزارہ کرنا ہوگا۔ کسی قوم کے مستقبل کا دار و مدار تعلیم کے معیار پر ہوتا ہے'پاکستان کے حکمرانوں نے اپنی نظریاتی خام خیالیوں' ذہنی انتشار اور بھول بھلیوں کو نظریہ پاکستان کا نام دے کر اس کو سچ ثابت کرنے کے لیے تعلیم کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ پاکستانیت اور اسلام کے نام پر نصاب تعلیم کو قومی یکجہتی کا وسیلہ بنانے کے بجائے قومی تقسیم کا ذریعہ بنا دیا ہے' ہزاروں سال سے یہاں رہنے والی قوموں کی تاریخ' ثقافت اور تہذیب کو کورس کی کتابوں سے باہر کر دیا' سائنس اور ٹیکنالوجی بھی خام ہے' پانچوں قومی زبانوں کو اردو اور انگریزی کا غلام بنا دیا۔
اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے تحریک پاکستان کے مقاصد کے حوالے سے اچھے خاصے جمہوریت پسند اور سیکولر قائد اعظم کو زبردستی شیروانی پہنا کر اور مذہبی لبادہ اوڑھا کر متنازعہ بنا دیا' انتہا پسندی کو اسلام اور جہاد کا مقدس نام دے کر خارجہ اور دفاعی پالیسی کا حصہ بنا دیا اور پوری قوم کو ''نان اسٹیٹ ایکٹرز'' کے ہاتھوں یرغمال بنا دیا گیا۔ تعلیم کے میدان میںانگلش میڈیم بمقابلہ اردو میڈیم 'A لیول 'O لیول بمقابلہ بورڈ امتحانات' بیکن ہاؤس بمقابلہ ٹاٹ اسکول'مدارس کا درس نظامی بمقابلہ اسکولوں کا ملغوبہ نصاب۔ائر کنڈیشنڈگاڑیوں میںاسکول جانے والی نسل بمقابلہ چلچلاتی دھوپ اور ٹھٹھرتی سردیوں میں پیدل میلوں سفر کرنے والے بچے 'غرض تعلیم کے نام پر عجیب عجیب نسلیں تیار ہو رہی ہیں۔
اس سارے نظام تعلیم میں ایک اعتدل پسند'روشن فکر'جمہوری اور قوم پرست پاکستانی ، پنجابی، پختون، سندھی اور بلوچ کا چہرہ غائب کر دیا گیا ہے۔معاشرہ ایک چڑیا گھر بن چکا ہے' جس کے ہر پنجرے سے الگ الگ شکلوں کے جانور برآمد ہو رہے ہیں'کیا قوم کو متحد کرنے کے بھاشن دینے والے سیاستدان یہ نہیں سمجھتے کہ ایسی قوم منتشر تو ہوسکتی ہے لیکن متحد نہیں۔ ایسا نظام تعلیم جو ایک روشن فکر پاکستانی پیدا کرے نہ کہ ایک طرف جہادی اور دوسری طرف انگریزی بابو۔ دونوں اپنی تاریخ' تہذیب' روایات اور ثقافت سے نا بلد' ہمارے سیاستدان ہر وقت ان تمام خرابیوں کی جڑ سابقہ حکومتوں اور جنرل ضیا کو قرار دیتے ہیںتو کیا اب وقت نہیں آگیا کہ ان گندگیوں کو صاف کر دیا جائے ۔
عام سرکاری اسکول جو غریب کے بچوں کے لیے آخری سہارا ہیں نہ کبھی اچھا نتیجہ دے سکتے ہیں اور نہ یہاں کبھی صحیح پڑھائی ہوسکتی ہے کیوں کہ ان اسکولوں میں کسی وزیر' سیکریٹری 'ڈائریکٹر 'چیئر مین' ڈی سی' ایس پی' استاد ٖحتی کہ کسی چپڑاسی کا بچہ بھی نہیں پڑھتا'وزیر اعلی سے لے کر استاد تک سرکاری ملازمین بھی جو تنخواہ سرکاری اسکولوں کے بچوں کا معیار تعلیم بلند کرنے کی وصول کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے لیے بھیجتے ہیں کیا یہ تضاد قابل برداشت ہے؟۔
عجیب صورت حال ہے کہ صوبوں کے غیر ترقیاتی بجٹ کا زیادہ حصہ ان اسکولوں کی مد میں خرچ ہوتاہے' وزیر تعلیم' سیکریٹری' جائنٹ اور ڈپٹی سیکرٹریوں کی فوج ظفر موج' ڈائریکٹریٹ کے افسران' مختلف بورڈوں کے چیئر مین صاحبان' لاکھوں اساتذہ کرام اور دیگر ملازمین سب مل کر خدا جھوٹ نہ بلوائے تو قوم کے خون پسینے کی آمدنی کے اربوں روپے ہڑپ کر جاتے ہیں' اگر یہی رزلٹ دینا تھا تو پھر تو اس محکمے کی سربراہی کوئی پانچ ہزار روپے والا چپڑاسی بھی کر سکتا ہے ۔ایک اور قسم کا نظام تعلیم درس نظامی کی شکل میں مدرسوں میں پڑھایا جا رہا ہے ان ادار وں میں وہ بچے تعلیم حاصل کرتے ہیںجومعاشرے کے سب سے محروم طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہ نظام تعلیم ازمنہ وسطی کے نسیم حجازی کے ناولوں والے کردار پیدا کر رہے ہیں' کیا ان سب کنفیوژن کو دور کرنا تعلیم کے نام پر بڑی بڑی تنخواہیں وصول کرنے والے وزیروں اور سیکرٹریوں کا کام نہیں؟ سرکاری اور نجی اسکول الگ الگ نسل پیدا کر رہے ہیں۔ ایک طرف اسکولوں کے سامنے موٹروں کی قطاریں کھڑی بچوں کی چٹھی کا انتظار کر رہی ہوتی ہیں تو دوسری طرف دھوپ میں پسینے میں شرابور یا سردی سے ٹھٹھرتے بچے میلوں پیدل گھر جا رہے ہوتے ہیں۔
ایک طرف انگریزی خواندہ بچے اپنی مادری زبان نہیں بول سکتے' دوسری طرف مدارس سے طالبان کی فوج نکل رہی ہے جو صرف عربی زبان جانتی ہے' سرکاری اسکولوں کے بچے تو کسی قطار شما ر میں نہیں ہیںوہ تو نہ اردو بول سکتے ہیں اور نہ انگریزی۔ معاشرے کو ایک سازش کے تحت تقسیم کر دیا گیا ہے' ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم کے شعبے میں ایمرجنسی لگا کر ایک بڑا آپریشن کیا جائے ورنہ ہمارا نظام تعلیم صرف ''شاہ دولے کے چوہے'' ہی پیدا کرتا رہے گا۔ریاست کی باقی فرائض کے بارے میں آیندہ۔